پاک افغان صورتحال اور دہشت گردی

ایڈیٹوریل  پير 25 مارچ 2013

شمالی وزیرستان کے صدر مقام میرانشاہ میں سیکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر خودکش حملے میں شہید ہونیوالے اہلکاروں کی تعداد 17 ہوگئی ۔ ہفتہ کو خودکش بمبار نے عیسیٰ چیک پوسٹ سے بارود سے بھرا واٹر ٹینکر ٹکرا کر دھماکا کیا تھا جس میں 8 اہلکار موقع پر شہید اور 20 زخمی ہوئے تھے۔ آئی ایس پی آر نے حملے میں 17ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔

ملک کے شمالی اور بعض قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات افسوس ناک ہیں ،ان وارداتوں کا مقصد پاکستان کی سالمیت اور امن و امان کو تہس نہس کرکے غیر ملکی ایجنڈے کی تکمیل ہی دکھائی دیتی ہے ورنہ اس علاقے کے عوام اور جنگجو قبائل کا ماضی میں پاکستان کے دفاع کی رضاکارانہ خدمات کا ایک شاندار ریکارڈ موجود ہے ۔ سکیورٹی فورسز پر حملے کی حالیہ واردات کی کڑی بھی در حقیقت افغانستان کی داخلی صورتحال اور طالبان کی افغان صدر حامد کرزئی سے مخاصمت سے ملتی ہے جب کہ نائن الیون نے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کو علاقے میں انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں الجھا دیا ہے جس کے باعث مختلف گروپ ریاستی رٹ کو چیلنج کرتے ہوئے پر تشدد وارداتوں میں ملوث ہیں۔

حکومت اس سے نمٹنے کے لیے اپنی حکمت عملی پر کاربند ہے اور انتہا پسندوں کے ٹھکانوں کو ہدف بنایا جارہا ہے ۔در اصل طالبان پر پاکستان کے تمام شہروں کو وزیرستان بنانے کا جنون سوار ہے اس لیے کراچی ،کوئٹہ ،خیبر پختونخوا اور پنجاب ان کے بم دھماکوں اور خود حملوںکا نشانہ بنتے رہتے ہیں، اسی دہشت گردی کے باعث کراچی کے مختلف علاقوں میں ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ کوئٹہ میں خونریزی کا مقصد بھی ملک میں عدم استحکام پیدا کرنا ہے،وہاں حکومتی رٹ قائم کرنے کی سخت ضرورت ہے جس کے لیے سندھ اور بلوچستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ملزموں کی نقل وحمل کو روکنے کے لیے اشتراک عمل ناگزیر ہے۔

کراچی غیر قانونی تارکین وطن ، ٹارگٹ کلرز ، انتہاپسندوں،انٹرنیشنل کرمنلز اور فرقہ وارانہ قتل و غارت میں ملوث عناصر کا گڑھ بن چکا ہے جس پرسپریم کورٹ نے بہیمانہ وارداتوں میں ملوث ملزمان کو ہر قیمت پر گرفتار کرنے کا حکم دے دیا ہے اور آئی جی سندھ بھی تبدیل ہوچکے ہیں، اس حقیقت کو بھی جھٹلانا ممکن نہیں کہ دہشت گرد تنظیموں نے ملک کے گنجان آباد علاقوں میں اپنے نشیمن بنائے ہیں اور گینگز کی صورت ان کے نیٹ ورک اس قدر طاقتور ہوچکے ہیں کہ ان پر ہاتھ ڈالنے کے لیے پولیس اور رینجرز حکام بھی گریزاں نظر آتے ہیں، یہ المیہ ہے کہ اعلیٰ پولیس اور رینجرز حکام کراچی کے نو گو ایریاز میں داخل ہونے سے انکاری ہیں۔کوئٹہ میں شورش کو روکنے کے لیے بڑے پیمانہ پرد لیرانہ حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔

بلاشبہ پاکستان کی داخلی بدامنی سے افغانستان کی ابتر صورتحال الگ نہیں، افغانستان میں امن پاکستان میں امن سے مشروط ہے جس کے لیے امریکا اور طالبان سمیت پاکستان سے مکالمے کی راہ ہموار کرنا وقت کا تقاضہ ہے۔ پاکستان کو کثیر فریقی مذاکرات سے نکال کر کوئی بات چیت نتیجہ خیز نہیں ہوسکتی۔ افغانستان کو بد امنی اور پاکستان سے بدگمانی کا خاتمہ کرنا ہوگا۔یہاں قابل ذکر امر یہ ہے کہ امریکا اور افغانستان کے درمیان بگرام جیل کو افغان حکومت کے حوالے کیے جانے کا معاہدہ طے پاگیا ہے۔ امریکی وزیر دفاع سے بات کرتے ہوئے افغان صدر حامد کرزئی نے یقین دہانی کرائی کہ بگرام جیل سے خطرناک قیدیوں کو نکلنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ گزشتہ سال ستمبر میں امریکا نے بگرام جیل کو جزوی طور پر افغانستان کے حوالے کردیا تھا تاہم 50 غیر ملکی اور 100افغان قیدیوں کی نگرانی بدستور امریکی فوج کے پاس تھی۔

اس جیل میں تین ہزار کے قریب طالبان اور مشتبہ دہشت گرد قید ہیں ۔ایک اطلاع کے مطابق افغانستان کے صدر حامد کرزئی طالبان کے مجوزہ رابطہ دفترکے قیام کے معاملے پر بات چیت کے لیے قطر کادورہ کریںگے جوممکنہ امن مذاکرات کاآغازثابت ہوسکتا ہے لیکن مذاکرات کی برف اس وقت ٹوٹے گی جب طالبان حامدکرزئی کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی حامی بھرلیں،وہ تو بات چیت پر رضامند نہیں ۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکا ، یورپی ممالک اورقطر کے امیر مل کر افغانستان میں امن اور اس سے منسلک پاکستان کی سلامتی کے لیے دوررس فیصلے کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔