ڈاکٹر فضل الرحمن انصاریؒ کا علمی وتبلیغی کردار

محمد سرفراز صابری  منگل 2 اپريل 2013

ڈاکٹر حافظ محمد فضل الرحمن الانصاری القادری رحمۃ اللہ علیہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے وہ بیک وقت ایک عظیم خطیب ونامور عالم دین ، بلند پایہ مقررومصنف، مذاہبِ عالم اورعلوم شرقیہ و غربیہ کے ماہر ، عظیم فلسفی و منطقی، ماہر سیاسیات و اقتصادیات ، واقف سماجیات و عمرانیات ،ایک بہترین محقق اور ماہر علوم جدیدہ و قدیمہ تھے۔

متفرق عالمی زبانوں میں تحریر وتقریر پر ایسا عبور کہ تعلیم یافتہ طبقہ آپ کی سحر انگیز علمی و روحانی شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا،یہی وجہ ہے کہ نہ صرف برصغیر پاک و ہند بلکہ افریقی و یورپی ممالک میں بسنے والے کروڑوں مسلمان آج بھی ڈاکٹر صاحب کی اس عظیم و ہمہ جہت شخصیت کے سحر میں مسحور نظر آتے ہیں۔آپ ستائیس (27) سے زیادہ علوم پر مکمل دسترس رکھتے تھے اورآپ نہ صرف جسمانی امراض کے ماہر ہومیو پیتھی ڈاکٹر ہی نہیں بلکہ روحانی امراض کے بہترین معالج بھی تھے۔ اس تحریر میں حضرت ڈاکٹر حافظ محمد فضل الرحمن الانصاری القادری رحمۃ اللہ علیہ کی اس ہمہ جہت شخصیت کے صرف دو پہلوؤں کو زیر بحث لائیں گے۔

عالمی سطح پر عیسائیت کے ساتھ ساتھ کفروالحاد کی جن دوسری تحریکوں نے اسلامی عقائد و نظریات پر کاری ضرب لگائی تھی ان میں لادینیت ، اشتراکیت اور سرمایہ داریت وغیرہ شامل تھیں ۔یہ وہ حالات و مسائل تھے جو ڈاکٹر حافظ محمد فضل الرحمن الانصاری القادری رحمۃ اللہ علیہ کی اوائل عمری میں بامِ عروج پر تھے ان احوال میں ڈاکٹر انصاری صاحب علیہ الرحمہ نے محسوس کیا کہ اس وقت مسلمانوں میں دو سطحوں پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے یعنی ’’اسلام کی تعلیم و تبلیغ ‘‘۔

ڈاکٹر انصاری صاحب علیہ الرحمہ صرف قول کے قائل نہیں بلکہ آپ علیہ الرحمہ عمل پر یقین ِ کامل رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ علیہ الرحمہ صرف یہ تجاویز دیکر خاموش بیٹھ نہیں گئے بلکہ آپ نے اپنی تجاویز کے مطابق ابتداء اپنے گھر سے کی اور ایک ایسا اپنی مثال آپ، انوکھا اور عظیم ادارہ جہاں قرآن و حدیث ،فقہ،ادب عربی اور دوسرے تمام علومِ اسلامیہ کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ علومِ عصریہ جیسے انگلش لٹریچر، تقابلِ ادیان ، اکنامکس، لسانیات، پولیٹکل سائنس، جدید فلاسفی، سائیکالوجی، جدید اخلاقیات، جغرافیہ،جدید مغربی تہذیب وغیرہ جیسے وہ تمام مضامین جو معاشرے کے تمام تقاضوں سے ہم آہنگ اور ضرورتوں کو پورا کرنیوالے ہوں، کے لیے علیمیہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز جیسے عظیم ادارے کو قائم کیا۔ جہاں سے فارغ التحصیل علماء و مبلغین معاشرے میں ایک نمایاں مقام اور حیثیت رکھتے ہیں۔

دنیا بھر (تقریبا35 ممالک سے زائد) سے متلاشیان علم و حکمت اپنی پیاس بجھانے کے لیے کچھ عرصہ قیام کر کے نہ صرف اپنی علمی پیاس بجھاتے ہیں بلکہ اس ادارے کا مکمل پرتو بن کر دنیا کے مختلف علاقوں میں علم و حکمت کی شمع روشن کر نے کے لیے اپنی تمام توانائیاں تبلیغ اسلام کے عظیم فریضہ کو انجام دینے میں صرف کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر محمد فضل الرحمن انصاری ؒ کی یہی پکار ہے:

’’ لوٹ آو قرآن کی طرف ۔لوٹ آؤ محمد ﷺ کی طرف‘‘

ڈاکٹر محمد فضل الرحمن انصاری علیہ الرحمہ کے نزدیک تبلیغ دین کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ دنیا کے مختلف ادیان و مذاہب ،نظریات و افکار اور تہذیب و تمدن کے خلاف چند کتب لکھ دیں اور سمجھ لیا کہ میں نے تبلیغ ِ دین کا فریضہ بحسن و خوبی پورا کر دیا بلکہ در حقیقت ڈاکٹر صاحب علیہ الرحمہ کے سامنے جو اہم ترین مسئلہ تھا ،وہ جدیدیت کے روپ میں مادیت تھی جس نے پوری انسانیت کو بالعموم اور مسلم دنیا کو بالخصوص متأثر کیا تھا اور ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی اس کشمکش میں مبتلا تھا کہ لادینیت اور مادیت کی طرف سے ہونے والی یلغار کو کس طرح روکا جائے ؟ اب اس کے دو ہی راستے تھے یا تو اسلام کو جدت دی جائے یا پھر جدیدیت کو اسلامی بنایا جائے ۔

بدقسمتی سے ہمارے مفکرین و دانشور پہلے ہی دو طبقوں میں تقسیم تھے اور ایک دوسرے کو دشمن خیال کرتے تھے جس کے باعث قرآن و حدیث سے واقف لوگ علوم جدیدہ سے ناآشنا تھے اور فکرِ جدید کی آڑ میں جو اسلام دشمنی ہو رہی تھی اس سے یکسر بے خبر تھے جب کہ دوسرا طبقہ جو فکرِ جدید سے واقف اور اس سے متأثر بھی تھا،بد قسمتی سے علوم اسلامیہ سے بے خبر رہا اور علماء و مشائخ کے سامنے جانا اپنی توہین تصور کرتا تھا ۔

اور یوں ان دونوں طبقوں کے درمیان حائل خلیج وسیع تر ہوتی چلی گئی جس کا فائدہ اغیار نے اٹھاتے ہوئے ڈارون کے نظریہ ’’ ارتقاء‘‘ اور کارل مارکس کے نظریہ ’’ جدلیت‘‘ اور اس جیسے دیگر نظریات کی صورت میں اسلامی نظریات و عقائد پر شدید حملے کرنا شروع کر دیے اور ہمارے جدید طبقہ کے دانشوروں کو متأثر کیا۔اس گھمبیر صورتِ حال میں اہم سوالات یہ تھے کہ آخر مذہب کی ضرورت کیا ہے ؟ اس کا مقام و مرتبہ کیا ہے ؟ دیگر علومِ جدیدہ سے اس کا تعلق کیا ہے ؟ انسانیت کے حوالے سے اس کا کردار کیا ہے ؟ اور کیا یہ انسانی زندگی کے لیے ناگزیر ہے ؟ لہٰذا ضروری تھا کہ پہلے مذہب کے مقام و حیثیت کا تعین کیا جائے اور پھر اس میں اہم ترین ذریعۂ علم اور مذہب کا ستون ِ اعظم اور اعلی ترین ذات کی موجودگی کے متعلق حقائق واضح کیے جائیں۔

ڈاکٹر محمد فضل الرحمن انصاریؒ کی تصانیف کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا سوالوں کو ڈاکٹر صاحب علیہ الرحمہ کی تحریر و تقریر میں ہمیشہ اولیت اور اہمیت حاصل رہی ہے چنانچہ ڈاکٹر صاحب علیہ الرحمہ اپنی کتاب “Foundation of Faith” میں اسلام کی دیگر مذاہب و افکار پر برتری ثابت کرنے کے بعد لکھتے ہیں ’’ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وحی پر مبنی دینی تعلیم کو انسان کی کامیابی کے لیے مرکزیت حاصل ہے بمقابلہ فلسفہ ، آرٹس اور سائنس کے۔ دینی تعلیم ہی انسانی سوچ و فکر کو صحیح مقام و منصب عطا کرتی ہے اور یہی ایک بہترین عنصر ہے جو علم کی تمام شاخوں کے مسائل کی بہتر خدمات انجام دے سکتا ہے یہی وہ اعلی و برتر علم ہے‘‘۔

اس طرح ڈاکٹر صاحب علیہ الرحمہ نے ثابت کر دیا کہ وحی کے بغیر سب ظن و گمان ہے جب کہ مذہب حقائق سے پردہ اٹھاتا ہے اور حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے اور یوں مذہب ہماری زندگی میں ناگزیر اور لازمی عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب علیہ الرحمہ کی تحریروں کا اہم موضوع ایک اعلی و برتر ذات کا تصور واضح کرنا ہے جو آپ کی اس تصنیف میں نمایاں ہے اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب علیہ الرحمہ کی دیگر تصانیف ’’ ایمان کی بنیادیں ، اسلام بمقابلہ مارکس ازم ، اسلام و عیسائیت موجودہ زمانے میں، مذہب بذریعہ سائنس و فلسفہ، اسلام اور اشتراکیت ، مسلم معاشرے کی تعمیر اور اس کی قرآنی بنیادیں، اسلام اور مغربی تہذیب ، ان کے علاوہ ڈاکٹر صاحب علیہ الرحمہ کی دیگر تصانیف جنھیں دیکھنے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ڈاکٹر انصاری صاحب علیہ الرحمہ کو کن حالات کا سامنا کرنا پڑا اوروہ ان سے کیسے نبرد آزما ہوئے۔

ڈاکٹر انصاری صاحب علیہ الرحمہ نے اپنے مرشدِ کریم سفیرِ اسلام حضرت مولانا شاہ عبد العلیم صدیقی مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی نورانی معیت و سرپرستی میں اور انفرادی طور پر پانچ مرتبہ عالمی تبلیغی دورے فرمائے ( مختصر اور حکومتی سطح کے دورے ان کے علاوہ ہیں) اور قومی و بین الاقوامی سطح پر ۰۴ تنظیموں کو ملا کر ورلڈ فیڈریشن آف اسلامک مشنز کی بنیاد رکھی جو عالمی تحریک کی جانب پہلا قدم تھا۔ اس طرف آپ خود بھی اشارہ فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج مسلمانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ ایک وسیع اور عالمی تبلیغی تحریک قائم کریں تا کہ منتشر مسائل کا مقابلہ اتحاد سے کیا جاسکے۔ اسلام کے اس عظیم نابغہ روزگار ، جلیل القدر عالم دین اور اسکالر نے 3 جون 1974 کو کراچی میںداعیٔ اجل کو لبیک کہا اور یہیں مدفون ہوئے۔

آسمان ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔