انتخابی ستاروں کی چال

طلعت حسین  جمعـء 26 اپريل 2013
www.facebook.com/syedtalathussain.official

www.facebook.com/syedtalathussain.official

پاکستان کی سیاست میں ایک دن طویل عرصہ ہے۔ سب کچھ چوبیس گھنٹوں میں تبدیل ہو جاتا ہے، کایا پلٹ جا تی ہے۔ برج الٹ جاتے ہیں، لہٰذا گیارہ مئی کو ہونے والے انتخابات کے بارے میں پیش گوئی کرنے والے خود کو شرمندگی کے خطرات سے دوچار کر رہے ہیں مگر اس کے باوجود بعض پہلو انتہائی دلچسپ ہیں جن پر محتاط رائے کا اظہار ضروری ہے مثلا َجماعتوں کی سیاسی کیفیت کے بارے میں ہم یہ کہہ  سکتے ہیں کہ کون اس وقت نسبتََا بہتر حالت میں ہے اور کون سی جماعت مشکلات اور پریشانیوں کا شکار ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی شاید تمام دوسری سیاسی جماعتوں کی نسبت سب سے زیادہ مشکلات میں جکڑی ہو ئی ہے۔

ماضی کی قربانیاں اب عوام کی عدالت میں اس خالی ڈھول کی طرح لگ رہی ہیں جو بار بار بجانے کی وجہ سے سمع خراشی کے سوا کوئی اثر نہیں چھوڑتا اور پھر پانچ سال کے عذاب جو عوام نے بھگتے ہیں اور جن سے گھریلو عورتیں سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں، انتخابی مہم کی چکا چوند کو ماند کیے ہو ئے ہیں۔ ترقی کے نعرے عجیب لگ رہے ہیں۔ عوام کی خدمت کے دعوے سننے والے ہنس دیتے ہیں مگر سب سے بڑا مسئلہ قیادت کا ہے، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ بھر پور عوامی قیادت کے بل پر اپنے ووٹروں کو ولولہ عطا کیا۔ بھٹو خاندان کی سیاسی تاریخ میں سے اگر آپ تقریر اور جلسہ نکال دیں تو ان کے کارنامے آدھا وزن کھو دیں گے۔

دلوں میں جوش پیدا کرنے والی یہ قیادت اب منوں مٹی تلے دفن ہے۔ میدان آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ میں ہے، ایک کے پاس بولنے کو کچھ نہیں ہے اور دوسرا بولنے سے قاصر ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا ویڈیو خطاب قیادت کا نمونہ کم اور فریاد زیادہ محسوس ہو رہا تھا۔ سیاسی طور پر پیپلز پارٹی اپنے انتخابات کی تاریخ میں بدترین حالات سے دو چار ہے۔ انتخابی مہم کا پانی ضرور بہایا جا رہا ہے لیکن زمین اتنی ریتیلی ہو چکی ہے کہ بہت کم جگہوں پر سیرابی کے اثرات نظر آتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز شاید اس وقت سب سے بہتر پوزیشن میں ہے۔

اس کے پاس اوسطاََ امیدوار تگڑے ہیں اس نے تمام صوبوں میں سیاسی اتحاد سوچ سمجھ کر بنائے ہیں اور پنجاب میں حکومت کرنے کا فائدہ بھی خوب اٹھا یا ہے۔ یہ درست ہے کہ ترقیاتی کاموں سے از خود ووٹ نہیں مل جاتے بالخصوص ایسے ترقیاتی کام جن پر ابتدا سے ہی تنازعے کے بادل چھائے رہے ہوں لیکن شہری علاقوں میں مختلف اسکیموں کے ذریعے ممکنہ ووٹروں کو اپنی طرف مائل کیا جا سکتا ہے اور عمومی طور پر یہ تصور بھی پیدا کیا جا سکتا ہے کہ کس جماعت کو حکومت کرنے کا فن آتا ہے۔ نواز شریف اور شہباز شریف نے الیکشن کی کمپین ایسے بانٹی ہے کہ زیادہ سے زیادہ علاقوں کا دورہ کر کے جلسوں کا انعقاد کیا جا سکے۔ ایک اکیلا اور دو گیارہ کی مثال یہاں پر صادق آتی ہے۔

اگر آپ مختلف حلقوں کا دورہ کریں تو یہ جان پائیں گے کہ امیدوار اپنی سیاسی قیادت کو اپنے حلقے میں پندرہ بیس منٹ کا جلسہ کروانے کے لیے کیسے کیسے پاپڑ بیلتے ہیں۔ ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ بڑے لیڈر کی آمد کے بعد وہ تمام د ھڑ ے جو ابہام کا شکار ہیں یقین کے ساتھ اس کے پیچھے بھاگ کھڑے ہوں گے اور اس سے اس کا مقامی طور پر قد بھی بڑٖا ہو جائے گا۔ انتخابات کے بالکل قریب زیادہ سے زیادہ جلسے کرنے والی قیادت کسی حد تک مقامی مخالفین کو پچھلے پائوں پر کھیلنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ن لیگ نے قومی سطح پر یہ تصور بھی کامیابی کے ساتھ پھیلا دیا ہے کہ اگلی حکومت اس جماعت کی ہو گی۔ اگر یہ تصور موثر انداز سے اور مسلسل تشہیر پاتا رہا تو نفسیاتی طور پر بہت سے ووٹرز اپنا ووٹ جیت جانے والی جماعت کو ڈالنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف اس وقت ایک ایسی جماعت ہے جس کی انتخابی کارکردگی کے بارے میں کوئی بھی تجزیہ غلط ثابت ہو سکتا ہے۔ انتخابی مہم کے آغاز سے یہ جماعت اندرونی انتخابات اور اس کے بعد امیدواروں کے چنائو کے عمل سے خراش زدہ ہو کر گزری۔ اگرچہ اندرونی انتخابا ت کسی بھی جماعت کے لیے استحکام کا باعث بنتے ہیں۔ مگر پاکستان تحریک انصاف کی یہ کاوش قومی انتخابات کے بہت قریب جا کر اختتام پذیر ہوئی اور قومی انتخابات کے لیے منصوبہ بندی کا وقت نہ ہونے کے برابر رہ گیا۔ مگر اس کے بعد عمران خان نے جس انداز سے جلسے کرنے شروع کیے ہیں وہ اس تیز رفتاری سے کم نہیں جو اپنی بائولنگ کے ذریعے دکھایا کرتے تھے۔

ان جلسوں میں شرکت روز بروز بڑھتی نظر آ رہی ہے۔ جنوبی پنجاب میں وہاڑی اور لودھراں کے جلسے غیر معمولی طور پر کامیاب تھے۔ اس سے پہلے مالاکنڈ اور دوسرے علاقوں میں مقامی شرکت کا معیار کسی بڑی جماعت کے اکٹھ سے کم نہیں تھا۔ تحریک انصاف اس وقت دو قسم کے انتخابی پہلوئوں پر کام کر رہی ہے، ایک روایتی سیاست اور سیاستدان جود ھڑوں کو اکٹھا کرنے کے ماہر ہیں اور بڑی اور چھوٹی برادریوں اور ذاتوں کے پیچیدہ نظام سے بہترین واقفیت رکھتے ہیں، یقینا اگر پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کے خاندانی پس منظر کا جائزہ لیا جائے تو اکثریت نئے چہرے ہونے کے باوجود اسی معاشرتی نظام پر انحصار کرتی ہوئی نظر آتی ہے جس پر پاکستان کی روایتی سیاست بنیاد کرتی ہے۔

دوسرا پہلو زیادہ اہم اور سیاسی تجزیے کے اعتبار سے انتہائی دلچسپ بھی ہے اور وہ ہے نئے اور نوجوان ووٹرز پر تکیہ جو اس سے پہلے کسی اور جماعت نے نہیں کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اگرچہ سیاسی جیالے پیدا کیے مگر وہ سب بھی یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلباء اور طالبات نہیں تھے۔ ان میں مزدوروں اور کسانوں کے نمایندے بھی تھے، استاد اور وکیل بھی تھے اور ایک بہت بڑا ایسا طبقہ جو اس وقت سوشلزم سے متاثر تھا۔ عمران خان پاکستان کے تقریباََ ہر شہر میں اس نوجوان طبقے کا نمایندہ بن کر ابھرا ہے جس نے یا تو جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کا دور دیکھا ہے یا پھر پچھلے پانچ سال۔ اس مدت میں ہونے والی سیاسی تربیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ یہ جوان نا امید مستقبل کی سولی پر لٹکے رہے ہیں۔

پھر ناقص سیاسی کارکردگی اور میڈیا انقلاب نے موجودہ سیاستدانوں کا وہ چہرہ پیش کیا ہے جس سے ان کی ذہنی الجھنوں، نا آسودگی اور غصے میں اضافہ ہوا ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے ڈسے ہوئے اور نوکریوں کے لیے بھٹکنے والے یہ نوجوان لاکھوں کی تعداد  میں پاکستان میں موجود ہیں۔ یہ طبقہ عمران خان کی جماعت کے رضا کاروں کے طور پر بھی کام کر رہا ہے۔ صبح سویرے اپنی موٹر سائیکلوں پر سوار اپنے جیب سے پٹرول ڈلوا کر رات گئے تک بازاروں میں گھومنا، پوسٹر لگانا اور عمران خان کے نام پر پاگل پن کی حد تک جذباتی ہو جانا محض ٹی وی کیمروں کی زینت بننے کے لیے نہیں ہے بلکہ ایک نئی سیاسی حقیقت ہے جو روایتی سیاست کو پلٹ سکتی ہے۔ دھڑے اور برادری کی سیاست بھی اس طبقے کی سیاسی جارحیت سے متاثر ہو رہی ہے۔

یہ نوجوان گھروں میں جا کر چپ کر کے نہیں بیٹھتے بلکہ ان برادریوں کے اندر بحث کے ذریعے سیاسی تقسیم کا باعث بھی بنتے ہیں جن کے لیے متحد رہنا سیاسی زندگی اور موت کا سوال ہے۔ عورتیں اس نئے گروپ کا حصہ ہیں۔ گھر کا مرد صرف باپ اور دادا ہی نہیں ہوتا بھائی بھی حصہ دار ہوتا ہے اور جب جوان بھائی دن بھر سڑکوں کی خاک چھانتا ہوا بطور رضا کار کام کرے تو خاندان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں نے اب تک ہر صوبے میں اس نئی سیاسی حقیقت کی جھلکیاں دیکھی ہیں۔

مجھے علم نہیں ہے کہ یہ قومی سطح پر کتنی بڑی تبدیلی کا موجب بن سکتا ہے۔ مگر یہ لوگ ہر جگہ موجود ضرور ہیں اور یہ اثاثہ کسی اور پارٹی کے پاس نہیں ہے۔ اگر عمران خان کے جلسوں کی اٹھان یہی رہی جو دیکھ رہے ہیں تو پنجاب اور خیبر پختو نخوا کے ہر اہم حلقے میں شاید توقع سے کہیں زیادہ ووٹ ڈلیں اور اگر ایسا ہو گیا تو پاکستان تحریک انصاف بہت سے ایسے منہ بند کر سکے گی جو ابھی سے اس کو صفر جمع صفر برابر ہے صفر طرز میں پیش کر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔