نواز شریف کی کامیابی: عوامی دانش کی فتح

زاہدہ حنا  منگل 14 مئ 2013
zahedahina@gmail.com

[email protected]

آج مجھے ایک منظر یاد آتا ہے۔ میاں  نواز شریف اور شہباز شریف کراچی کی اینٹی ٹیررسٹ کورٹ میں غداری کا مقدمہ بھگت رہے تھے۔ میں اس روز کمرہ عدالت میں تھی۔ میاں صاحب کی والدہ اور کلثوم نواز ملاقات کے لیے آئی تھیں۔ بیگم شریف جس بنچ پر بیٹھی تھیں وہ قدرے اونچی تھی اور ان کے پیر زمین سے کچھ اٹھے ہوئے تھے۔ یہ دیکھ کر دونوں بھائیوں نے اپنی بیویوں کے پرس سمیٹے اور والدہ کے قدموں کے نیچے رکھ دیے تاکہ ان کے معلق پیروں میں تکلیف نہ ہو۔ یہ ایک یاد رہنے والا منظر تھا۔ پندرہ سال کا منظر یہ ہے کہ ٹیلی ویژن سے جب پی ایم ایل (ن) کے کسی امیدوار کی کامیابی کا اعلان ہوتا تھا تو میاں صاحب اندر جاتے ، والدہ کے گھٹنوں کو ہاتھ لگاتے  اور باہر آجاتے تھے۔ بزرگوں کے احترام اور عجز و انکسار کی ایک مثال۔ حالیہ انتخابات دو نقطہ ہائے نظرکے درمیان ایک ٹکرائو تھے۔ شکر ہے کہ غرور تکبر اور دشنام طرازی کی پسپائی ہوئی۔

اس وقت ایک طرف مبارکبادیوں کا شور ہے تو دوسری طرف دھاندلیوں کی آہیں ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سربراہ کے بارے میں  چند کالم نگاروں کے توہین آمیز جملے نگاہوں سے گزرے۔  بعض لوگوں کے ظرف کا اندازہ تو پہلے ہی ہوگیا تھا اب یقین آگیا کہ یہ لوگ کتنے سچے اور غیر جانبدار ہیں۔ جہاں سے ان کے چہیتے کو جھولیاں بھر کر ووٹ ملے، اس کے بارے میں سانس ڈکار نہیں لیتے۔ یہ نہیں کہتے کہ صاحبو کمال ہے الیکشن کمیشن نے کیسے شفاف الیکشن کرادیے۔ یوں خاموش رہتے ہیں جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ جن حلقوں میں تکبر و رعونت کے ساتھ بڑے بڑے دعوے کیے گئے تھے، وہاں خوابوں کے حباب حقائق کے کانٹوں کی نذر ہوگئے تو اس پر ایک شور و غوغا ہے۔

مجلس آہ وبکا ہے۔ برگر قبیلے کی بات اور ہے۔ اس کے لیے کسی سپر ہیرو کی زہر سے بھری ہوئی تقریریں دراصل وہ ویڈیو گیم ہیں جن میں “Kill” “Crush” اور  “Delete” جیسے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کوڑے اور چابک کی سنسناتی ہوئی آواز صرف ’بن حُر‘  اور’گلیڈی ایٹر‘  ایسی ہالی ووڈ فلموں میں سنی  ہے۔ آج جمہوریت اور آزادی کا بھرپور لطف اٹھانے والے یہ لوگ نہیں جانتے کہ جب اپنے اور دوسروں کے لیے جمہوری حق مانگنے والے نصف بدن سے برہنہ نوجوان ٹکٹکی پر باندھے جاتے  تھے اور کوڑے مارنے والا دور سے بھاگتا ہوا آتا اور پشت کی کھال ادھیڑ کر ساتھ لے جاتا تو اس اذیت کا ذائقہ کیسا ہوتا  تھا۔ آج تحریر و تقریر کی آزادی اور جمہوریت کی راہ پر سفر ان ہی ہزار ہا غریب اور گم نام سیاسی کارکنوں کی قربانیوں کا صلہ ہے۔ ان کے احسان مند ہوں انھیں جاہل اور بے شعور نہ کہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ’’انقلاب‘‘ کا نعرہ ان ہونٹوں پر سجتا ہے جنھیں دنوں پانی کی بوند نہ ملی ہو اور وہ سوکھ کرتڑخ گئے ہوں۔ برف میں لگی ہوئی منرل واٹر کی بوتلوں سے گھونٹ لینے والے کچھ نہیں جانتے۔ نہ پیاس، نہ بھوک اور نہ یہ کہ امید کی ایک ننھی سی کرن بیوہ اور مفلس ونادار کے گھر میں کس طرح اجالا کرتی ہے۔ہمارے جیسے ترقی پذیر ملکوں میں انتخابات کی زمین میں خوابوں کی فصل کاشت ہوتی ہے اور یہ خواب وہ دیکھتے ہیں جن کے لیے زندگی ایک سزا ہے، بیروزگاری، بھوک، جہل، اور ذلت و خواری جن کی پیشانیوں پر  پیدائش سے پہلے لکھ دی جاتی ہے۔

پاکستان میں ضیاء الحق اور بہ طور خاص پرویز مشرف دور میں جعلی معاشی ترقی ہوئی جس کے سبب ایک ایسا مراعات یافتہ طبقہ پیدا ہوا جس نے گزشتہ پانچ برسوں میں خوب قد کاٹھ نکالا۔ وہ پاکستان کے غریب اور متوسط طبقے کی زندگی کے حقائق سے واقف نہیں۔  وہ اس بات کو ماننے کے لیے ہر گز تیار نہیں کہ پاکستانی غریبوں کو بھی اقتدار میں شراکت کی اجازت دی جائے اور وہ بھی اپنے سیاسی نمایندوں کے وسیلے سے ان معاملات پر اثر انداز ہوسکتا ہو جو اس کی ذلت آمیز زندگی بدلنے کا سبب ہوسکتے ہیں۔ یہ طبقہ جمہوریت اور سیاستدانوں کا سخت مخالف ہے۔ وہ عوام کو باشعور تسلیم نہیں کرتا۔ خود کو بالا تر سمجھ کر ان کی اصلاح کرنا چاہتا ہے۔

60 کی دہائی کے نصف آخر میں بننے والی پیپلز پارٹی وہ جماعت تھی جس نے غریبوں کو زندہ رہنے کا حوصلہ دیا تھا اور خوبصورت خواب ان کی آنکھوں میں رکھ دیے تھے۔ پیپلز پارٹی جب تک لوگوں کے ساتھ وعدے وفا کرتی رہی، انھوں نے بدترین حالات میں بھی اس کا ساتھ دیا۔ لیکن2008 میں پیپلز پارٹی جیت کر بھی عوام کی توقعات پر پورا نہ اتر  سکی۔  2013 میں یہ عالم ہوا ہے کہ پنجاب میں اس کاکوئی پرسان حال نہیں۔ یہی عالم خیبرپختونخوا میں اے این پی کا ہوا ۔ اس شکست کے اسباب کا کھلم کھلا اظہار بیگم نسیم ولی خان نے کیا ہے۔ انھوں نے بے دھڑک یہ کہا کہ ہیلی کاپٹروں اور بلٹ پروف گاڑیوں میں گھومنے والے خدائی خدمت گار نہیں ہوسکتے۔

ادھرمیاں نواز شریف ہیں جنہوں نے 1988کے بعد سیاست کی وہ روش اختیار کی، جس میں انقلابی نعرے تو نہ تھے لیکن وہ اپنی معاشی پالیسیوں سے شہروں اور قصبوں کی زندگی بدلتے چلے گئے۔ پھر جب وہ2 مرتبہ دو ، سوا دو سال کے لیے  وزیر اعظم ہوئے تو انھوں نے دونوں مرتبہ اس بات کی کوشش کی کہ وہ ملک کا مقدر سنوار سکیں۔2013میں وہ ایک طویل جلاوطنی، پارلیمنٹ سے پانچ برس کی دوری اور ہر وضع کی تہمتیں ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ ’’مک مکا‘‘ اور ’’نورا کشتی‘‘ کے طعنے سہتے ہوئے انتخابی میدان میں نکلے  تھے۔ انھوں نے کسی طور کے بلند بانگ دعوے نہیں کیے۔ ان کا ایجنڈا معاشی ترقی، بیروزگاری کے خاتمے اور بجلی کا بحران حل کرنے کا تھا۔ لوگوں نے انھیں اور میاں شہباز شریف کو کام کرتے دیکھا ہے۔ انھیں علم ہے کہ نواز شریف کے ساتھ ایک منجھی ہوئی ٹیم ہے۔ اگر اسے کام کرنے کا موقع ملے تو وہ یقینی طور پر  ایسے کام کرسکتی ہے جن سے عام پاکستانی کی زندگی میں قدرے سکون آسکتا ہے۔

آج لوگوں کو مسلم لیگ (ن) سے توقعات ہیں لیکن ایسی نہیں جنھیں پورا کرنے کے لیے الہٰ دین کے جن کی ضرورت پڑے۔ انتخابات کے زمانے میں کسی مردِ دانا سے پوچھا گیاکہ ووٹ کسے دینا چاہیے۔ جواب ملاکہ اس شخص کو ووٹ دیجیے جس نے انتخابی مہم کے دوران سب سے کم وعدے کیے ہوں۔ اس کے منتخب  ہونے کے بعد اس سے ہمیں کم شکایتیں ہوں گی۔ اس جملے کو نظر میں رکھا جائے تو سچ یہ ہے کہ میاں صاحب نے بہت کم وعدے کیے ہیں۔ ان کا پہلا اور آخری وعدہ معیشت کی بحالی، قانون کی بالادستی اور امن قائم کرنے کا تھا۔ منتخب ہونے کے بعد بھی انھوں نے یہی باتیں کی ہیں۔ وہ پڑوسی ملکوں سے بہترین تعلقات اور امریکا سے افہام و تفہیم کے ذریعے پاک افغان مسائل کو حل کرنے کی بات کررہے ہیں۔ ان کے بارے میں ایک تاثر یہ رہا ہے کہ فوج  سے ان کے گہرے اختلافات ہیں لیکن اس بارے میں بھی انھوں نے وضاحت سے بات کی ہے اور کہا ہے کہ انھیں ادارے سے کوئی اختلاف نہیں ۔

2013 کے انتخابات کو بندوق کی نال اور توپ کے دھانے پر رکھ لیا گیا تھا۔ ایک طرف بندوق کی گولی تھی اور دوسری طرف ووٹ کی پرچی۔ یہ بات اب سے ڈیڑھ صدی پہلے کہی گئی تھی کہ گولیوں کا تیر بہ ہدف نسخہ ووٹ کی پرچی ہے۔ 2013 میں پاکستانیوں نے یہ بات حرف بہ حرف  سچ ثابت کردی۔ انتہا پسندوں کی کیسی کیسی دھمکیاں تھیں۔ 11 مئی کے انتخابات میں کوئی کسی بھی جماعت کا امیدوار نہ بنے۔ اس تاریخ کو لوگ گھروںمیں رہیں۔ کوئی ووٹ ڈالنے کے لیے باہر قدم نہ رکھے ورنہ گولیوں سے چھلنی کردیا جائے گا۔ عورتوں کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔

انھوں نے صرف دھمکیاں ہی نہیں دیں، اس دوران کتنے ہی بے گناہ ان کے ہاتھوں مارے گئے۔ اس فضا میں اکثریت کا خیال تھا کہ انتخابات میں گھروں سے نکلنے والوں کی تعداد کم ہوگی لیکن لوگوں نے ایک بار پھر حیران کردیا۔ وہ جوق در جوق نکلے، جن علاقوں میں انتہاپسندوں کی دہشت تھی، وہاں ووٹ ڈالنے والوں کا تناسب  60 فیصد سے زیادہ رہا۔ عورتیں جن سے کہا گیا تھا کہ ان کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلیں اور انھوں نے یہ ثابت کردیا کہ وہ دن گزر گئے جب ان کے مقدر کا فیصلہ عقل دشمن کرتے تھے۔  ان انتخابات کا نتیجہ کسی ایک جماعت کی نہیں، عوامی دانش کی فتح ہے۔ ہم سب کو یہ فتح مبارک ہو کہ یہ ہماری زندگی بدل دینے کا آغاز ہے۔

انتخاب 2013کے نتائج میں عوام نے سب کو یہ پیغام دیا ہے کہ جن کو سیاست میں کامیابی کی تمنا ہے وہ ان کے پاس ووٹ کی بھیک مانگنے آئیں۔ بڑے صاحب ڈرائیور کے گھر جائیں، چھوٹے صاحب مالی کی خوشامد کریں۔ بیگم صاحبہ ماسی  کو اپنے ساتھ بٹھائیں اور گھر کے بچے نوکروں سے احترام کے ساتھ پیش آئیں۔

انتخابات میں لوگوں  نے ان کو کامیاب اور کامران کرایا جنہوں نے خود کو ان کا خادم اور نوکر ہونے کا اعلان کیا اور انھیں ناکامی سے دوچار کیا جو احساس برتری، تکبر اور غرور میں مبتلا تھے۔

واقعی یہ سچ ہے کہ عوام اور ان کی دانش سے ٹکرانے والوں کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔