زندگی کے راستے

رفیع الزمان زبیری  بدھ 26 جون 2013

بچپن میں جب قائد اعظم کے اسکول جانے کا وقت آیا تو ان کے والد نے ان سے کہا: ’’دیکھو بیٹے! کچھ سیکھنے کے دو طریقے ہیں‘‘۔ انھوں نے پوچھا ’’بابا! وہ کیا؟‘‘ والد نے کہا ’’ایک یہ کہ اپنے بڑوں کی عقل و سمجھ پر بھروسہ کرو اور وہ جو مشورہ دیں اس پر عمل کرو۔‘‘ قائد اعظم نے سوال کیا: ’’اور دوسرا طریقہ کیا ہے؟‘‘ انھوں نے کہا ’’اپنا راستہ خود بناؤ اور اپنی غلطیوں سے سیکھو۔‘‘

قائد اعظم نے توجہ سے یہ بات سنی اور فیصلہ کیا کہ وہ اپنی غلطیوں سے سیکھیں گے اور اپنے راستے پر چلیں گے۔ مگر ہر شخص محمد علی جناح نہیں ہوتا۔ بڑوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا اس سے بہتر ہے کہ آدمی غلطیاں کرے اور راستہ تلاش کرنے میں ٹھوکریں کھائے۔ عبدالسلام سلامی نے اس موضوع پر ایک مفید کتاب لکھ دی ہے۔ ’’زندگی کے راستے‘ جینے کے ہنر‘‘ وہ لکھتے ہیں۔

’’ابتدائی مدرسے کے بعد ثانوی مدرسے یا سیکنڈری اسکول بچے کی تعلیمی زندگی کا تیسرا اور اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ عمر کے اس دور میں اس کا شعور پختگی کے بالکل ابتدائی مرحلے میں پہنچ رہا ہوتا ہے۔ خود اس کے جسم میں اور ذہن میں تبدیلیاں آ رہی ہوتی ہیں۔ جوش و جذبات کا تند سیلاب اس کی شخصیت کو سیمابی کیفیت سے دوچار کر دیتا ہے۔ نو عمری کا یہ دور اپنے ساتھ متعدد تعلیمی سماجی اور نفسیاتی مسائل لے کر آتا ہے۔ اس مرحلے میں نوجوانوں کو ایک ایسے ہمدرد شخص کی ضرورت ہوتی ہے جس پر وہ اعتماد بھی کر سکیں اور جو مسائل کے حل کے لیے انھیں ہمدردانہ مشورے بھی دے سکے۔ نو عمری کے اس دور میں بر وقت اور صحیح رہنمائی اور مشورہ نہ ملے تو نوجوانوں کی شخصیت میں بعض الجھنیں پیدا ہو سکتی ہیں جو عملی زندگی میں انھیں دشواریوں اور بعض اوقات ناکامی سے دوچار کر سکتی ہیں۔‘‘

سلامی کہتے ہیں کہ طالب علم کو اس سوال کا جواب کہ عملی زندگی کے لیے کون سا پیشہ اختیار کیا جائے بارہویں جماعت کے بعد تلاش کرنا چاہیے۔ بیشتر نوجوان یہ فیصلہ شعوری طور پر خود نہیں کرتے بلکہ حالات کا دھارا انھیں جس سمت بہا کر لے جائے وہ بہتے چلے جاتے ہیں۔ ممکن ہے یہ کوئی ایسا پیشہ ہو جو ایک نوجوان کی صلاحیتوں، تعلیم اور طبعی میلان کے مطابق ہو لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسے اس کی پسند کے مطابق کام نہ ملے اور پھر یہ کام اس کے لیے ذہنی اور جسمانی ناآسودگی کا باعث بن جائے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر کام دلچسپی کا نہیں ہوتا تو انسان کا جسم اور ذہن بہت جلد اپنی توانائی کھو بیٹھتا ہے۔ اسی لیے پیشے کا انتخاب ایک اہم فیصلہ ہوتا ہے اور ایک نوجوان کے لیے جو بارہویں جماعت کے بعد آگے تعلیم کا ارادہ رکھتا ہو یہ ضروری ہے کہ اپنے مستقبل کے پیشے کے بارے میں اس کا ذہن بالکل واضح ہو۔

اس مرحلے پر کہ جب وہ اپنی آیندہ عملی زندگی کے بارے میں کوئی فیصلہ کر رہا ہو اس کو رہنمائی کی ضرورت ہے۔ مغربی ممالک میں ایسے ادارے ہیں جو یہ رہنمائی فراہم کرتے ہیں اور کیریئر پلاننگ میں طالب علموں کی مدد کرتے ہیں۔ پاکستان میں اس قسم کا کوئی باقاعدہ ادارہ نظر نہیں آتا لیکن انفرادی کوششیں ضرور کی گئی ہیں۔ عبدالسلام سلامی نے خاص طور پر اس موضوع پر کام کیا ہے۔ کیریئر پلاننگ یا مستقبل کی عملی زندگی کی منصوبہ بندی پر ان کی اردو میں ایک کتاب ’’زندگی کے راستے‘‘ کے عنوان سے کوئی 23 سال پہلے شایع ہوئی تھی۔ بعد میں اسی سلسلے کی کچھ اور کتابیں بھی شایع ہوئیں۔ ایک تازہ کوشش ’’جینے کے ہنر‘‘ کے عنوان سے کی گئی ہے جس میں مستقبل کے پیشے کے انتخاب کی اہمیت، اسکول کی تعلیم کے زمانے کی افادیت، کیریئر کے حوالے سے ذاتی دلچسپی کی جانچ، سیکھنے کے بہترین طریقوں اور نو عمری کے مسائل اور ان سے نمٹنے کے بارے میں ماہرین کے مشوروں پر مشتمل مضامین ہیں۔

محمد بشیر جمعہ نے بتایا ہے کہ یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ کسی نوجوان طالب علم کے لیے کون سا پیشہ بہتر ہو سکتا ہے سب سے پہلے اس کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کا جائزہ لینا ہو گا۔ مثلاً وہ کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں کر سکتے۔ ایک مثال اس کی یہ ہے کہ اگر نظر کمزور ہے تو پائلٹ نہیں بن سکتے۔ اس کے ساتھ یہ بھی جائزہ لینا ہو گا کہ اس کی تعلیم اس کے منتخب کردہ پیشے کی مناسبت سے ہوئی ہے یا نہیں۔ پھر اس کا طبعی رجحان بھی دیکھنا ہو گا کہ کس طرف ہے۔ یہ خاص طور پر ضروری ہے کیوں بعض کام آسان لگتے ہیں کیوں کہ ان میں دلچسپی ہوتی ہے اور بعض مشکل۔ جمعہ کہتے ہیں کہ مشکل اور آسان کا کھیل ہماری ذاتی دلچسپی کا نتیجہ ہے۔

’’جینے کے ہنر‘‘ میں کیریئر پلاننگ کے مختلف پہلوؤں کو بڑی خوبی سے اجاگر کیا گیا ہے۔ نوجوان طلبا اور ان کے والدین دونوں کے لیے اس کی افادیت نمایاں ہے۔ اس میں ایسی مشقیں ہیں جو پیشے یا کیریئر کے انتخاب میں بڑی مددگار ثابت ہوتی ہیں مثلاً ماہرین نے دنیا کے مختلف پیشوں کو 16گروپوں میں تقسیم کیا ہے۔ کتاب میں ان کی فہرست دی گئی ہے اور ایک ابتدائی نوعیت کے جائزہ فارم کے ذریعے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ آپ کی دلچسپی کس کیریئر میں ہے۔ نوجوان طالب علم اس جائزے کے نتیجے کی روشنی میں اور اپنے پچھلے امتحان کے نتیجے کو سامنے رکھ کر تعلیم کے آگلے مرحلے کے لیے اپنے مضامین کے انتخاب پر غور کر سکتے ہیں۔ کیریئر یا پیشوں میں آرٹس، آرکیٹیکچر، بزنس مینجمنٹ اور ایڈمنسٹریشن، تعلیم و تربیت، فنانس، گورنمنٹ ایڈمنسٹریشن، صحت، سیاحت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، لاء، انڈسٹری اور مارکیٹنگ شامل ہیں جن میں سے کسی ایک کا اپنے رجحان اور تعلیم کے اعتبار سے انتخاب کیا جا سکتا ہے۔

اسی طرح کی ایک مشق یہ جاننے کے لیے تجویز کی گئی ہے کہ آپ میں کون سی مہارت ہے یعنی کون سا کام آپ اپنے شوق اور دلچسپی کی وجہ سے سیکھتے ہیں، اس کے کرنے میں آپ کو مزہ آتا ہے، اور پھر آپ اس میں جو کامیابی حاصل کرتے ہیں اس پر آپ کو فخر محسوس ہوتا ہے۔ آپ چاہتے ہیں لوگ آپ کی مہارت کا اعتراف کریں۔

کیریئر پلاننگ کے سلسلے میں مفید مشوروں اور عملی مشقوں کے ذریعے پیشے اور کیریئر کے انتخاب میں آسانی پیدا کرنے کے علاوہ اس کتاب میں ایک اہم باب نو عمری کی تبدیلیوں اور الجھنوں کے بارے میں ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کا تعلق نو عمر لڑکے اور لڑکیوں اور ان کے والدین سے ہے۔ عبدالسلام سلامی کہتے ہیں ’’نوعمری بچوں کی زندگی کا اہم اور مشکل دور ہوتا ہے، ان کے جسم اور ذہن میں تبدیلیاں آ رہی ہوتی ہیں اور چونکہ نو عمر افراد کی بڑی اکثریت کو جذباتی تبدیلیوں اور انجانی خواہشات کے بارے میں مناسب معلومات اور رہنمائی نہیں ملتی اس لیے وہ سخت الجھن اور بے چینی کا شکار ہوتے ہیں۔ دوسری طرف والدین بھی اپنے بچوں کی اس کیفیت سے مشکل میں ہوتے ہیں۔ سماجی رویوں اور روایات کی وجہ سے اکثر والدین چاہنے کے باوجود بچوں سے اس موضوع پر بات نہیں کرتے اور بچوں کو تو ہمت ہی نہیں ہوتی کہ وہ اس بارے میں والدین یا گھر کے کسی بزرگ سے کوئی سوال کریں۔‘‘

’’جینے کے ہنر‘‘ میں اس مسئلے پر ڈاکٹر افشین نور کا مضمون بھی قابل توجہ ہے۔ کچھ عملی تجاویز سلامی نے پیش کی ہیں اور حکیم عبدالحنان نے نوجوانوں کی جنسی تعلیم پر جو اظہار خیال کیا ہے وہ بھی اس ضمن میں قابل غور ہے۔

’’زندگی کے راستے۔ جینے کا ہنر‘‘ نو عمر طلبا اور ان کے والدین کے لیے ایک نہایت مفید کتاب ہے جو قلم دوست (پوسٹ بکس 11002) نے کراچی سے شایع کی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔