لوہے کے تپ جانے کا انتظار

نصرت جاوید  جمعرات 25 جولائی 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

میرے پاس 12 کے قریب افراد کی ایک فہرست نہایت معتبر ذرایع سے آ چکی ہے۔ اس فہرست میں موجود لوگ آج کل سندھ اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی نشستوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کے ’’ضمیر‘‘ مگر بڑے غیر مطمئن ہیں۔ سب سے بڑی خلش تو یہ ہے کہ 2013ء سے پہلے جب بھی انتخابات ہوئے صرف تیر کا نشان کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔ اس بار تیر کا نشان مل جانے کے باوجود نہ صرف بہت پیسے خرچ کرنا پڑے بلکہ گھر گھر جا کر ان ’’چھوٹے لوگوں‘‘ کی منت سماجت بھی کرنا پڑی جو مہینوں ’’سائیں‘‘ کی ایک جھلک دیکھنے کو ترسا کرتے تھے۔ تیر کے نشان کے باوجود ان لوگوں کو یہ سب کچھ کیوں کرنا پڑا اس سوال کا جواب کوئی خلوصِ دل سے ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کر رہا۔ ویسے بھی عام انسانوں کے لیے اپنی کوتاہیوں کو غور و فکر کرنے کے بعد ڈھونڈنے کی عادت نہیں ہوتی کسی اور کو اپنی مصیبتوں کا ذمے دار ٹھہرانا زندگی آسان کر دیتا ہے۔

غیر مطمئن ضمیر والے سندھ اسمبلی میں ان دنوں پاکستان پیپلز پارٹی کی نشستوں پر بیٹھے لوگوں پر تو قدرت ویسے ہی بڑی مہربان ہے۔ آصف علی زرداری نام کا ایک شخص جو ہے، اگرچہ ان کے والد 1970ء کے انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن بنے تھے۔ مگر جب نیپ پر پابندی لگا کر خان عبدالولی خان اور ان کے غوث بخش بزنجو اور سردار مینگل جیسے ساتھیوں کو جیل بھیج دیا گیا تو وہ سردار شیر باز خان مزاری سے مل گئے۔ ان دونوں نے مل کر NDP نام کی ایک جماعت کھڑی کر ڈالی جس نے مصیبت کی اس گھڑی میں پشتون اور بلوچ قوم پرستوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ پھر 5 جولائی 1977ء ہو گیا اور حاکم علی زرداری گوشہ نشین ہو گئے۔ جنرل ضیاء کی آمریت کے خلاف سندھ میں جو تاریخی جدوجہد ہوئی اس میں ان کا کوئی کردار نظر نہ آیا۔ پہلے پہل اس ضمن میں غلام مصطفیٰ جتوئی مرحوم نمایاں رہے۔ پھر آہستہ آہستہ بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر نے قیادت اپنے ہاتھ لے کر بالآخر اسے بی بی تک محدود کر دیا۔

بی بی کے بارے میں غیر مطمئن ضمیر والے سندھ اسمبلی میں ان دنوں پاکستان پیپلز پارٹی کی نشستوں پر بیٹھے لوگ آج بھی کوئی فالتو  لفظ ادا نہیں کرتے۔ مگر ان کے خیال میں ’’شہید رانی‘‘ کی سب سے بڑی ’’بدقسمتی‘‘ یہ بھی رہی کہ ان کی آصف علی زرداری سے شادی ہو گئی۔ انھیں 2007ء میں قتل کر دیا گیا تو ان کی جماعت ان کے شوہر کے قبضے میں چلی گئی اور ’’جیالے‘‘ پیچھے ہٹا دیے گئے۔ مرکز اور سندھ میں حکومتیں بنیں تو ان جیالوں کو کوئی خاص حصہ نہ ملا۔ سارے مزے ان لوگوں نے لوٹے جو یا تو آصف علی زرداری کے ساتھ کچھ غیر سیاسی وجوہات کی وجہ سے جیلوں میں رہے تھے یا جنہوں نے ان کی اسیری کے دوران انھیں کسی نہ کسی طرح کی سہولت یا راحت فراہم کرنے کا بندوبست کیا تھا۔ سندھ کے ساتھ غیر مطمئن ضمیر والوں کی نظر میں مزید ’’ظلم‘‘ یہ ہوا کہ اس صوبے کے سیاسی معاملات آصف علی زرداری کی بہن فریال تالپور کی کمان میں دے دیے گئے۔

’’ادھی‘‘ اندرونِ سندھ کے معاملات دیکھتی رہیں تو کراچی ان کے منہ بولے بھائی مظفر اویس ٹپی کو بخش دیا گیا۔ غیر مطمئن ضمیر والے میرے جیسے صحافیوں کو اپنی نجی محفلوں میں بڑے جذباتی انداز میں سمجھانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں کہ 2013ء کے انتخابات کے دوران اگر انھیں تیر کے نشان کے ساتھ بھی لوگوں کے گھر گھر جا کر ووٹوں کی بھیک مانگنا پڑی تو اس کی وجہ صرف اور صرف زرداری، ادھی اور ٹپی کی تثلیثِ حکمرانی ہے۔ اس تکون کا تسلسل پاکستان پیپلز پارٹی کو قومی سے صوبائی سطح پر لے آیا ہے۔ آیندہ انتخابات تک شاید یہ پہچان بھی باقی نہ رہے۔

فی الوقت میں اس بحث میں نہیں اُلجھنا چاہتا کہ ان دنوں غیر مطمئن ضمیروں کے ساتھ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی سیٹوں پر بیٹھے لوگوں کی یہ سوچ درست ہے یا نہیں۔ میرے کالم کا مقصد تو آپ کو اس خبر کے لیے تیار کرنا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی طرف سے ممنون حسین صاحب کے ایوانِ صدر پہنچ جانے کے بعد غیر مطمئن ضمیروں کی آوازیں بتدریج بلند ہونا شروع ہو جائیں گی۔ چونکہ آئین کی 18 ویں ترمیم نے کسی جماعت میں ’’فارورڈ بلاک‘‘ وغیرہ کے ذریعے لوٹے بنانے کے امکانات کو تقریباََ معدوم کر دیا ہے۔ اس لیے غیر مطمئن ضمیر والوں کو بالآخر ایک دن اکٹھے ہو کر اسمبلی سے استعفیٰ دینا ہوں گے تا کہ اپنی ہی چھوڑی ہوئی سیٹوں پر وہ کسی اور جماعت کی ٹکٹ پر ضمنی انتخابات کے ذریعے منتخب ہو سکیں۔ مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ پیپلز پارٹی چھوڑ کر غیر مطمئن ضمیر والے کونسی جماعت کا ٹکٹ لینا چاہیں گے۔ ’’پنجابی نواز شریف‘‘ کی ٹکٹ پسند نہ آئے تو پیر پگاڑا والی جماعت بھی تو مسلم لیگ ہی کہلاتی ہے۔ ’’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘  والا نعرہ 1940ء کی دہائی میں لگا تھا تو ’’ملک بچانے کے لیے‘‘ اسے دہرانے میں کوئی حرج نہیں۔

یہ سب لکھ دینے کے بعد میں یہ حقیقت بتانے پر بھی مجبور ہوں کہ غیر مطمئن ضمیروں کے ساتھ ان دنوں سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی نشستوں پر بیٹھے حضرات تو بغاوت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ مگر وزیر اعظم اور ان کے قریبی ساتھی ذرا دیر لگا رہے ہیں۔ خدانخواستہ میں ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ وہ ’’ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام‘‘ وغیرہ جیسے اصولی دِکھنے والے الفاظ کی وجہ سے دیر کر رہے ہیں۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ سندھ میں بھی اپنی حکومت بنائے بغیر ان کی مسلم لیگ نہ تو بجلی کا بحران ختم کر سکتی ہے اور نہ فیصل آباد، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ جیسے شہروں میں قائم صنعتوں کو 24/7 گیس کی یقینی فراہمی۔ یہ حکومت بنائے بغیر کراچی میں میٹرو بس بھی نہیں چلائی جا سکتی۔ انتظار ہو رہا ہے تو صرف اس بات کا کہ پیپلز پارٹی کی طرح ایم کیو ایم میں بھی ’’قیادت کا بحران‘‘ ذرا اور نمایاں اور گہرا ہو جائے۔ لوہا تپنے کی دیر ہے پھر ممتاز بھٹو ہوں گے اور بعد ازاں راوی چین ہی چین لکھے گا۔ میری طرح آپ کو بھی لوہے کے پوری طرح تپ جانے کا انتظار کرنا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔