کلاس روم مینجمنٹ

محمد سلمان خان  اتوار 4 اگست 2013
اساتذہ طلبہ کے رویوں کو سمجھ کرکلاس روم کا ماحول خوشگوار بنا سکتے ہیں۔ فوٹو: فائل

اساتذہ طلبہ کے رویوں کو سمجھ کرکلاس روم کا ماحول خوشگوار بنا سکتے ہیں۔ فوٹو: فائل

 کلاس روم مینجمنٹ طلبہ کے لئے ان تمام ری سورسز(وسائل) کو آرگنائز (منظم) کرنے کا نام ہے، جو ایک استاد کے پاس ہوتے ہیں، تاکہ پڑھانے اور سیکھنے کا عمل زیادہ بہتر اور موثر طریقے سے مکمل کیا جاسکے۔

یہ اصطلاح (کلاس روم مینجمنٹ) ٹیچرز کلاس روم میں طلبہ کے حوالے سے تدریسی عمل کو یقینی طور پر موثر بنانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ طلبہ کے رویوں کوکلاس میں ٹریک پر لانے کے لیے بھی اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض ٹیچرز کے نزدیک یہ چیز بہت ہی مشکل ہے کیوں ایک سروے کے مطابق شرارتی طلبہ کے رویوں اور ڈسپلن کے مسائل کی مشکلات کی وجہ سے بہت سے ٹیچرز ملازمت کو بھی خیرباد کہہ دیتے ہیں۔

کلاس روم مینجمنٹ کا حوصلہ افزائی، نظم و ضبط اور عزت نفس کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ اساتذہ تعلیمی سال کے شروع ہونے پراس حوالے سے نئی تدابیر آزماتے ہیں جن سے کلاس روم کے ماحول پر خوشگوار اثر پڑتا ہے۔ اور جسمانی سزا کے مواقع ختم ہوتے جاتے ہیں۔کچھ اساتذہ شرارتی بچوں سے ہی کلاس کے قوانین بنواتے ہیں لیکن بالغ نظر استاد کلاس روم کے ماحول کو باہمی عزت و احترام کے اصول پر لے آتے ہیں جس سے طلبہ اور ٹیچرز کے درمیان خود بخود ایک ضابطہ اخلاق طے پاجاتا ہے۔ اس میں باہمی تبادلہ خیال، ٹیم ورک اورکونسلنگ کے ذریعے مسائل پر قابو پایا جاتا ہے۔

اس سلسلے میں ایک اہم تکنیک یہ بھی ہے کہ طلباء کی تعریف یا انعام کے ذریعے حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ ان کے رویے خود بخود درست سمت میں آگے بڑھیں۔ اس مشق سے بچوں کے رویوں کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی کیوں کہ حوصلہ افزائی کی وجہ سے وہ اچھے رویے اپنانا سیکھ جاتے ہیں۔ ایسے رویے جنہیں پروان چڑھانا مقصود ہو (مثلاً سوال پوچھنا،اپنی سیٹ سے غیر ضروری طور پر نہ اٹھنا،کلاس سے غیر ضروری طورپر باہر نہ جانا، اپنی کتابوں اور کاپیوں کو صاف ستھرا رکھنا، سیٹ اور ڈیسک کے نیچے صفائی رکھنا) سکول کی ابتدائی کلاسوں اور ساتویں سے بارھویں کلاس تک کامیابی سے استعمال کئے جاتے ہیں۔

عزت نفس کے ساتھ ڈسپلن کی پابندی کرنا ایک ایسا عنصر ہے جوکلاس روم مینجمنٹ کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔کلاس روم کے خوشگوار ماحول میں یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ ٹیچراپنے طلباء سے روحانی اور اخلاقی طور پر کتنا منسلک ہے۔ وہ کنتی مہارت سے بات سمجھاتا ہے اورطلباء کے رویوں کا حل کیسے ڈھونڈ نکالتا ہے۔

طلباء میں چھپی ہوئی صلاحیتیں کیسے دریافت کرتا ہے۔ تعلیمی ادارے، ٹیچر اور طلباء کے آپس میں تعلقات بھی کلاس روم مینجمنٹ کا اہم موضوع ہیں، اس میں ٹائم مینجمنٹ بھی ایک ضروری عنصر ہے کہ ٹیچر پڑھانے کے علاوہ طلباء کی کردار سازی اور اخلاقی نشوونما پرکتنا وقت صرف کرتا ہے جس میں حاضری لینا،کوئی اعلان کرنا اور کلاس کی روٹین کے معاملات شامل ہیں ۔دو سے تین منٹ میں اس قسم کی روٹین بھگتانے کے ساتھ ساتھ طلباء کی سیٹنگ اریج منٹ(بیٹھنے کا انتظام) اور ڈیسک کی حالت (متعلقہ مضمون کی کاپی کتاب کا ڈیسک پر ہونا) دیکھ کر ان کے موڈ اور ذہنی حالت کو اپنے مضمون کے لیے ابھارا جاسکتا ہے تاکہ طلباء مزید پڑھائی کے لیے تیار ہوکرہوشیاری کے ساتھ باہمی تبادلہ خیال(کلاس روم کی سرگرمیاں ) کرسکیں۔

اس سلسلے میں یہ غلطی بھی ہوجاتی ہے کہ کلاس روم کا ڈسپلن برقرار نہیں رہتا۔ غیر تربیت یافتہ اساتذہ کلاس کو خاموش کرانے میں توانائی خرچ کرتے رہتے ہیں لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ دو طلباء کی بظاہر ایک جیسی نظر آنے والی شرارت کا پس منظر ایک جیسا نہ ہواور دونوں کو دو مختلف انداز میں سلجھانا پڑے۔ اس مقصد کے لیے ٹیچرز میں لچک کے مثبت رویے کا ہونا ازحدضروری ہے۔

یہ صورت حال بھی سامنے آسکتی ہے کہ اگر ایک اپروچ درست کام نہیں کر رہی تو ٹیچر خود بھی اضطرابی کیفیت کا شکار ہوسکتا ہے جس میں اونچی آواز کے علاوہ ذاتیات کا عنصر بھی شامل ہوجاتا ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے ٹیچر میں صبر کے ساتھ سننے کا مادہ ہونا بھی لازمی ہے۔ استاد کو طلباء سے زیادہ توقعات بھی نہیں رکھنی چاہیئں، ہاں اگر وہ اپنی توقعات کے متعلق پہلے ہی ذہن سازی کر چکا ہے تو ٹیچر کے علاوہ طلباء اور والدین کے لیے بھی بہت سی آسانیاں پیدا ہوجائیں گی۔

استاد کی حیثیت میں لیسن پلاننگ (سبق کی حکمت عملی) جتنی بہتر ہوگی اتنے ہی ڈسپلن کے مسائل کم پیش آئیں گے۔ لیکن یہاں سوال یہ سامنے آتا ہے کہ طلباء ڈسپلن کے مسائل پیداہی کیوں کرتے ہیں؟ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ وہ بور ہوجاتے ہیں یا پھر انہیں سبق کی اہمیت کا علم ہی نہیں ہوتا، ٹیچر غیر دلچسپ انداز میں(زیادہ تیز، بہت ہی آہستہ، اعتماد کے بغیر) پڑھا رہا ہوتا ہے۔ اس قسم کے مسائل میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ طلباء آپ کی شخصیت سے کتنے متاثر ہیں؟کیا ان کی آنکھوں اور گالوں کی چمک آپ کو کلاس میں خوش آمدید کہتی ہے؟ کیا آپ خوشی اور جوش وخروش کیساتھ کمرہ جماعت میں داخل ہوتے ہیں؟کیا آپ ٹیچرز ٹیبل کے پیچھے بیٹھ کر ہی تو وقت نہیں گزارتے ؟یا پھر ان کے لیول پر جا کر ان کے کام کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

کسی قسم کے رویے کے مسئلے کو زیادہ نہ لٹکائیں بلکہ اسی وقت حل کرنے کی کوشش کریں۔ اپنے لیے بھی غلطی کی گنجائش رکھیں اور طلباء کے لیے بھی غلطی کی گنجائش رکھیں۔ کھلے دل کے ساتھ مناسب توجہ، مناسب نرمی اور نفسیاتی تکنیک اپنا کرمسئلہ ختم کیا جاسکتا ہے۔ زیادہ شرارتی طلباء کی انفرادی کونسلنگ بھی کی جاسکتی ہے۔ دوسرے دوستوں کے لیکچر (پریڈ) میں انہی طلباکے حوالے سے مشاورت ایک اچھا قدم ہوگا۔ آپ بولے بغیر بھی اپنے چہرے کے تاثرات، حرکات و سکنات سے بہت کچھ سمجھا سکتے ہیں۔

طلباء کو اپنی باڈی لینگویج کے متعلق پہلے سے سمجھادیں، جس میں آنکھوں کی حرکات اور تاثر، انگلیوں (زیادہ شور کی صورت میں لبوں پر انگلی رکھنا) اور ہاتھوں کے ذریعے چھو کر یا بالکل خاموش رہ کر طلباء کو زبردست پیغام سکھایا جاسکتا ہے۔ اگر طلباء کے ساتھ اعتماد کارشتہ ہے توآپ ان سے مثالی کام لے سکتے ہیں۔ اس پس منظر میں ٹیچرز یہ ذہن میں رکھیں کہ ہم سب معمولی افراد ہیں لیکن ہم اس پیشے کے ذریعے غیر معمولی کارنامے کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔