شپ بریکرزپر10ہزار روپے فی ٹن فیڈرل ایکسائزڈیوٹی کامطالبہ

بزنس رپورٹر  منگل 10 ستمبر 2013
ایسوسی ایشن کے مطابق شپ بریکنگ اسکریپ اور درآمدی اسکریپ سے بننے والے اسٹیل بلٹس کی قیمتوں میں 14ہزار روپے فی ٹن سے زائد کا فرق ہے۔ فوٹو: فائل

ایسوسی ایشن کے مطابق شپ بریکنگ اسکریپ اور درآمدی اسکریپ سے بننے والے اسٹیل بلٹس کی قیمتوں میں 14ہزار روپے فی ٹن سے زائد کا فرق ہے۔ فوٹو: فائل

کراچی:  پاکستان اسٹیل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن نے وفاقی وزارت خزانہ سے اپیل کی ہے کہ اسٹیل انڈسٹری کی بقا کے لیے شپ بریکنگ کے اسکریپ سے بنے سرپلس اسٹیل بلٹس پر 10ہزار روپے فی ٹن فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کی جائے۔

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے نام ارسال کردہ ایک خط میں ایسوسی ایشن کی جانب سے اسٹیل انڈسٹری کے لیے غیرمساوی اور امتیازی پالیسیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے فی الفور اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ ایسوسی ایشن کے مطابق شپ بریکنگ اسکریپ اور درآمدی اسکریپ سے بننے والے اسٹیل بلٹس کی قیمتوں میں 14ہزار روپے فی ٹن سے زائد کا فرق ہے، اس فرق کی وجہ سے تعمیراتی صنعت میں زیادہ تر غیرمعیاری سریہ استعمال کیا جا رہا ہے، دوسری جانب اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے والے اسٹیل مینوفیکچررز اور میلٹرز کو خسارے کا سامنا ہے، شپ بریکنگ اسکریپ سے تیار اسٹیل کا مارکیٹ شیئر 50فیصد تک پہنچ گیا ہے۔

جبکہ گیس کی قیمت میں اضافے سے اسٹیل میلٹرز کی لاگت مزید بڑھ گئی ہے، شپ پلیٹ اور اسٹیل بلٹس کے درمیان 14ہزار روپے سے زائد کے فرق کو دور نہ کیا گیا تو اسٹیل انڈسٹری بند ہوجائے گی جس سے ایک جانب بڑے منصوبوں اور تعمیراتی سرگرمیوں کے لیے معیاری اسٹیل کی قلت کا سامنا ہوگا تو دوسری جانب بے روزگاری اور ریونیو میں کمی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہوگا۔ ایسوسی ایشن کے مطابق شپ پلیٹ اور اسٹیل بلٹس کے درمیان فرق پالیسی اسٹیٹمنٹ اور نوٹیفکیشن سے بھی ختم کیا جاسکتا ہے۔

جس کے تحت ایک کمیٹی قائم کرکے ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی شرح کا جائزہ لیتے ہوئے اسٹیل بلٹس اور شپ پلیٹ کے درمیان فرق کو زیادہ سے زیادہ 2سے 3ہزار روپے فی ٹن تک محدود کیا جائے۔ ایسوسی ایشن کے مطابق فروری 2000 میں نیشنل ٹیرف کمیشن میں ڈیوٹی ریشنلائزیشن کی سماعت کے دوران تمام فریقین پر مشتمل ایک کمیٹی کی شکل میں ڈیوٹی اسٹرکچر پر اتفاق کیا تھا جس کے تحت اسٹیل بلٹس اور شپ پلیٹس کے درمیان فرق 1200روپے فی ٹن رکھنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔