امریکی ڈالر110روپے کے قریب پہنچ گیا

احتشام مفتی  جمعرات 26 ستمبر 2013
نوازدورحکومت میں روپے کی قدر10فیصدگرچکی،خدشات برقرار، ڈالرجلد 125روپے کی حدکوبھی چھولے گا،مارکیٹ ذرائع فوٹو : محمد عظیم / ایکسپریس

نوازدورحکومت میں روپے کی قدر10فیصدگرچکی،خدشات برقرار، ڈالرجلد 125روپے کی حدکوبھی چھولے گا،مارکیٹ ذرائع فوٹو : محمد عظیم / ایکسپریس

کراچی:  معاشی کمزوریوں اور تجارتی بینکوں سے ڈالر کی خریداری پر دباؤ بڑھنے کے نتیجے میں امریکی ڈالر 110 روپے کے قریب پہنچ گیا، بدھ کو انٹربینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی قدر مزید75 پیسے کے اضافے سے107 روپے جبکہ اوپن کرنسی مارکیٹ میں1 روپے بڑھ کر109 روپے کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔

مارکیٹ ذرائع نے ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ ناگفتہ بہ معاشی حالات کی وجہ سے امریکی ڈالر کی قدربہت جلد125 روپے کی تاریخ ساز حد کو بھی چھولے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قدرمیں اضافے کی رفتار تیز ہوتے ہی لوگوں نے امریکی ڈالر کواپنے سرمائے کو محفوظ بنانے کاذریعہ بنالیا ہے کیونکہ انہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ زرمبادلہ کے کم ہوتے ذخائر، آئی ایم ایف کی ادائیگیوں کے دباؤ یا پھرمتعلقہ ریگولیٹرکی ناکامی کی بدولت پاکستانی روپیہ مسلسل تنزلی وبے قدری کا شکار ہوتا جارہا ہے بلکہ وہ صرف ڈالر کی صورت میں سرمائے کو محفوظ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔

ایک بڑے بینک کے صدر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے بینکوں کے کھاتوں تک ایف بی آر حکام کو رسائی دینے کے نتیجے میں کھاتیداروں کی ایک بڑی تعداد بینکوں سے سرمایہ نکال کر ڈالر کی خریداری کو ترجیح دے رہی ہے جبکہ آئی ایم ایف کے ساتھ حالیہ معاہدے کے تحت ہر3 ماہ بعد قرضوں کی ادائیگیوں کی شرط جیسے عوامل براہ راست پاکستانی روپے کی قدر کو تنزلی سے دوچار کررہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کے ابتدائی 3 ماہ کے دوران ڈالر کی قدر میں ہونے والے تیز رفتار اضافے سے ملک میں مہنگائی بڑھنے کی کم ازکم شرح12 فیصد ہوگی جو معاشی حالات میں مزیدبگاڑ کا باعث بنے گی۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پیپلزپارٹی کے 5 سالہ دور حکومت میں ڈالر کی قدر میں مجموعی طور پر35.80 روپے کا اضافہ ہوا تھا، سال2008 میںجب پی پی پی نے حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی تھی اس وقت فی ڈالر کی قیمت62 روپے اور جب سال2013 میں پی پی پی نے حکومتی ذمے داریاں نگراں حکومت کو سونپیں تو ڈالرکی قیمت 97.80 روپے تھی۔

جس کے بعد نگراں دور حکومت میں ڈالر کی قدرمیں تقریباً ایک روپے کا اضافہ ہوا اور ڈالر کی قدر98.80 تار99 روپے تک پہنچ گئی لیکن نواز حکومت کے ابتدائی دور سے ہی امریکی ڈالر کی قدرمیں انتہائی تیزرفتاری کے ساتھ اضافے کا سلسلہ شروع ہوا جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے اوراب تک موجودہ دور حکومت کے چند ماہ میں روپے کی نسبت ڈالر کی قدر میں 10فیصد کا اضافہ ہوچکا ہے۔

لیکن اس کے باوجود ڈالر کی قدر میں مزید اضافے کے خدشات برقرار ہیں، دلچسپ امر یہ ہے کہ سال1955 تا سال1988 تک روپے کی نسبت امریکی ڈالرکی قدر میں مجموعی طور پر18.65 روپے کا اضافہ ہوا تھا، سال1955 میں ڈالر کی قدر4.70 روپے تھی جوسال1988 میں بڑھ کر18.65 روپے کی سطح تک پہنچ گئی تھی لیکن اس کے بعد سال1989 میں بے نظیربھٹوکے دور حکومت سے اب تک ڈالر کی قدرمیں مجموعی طور پر 90.35 روپے کا خطیراضافہ ریکارڈ کیا گیا ۔ مارکیٹ ذرائع امکان ظاہر کر رہے ہیں کہ موجودہ حکومت کی اگرمنی مارکیٹ پر گرفت اسی طرح کمزور رہی تو بہت جلد ڈالر کی قدر125 روپے تک پہنچ جائے گی۔

منی مارکیٹس میں بدھ کوبرطانوی پاؤنڈ کی قدر میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا اور پاؤنڈ کی قیمت173.50 روپے جبکہ یورو کی قیمت 146.55 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ۔ کرنسی مارکیٹ کی ابتر صورتحال کے باعث بدھ کو اسٹیٹ بینک اور ایکس چینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے نمائندوں پر مشتمل ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا۔

جس میں ایکس چینج کمپنیوں نے مطالبہ کیا کہ جاری کرنسی کے بحران پر قابو پانے کے لیے انہیں امریکی ڈالر درآمد کرنے کی اجازت دی جائے جبکہ غیرملکی کرنسیوں کی اسمگلنگ کے سدباب کیلیے بھی سخت اقدامات بروئے کار لائے جائیں، دوران اجلاس اسٹیٹ بینک نے واضح کیا کہ روپے کی قدر میں کمی آئی ایم ایف سے معاہدے کا نتیجہ نہیں ہے تاہم مرکزی بینک نے ایکس چینج کمپنیوں کو یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ ایئرپورٹ پر اپنے مانیٹرنگ بوتھ کے قیام کے بعد انہیں امریکی ڈالر درآمد کرنے کی اجازت دیدے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔