تعزیے عقیدت اور فنکاری کا گھال میل

انتظار حسین  جمعرات 14 نومبر 2013
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

عزا کی رسوم میں کچھ علامات و نشانات کا بھی جلوہ نظر آتا ہے۔ ان میں دو نشان سب سے بڑھ کر ہیں۔ علم اور تعزیئے۔ تعزیوں کے معاملہ میں تو ہنرمندوں نے اتنا ہنر دکھایا کہ تعزیوں نے فنی اہمیت بھی حاصل کر لی۔ سب سے بڑھ کر لکھنؤ میں تعزیہ بنانے والے ہنر مندوں نے تعزیہ سازی میں ہنر اس شان سے دکھایا کہ تعزیے اظہار عقیدت کے ساتھ، فنی اظہار کے نمونے بھی نظر آنے لگے۔ اس میدان میں لکھنؤ کے سوا کوئی دوسرا شہر دعویٰ کر سکتا ہے تو وہ ملتان ہے۔ مگر کیا ملتان کے تعزیوں کے بارے میں کبھی تفصیل سے لکھا گیا ہے۔ فی الوقت تو ہمارے سامنے لکھنؤ کے تعزیوں ہی کی تفصیلات ہیں۔ سو ہم اسی پر قناعت کرتے ہیں۔ پہلے تو رتن ناتھ سرشار کے ’فسانہ‘ آزاد‘ میں جو محرم کا ذکر کرتے ہوئے تعزیوں کی ایک جھلک دکھائی گئی ہے وہ ملاحظہ کیجیے۔

’’ماتم داری لکھنؤ پر ختم ہے۔ عاشورہ کی رات تو نچوڑ کا دن تھا۔ جدھر جاتے ہیں آواز گریہ وزاری۔ جسے دیکھتے ہیں صرف اشک باری۔ رات تو زیارت میں بسر ہوئی۔ عاشورہ کے دن پو پھٹنے کے وقت تعزیے نکلے۔ رانگے کا تعزیہ، جو کا تعزیہ، موم کا تعزیہ، انڈوں کا تعزیہ، نوگزہ تعزیہ، لاکھوں تعزیے تال کٹورے کی کربلا میں دفنائے جاتے ہیں۔‘‘

اس اجمال کی کچھ تفصیل ہمیں مرزا جعفر حسین کی تصنیف  ’قدیم لکھنؤ کی آخری بہار‘ میں نظر آئی۔ مگر پہلے یہ تو سن لیجیے کہ تعزیے کی نمود کیسے ہوئی۔ اس کا سہرا تو برصغیر پاک و ہند کے سر بندھنا چاہیے۔ مرزا جعفر حسین کہتے ہیں کہ ’’تیمور بادشاہ ہر محرم میں امام حسینؓ کے مزار پر حاضر ہو کر سوگ نشین ہوتا تھا۔ ہندوستان میں حملہ آور ہونے کے بعد دوران جنگ محرم کا چاند نمودار ہوا اور اس کے لیے مرقد مبارک پر پہنچا ناممکن ہو گیا۔ تب اس نے اپنے مشیر کاروں سے استصواب کیا اور ان کی رائے پر عمل کرتے ہوئے روضۂ مطہر کی شبیہ تیار کرائی اور اسی کے حضور گریہ کناں ہو کر اپنی عقیدت مندی کو آسودہ کیا۔‘‘

یہی ایک تعزیہ بڑھتے بڑھتے تعزیہ داری کی ایک بڑی روایت بن گیا۔ لکھنؤ میں ہنر مندوں نے جن میں ہندو مسلمان سنی شیعہ سب ہی شریک تھے، اس شبیہ پر اپنا زور ہنر صرف کر دیا۔ کیسا کیسا تعزیہ بنا۔ شیرینی فروشوں نے شکر اور پتاشوں کے تعزیے بنائے۔ چکن سازوں نے چکن کے، منہیاروں نے چوڑیوں کے، کمہاروں نے مٹی کے، ندافوں نے کھجور اور روئی کے، اور نجاروں نے لکڑی کے، تفصیل کچھ یوں ہے۔ اول لال تعزیہ، اس تعزیے کے ہمراہ راجہ مہرا کے خاندان کے ایک فرد لالہ ہرپرشاد نوحے مرثئے پڑھا کرتے تھے۔ خاص طور پر دو مرثئے۔ ایک کا مطلع تھا؎

جب مشک بھر کر نہر سے عباسِ غازی گھر چلے

دوسرے کا مطلع تھا؎

یارب کسی کا باغ تمنا خزاں نہ ہو

چٹائی کے تعزیئے، چٹائی والے اپنے اپنے تعزیے کھجور کے پتوں اور رنگ برنگ تاگوں سے بڑی صنعت گری سے بناتے تھے۔

نوگزا تعزیہ۔ یہ تعزیہ ضریح کی شکل کا ہوتا تھا۔ اس تعزیے کے بانی مسلمان کہار تھے جو یوم عاشور ڈھول تاشے کے ساتھ تعزیے کے ساتھ تعزیے کو دفن کرنے کے لیے تال کٹورہ کی کربلا میں لے جاتے تھے۔ چونکہ یہ تعزیہ نوگز بلند ہوتا تھا اس لیے دوسرے تعزیوں سے اونچا نظر آتا تھا۔

چوڑیوں کا تعزیہ۔ یہ تعزیہ صنعتی اعتبار سے بہت اعلیٰ صفت کا حامل تھا۔ اس کے بنانے والے ایک حکیم صاحب تھے جو مختلف رنگ اور وضع کے شیشے کی چوڑیاں پہلے تیار کر لیتے تھے۔ پھر جو چوڑی جس جگہ زیب دیتی تھی اس جگہ اسے چڑھا دیتے تھے۔

مٹی کا تعزیہ۔ ٹیکا رام نام کے ایک کمہار نے مٹی کا ایک تعزیہ بنایا تھا جو ضریح سے مشابہہ تھا۔

روئی کا تعزیہ۔ ایسے دو تعزیوں نے بہت شہرت پائی۔ یہ تعزیے مختلف رنگوں میں رنگی ہوئی روئی سے بڑی فن کاری سے تیار کیے جاتے تھے۔ ان میں ایک کمال یہ دکھایا جاتا تھا کہ کپاس کے نقلی پودوں کو جو بالکل اصلی پودے نظر آتے تھے تخت کے چاروں گوشوں پر بطور گلدستہ لگایا جاتا تھا۔

سفید تعزیہ۔ شہر میں بے شمار سفید تعزیے نکلتے تھے۔ دو تعزیے اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ ان دونوں تعزیوں کے تختوں اور مونڈھوں پر مختلف رنگوں کے تال میل سے ابرق کے پتر پر دیدہ زیب قلم کاری ہوتی تھی جو رات کے وقت جگمگ جگمگ کر کے آنکھوں میں چکا چوند پیدا کرتی تھی۔

تھوڑا ذکر تعزیوں اور ضریحوں کے جلوسوں کا بھی ہو جائے۔ مرزا جعفر حسین نے ہندو تعزیہ داروں سے وابستہ ایک عجب رسم کا ذکر کیا۔ چند ایک افراد پیک بنتے تھے۔

ان کے لیے نائک اور بانک کے نام بھی چلتے تھے۔ سر پر پگڑی ایسی کہ پورے تھان کو سر پر لپیٹ کر ایک اونچی نوک نکال لیتے تھے۔ کمر میں پٹکا۔ ان میں درجنوں چھوٹی چھوٹی گھنٹیاں لٹکی ہوئی، ہاتھ میں مورچھل، ایک تعزیے سے دوسرے تعزیے کی طرف اور ایک مجمع سے دوسرے مجمع کی طرف دوڑتا چلا جاتا۔ بس ایک بول اس کی زبان پر ہوتا تھا حسین کشتہ شد۔

جلوسوں میں سب سے پہلا اور اہم جلوس حسین آباد مبارک کی ضریح کا جلوس ہوتا تھا۔ یہ ضریح اب بھی اٹھتی ہے۔ شاہی زمانے میں اس کی شان اور تھی۔ جلوس میں سب سے آگے طغرا نما جھنڈوں پر اعلان ہوتا تھا ’’جلوس ضریح مبارک حسین آباد‘‘ اس کے پیچھے ہاتھی پر نوبت خانہ، ماتمی دھن میں شہنائی بجتی۔ اس کے پیچھے سبیل دودھ کے شربت کی۔ اس کے بعد چاندی کے ماہی مراتب، مرزا جعفر حسین کہتے ہیں ’’کم سے کم پچیس ہاتھیوں پر ایک ایک ماہی مراتب جس میں سے چاند، سورج، شیر دہان، سیف اور مچھلی کے نام اور صورتیں راقم کو اب بھی یاد ہیں۔‘‘ کم سے کم آٹھ بینڈ، ہر دو بینڈ کے درمیان جھنڈی بردار قطار در قطار۔ اس کے بعد حضرت عباس کا علم جو ایک بڑی چھڑ پر نصب ہوتا اور جس میں کار چوبی پٹکا لٹکا رہتا اور کار چوبی مشک حمائل۔ سوز خواں سوز پڑھ رہے ہیں۔ علم کے پیچھے ایک کار چوبی مشک حمائل کے نیچے امام حسینؓ کے گھوڑے کی شبیہ یعنی دلدل جسے چاندی کے گنگا جمنی زیورات سے سجایا جاتا۔ مثلاً کنٹھا، ہیکل، سینہ بند، پاکھڑ، دمچی وغیرہ اور ہاں زین پر تلوار، زرہ، ڈھال اور تیر کمان سجے ہوئے۔ اس کے پیچھے تابوت، آخرت میں ضریح مبارک۔

مہندی کا جلوس اس طرح اٹھتا تھا کہ آگے آگے ہاتھی، اونٹ اور گھوڑوں کی قطار، یہ قطار امام باڑے کے باہر تھم جاتی۔ ہاں جلوس بردار یعنی ماہی مراتب اور دوسرے سامان آرائش اٹھانے والے اور بینڈ باجے والے امام باڑے کے صحن میں پرا جما کے اس طرح کھڑے ہوتے کہ بیچ میں راستہ ہوتا۔ اس راستے نقرئی کشتیوں میں مٹھائیاں، میوے اور پھولوں کے ہار، پھر زرق برق لباسوں میں ملبوس ملازمین سروں پر مسہری اٹھائے ہوئے، کچھ لوگ ہاتھوں میں گل دستے لیے ہوئے۔ پھر دلہن کی نقرئی پالکی، ساتھ ہی مشعلچی، بس اسی اثناء میں عزاداروں کی ایک جماعت ماتمی لباس پہنے غمگیں صورتوں کے ساتھ نمودار ہوتی۔ ان کے ہمراہ حضرت قاسم کا تابوت، تابوت کے ساتھ چترزری کے نیچے گھوڑا جس پر حضرت قاسم کا زرتار عمامہ، کمان، خنجر، تیروں سے بھرا ترکش، آخر میں مجلس عزا۔

اس رنگ کے جلوس شاہی زمانے تک تھے۔ اس زمانے کے ساتھ ہی رخصت ہو گئے۔ یعنی جلوس تو نکلتے رہے لیکن یہ شاہانہ تکلفات ختم ہو گئے۔

یہ تھا لکھنؤ کے محرم کا رنگ مشقے نمونہ از خروارے۔ اور رنگ ایسا کہ ایک تہذیب، ایک کلچر کا تاثر دیتا نظر آتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔