آپ علمِ غیب میں کب سے حصہ ڈال بیٹھے؟

وسعت اللہ خان  پير 25 نومبر 2013

میری کیا اوقات کہ پوچھ بیٹھوں کہ جمل کی پہلی مسلمان خانہ جنگی میں کل ملا کے جو دس ہزار اہلِ ایمان دارِ فانی سے چلے گئے اور پھر ان سب کی نماز اسی مقام پر پڑھائی گئی اور پھر صفین کی دوسری خانہ جنگی کے دوران علاوہ غزوہ ِ بدر کے غازی ستر صحابہِ کرام ، پانچ سو بیس متبرک انصار و مہاجرین بشمول تین سوحفاظ ِ قرآن سمیت لگ بھگ ستر ہزار مسلمان دونوں طرف سے جاں بحق ہوئے۔ ان میں کتنے یا پھر سب کے سب شہید ہیں ؟ اور جو خوارج حضرت معاویہؓ بن ابی سفیان یا علیؓ ابن ِ طالب کے حامیوں سے لڑتے ہوئے مارے گئے یا مارا، ان کی ایمانی کیفیت کا کس خدائی کسوٹی پر حساب کتاب ہوا ہوگا ؟

اور یہ کہ ان سب کے وارث چودہ سو برس بعد بھی ایسے پریقین انداز میں کیوں باہم دست و گریباں ہیں جیسے یہ ان جلیل القدروں سے زیادہ ان کے باہم مسائل کا ادراک رکھتے ہوں۔

میری کیا بساط کہ محمد بن قاسم کو سندھ روانہ کرنے والے معلمِ قرآن حجاج بن یوسف کے میزانِ اعمال پر فتویٰ صادر کروں ؟ آیا وہ قرآن پر اعراب لگانے کے کارنامے پر جنت کے حقدار ہوں گے کہ سات ماہ تک مکہ کا محاصرہ کرکے کعبے پر منجنیق سے سنگ باری کے بعد حضرت عبداللہ ابنِ زبیر کا سر کاٹ کر خلیفہ عبدالمالک کے دربار میں بھیجنے کی سزائے عظیم بھگت رہے ہوں گے۔

اور حجاج کے بعد جو ہزاروں اموی اور عباسی اگلے ڈیڑھ سو برس میں باہمی تلواروں کا رزق بن گئے ان کی ارواح کو آسمان پر کیسا اور کتنا اجر ملا ہوگا ؟

البتہ یہ ضرور پوچھنا چاہوں گا کہ چودہ سو برس کی سب سے خونریز مسلمان لڑائی یعنی آٹھ سالہ جنگِ خلیج کے دوران عراقیوں نے آپریشن توکل اور قادسیہ کے ناموں سے اور ایرانیوں نے آپریشن والفجر ، البدر ، رمضان ، بیت المقدس جیسے نام رکھ کے یہود و نصاریٰ کے نقد اسلحے کے سہارے معدنیاتی تجوریوں کے بل پر جب پانچ لاکھ جنگی مقتول مسلمانوں کو تقدیسِ شہادت کی عبا میں کفنا دیا تو اس کے بعد آیت اللہ خمینی اور صدام حسین کو آسمانوں کی سلطنت میں کن اعلیٰ درجات پر پرکھا اور رکھا جا رہا ہوگا ؟ اور جن مسلمان حکمرانوں نے یہ آگ بجھانے کے نام پر دونوں کا دامے ، درمے ، قدمے ، سخنے، نفتے ( تیل ) ساتھ دیا، ان کے ایمان کی اوپر کیا جمع تفریق ہوئی ہوگی ؟ اور جنہوں نے اسے عرب و عجم کی جنگ قرار دیا، وہ خطبہِ حجتہ الوداع دینے والے نبی کی توہین کے مرتکب ہوئے کہ نہیں ہوئے ؟اور افغانستان میں پچھلے تیس برس میں جتنے مسلمان مرے ان میں سے کون کون فلکِ ہفتم پر درجہِ شہادت کی چھلنی سے گذارا جائے گا اور کتنوں کو ایک جانب الگ تھلگ کھڑا کردیا جائے گا۔

چلیے چھوڑیئے ان باتوں کو۔بس یہی بتا دیجے کہ جن غیر مسلموں نے اٹھارہ سو ستاون کی جنگِ آزادی میں مسلمانوں کے شانہ بشانہ فرنگی توپوں کے منہ پر بندھ کے اڑنا پسند کیا، وہ روزِ قیامت کن کے ساتھ اٹھائے جائیں گے ؟ اٹھائے بھی جائیں گے کہ نہیں ؟

اور جن لاکھوں بے روزگار مسلمانوں نے نوے برس تک برٹش انڈین آرمی میں نوکری کی انھوں نے رزقِ حلال کمایا کہ حرام ؟ اور پھر ان میں سے جو ہزاروں ہندوستان کے اندر اور باہر لڑتے لڑتے جاپان سے یورپ اور شمالی افریقہ تک مختلف محاذوں پر انگریزی کمان میں مارے گئے۔ان کی حیات بعد الممات کے بارے میں کیا فتویٰ ہے ؟ اور جو چھ سو مسلمان آج کی برٹش آرمی میں نوکری کررہے ہیں اور ان میں سے جو پہلا برطانوی مسلمان فوجی کارپورل جبرون ہاشمی دو ہزار چھ میںصوبہ ہلمند میں لڑائی کے دوران ہلاک ہوا۔ آیا وہ ہلاک ہوا یا بعد از حیات اسے زندہ سمجھا جائے ؟ اور وہ جو ساڑھے تین ہزار مسلمان اس وقت امریکی فوج کا حصہ ہیں اور وہ جو آج کی روسی فوج میں بیس فیصد مسلمان شامل ہیں۔ تو ان کی زندگی اور موت کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟

اور پھر وہ جو دو فیصد ہندوستانی فوج مسلمان ہے اور اس میں سے بھی بریگیڈیر محمد عثمان جولائی انیس سو اڑتالیس میں کشمیر کے محاذ پر پاکستانی فوج سے لڑتے ہوئے مارا گیا اور جس کا جنازہ دلی میں مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ اٹھایا گیا اور پھر وہ کارپورل عبدالحمید جو انیس سو پینسٹھ میں کھیم کرن کے محاذ پر مارا گیا اور پھر اسے اعلیٰ ترین فوجی اعزاز پرم ویر چکر ملا اور بھارت کے جنگی ہیروؤں کے ہال آف فیم میں داخل کیا گیا، ان کی اگلے جہان کی زندگی کے بارے میں تو کچھ فرمائیے ؟ کچھ تو فرمائیے کہ آپ تو کتے تک کے بارے میں جانتے ہیں کہ شہید ہے کہ مردار۔

اچھا چھوڑئیے، یہ سب ایران توران۔ پاکستان کے بارے میں کچھ بات کرلیتے ہیں۔نہ نہ نہ نہ۔ لائلپور کے جنمی بھگت سنگھ کو شہید کہنا تو رہا ایک طرف، میں تو اس کے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کرنے والے اور پھر چھیالیس برس بعد بھٹو کے ڈیتھ وارنٹس کا سبب بنے والے قصور کے آنریری مجسٹریٹ نواب محمد احمد خان کی زندگی اور عاقبت کے بارے میں ہرگز ہرگز بات نہیں کرنا چاہتا۔بلکہ پاکستانی فضائیہ کے اسکواڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی (ستارہِ جرات) کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں جو چھ دسمبر انیس سواکہتر کو جام نگر پر بمباری کے دوران زمین اور آسمان کے درمیان کہیں چلا گیا۔

اور اسرائیل کے خلاف انیس سو سڑسٹھ کی جنگ میں اردن کی طرف سے لڑنے والا پاکستانی ونگ کمانڈر مارون لیزلی مڈل کوٹ ( ستارہِ جرات ) جو بارہ دسمبر انیس سو اکہتر کو خلیج ِ کچھ پر بھارتی فضائیہ سے ڈاگ فائٹ کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ مڈل کوٹ کے تابوت پر پاکستان اور اردن کا پرچم ڈالا گیا۔تو کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان پر قربان ہونے والے ان آنجہانیوں کو ش ش ش شہید کہہ دوں ؟؟؟ مگر ڈرتا ہوں کہ کہیں غضب ناک حضورِ والا میرے لیے ہی دوزخ کا پروانہ نا لکھ بیٹھیں۔

ورنہ تو رن آف کچھ کے ہیرو اور اب تک کی پاک بھارت جنگوں میں محاذ پر کمان کرتے ہوئے ہلاک ہونے والے سب سے سینئر پاکستانی افسر میجر جنرل افتخار جنجوعہ کا نام بھی سرفروشی کے راستے میں پڑنے والا ایک سنگِ میل ہے۔مگر جنرل جنجوعہ کے اگلے درجات کے بارے میں کوئی بھی آنکڑا لگانا بے معنی ہے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ یہ احمدی لوگ چاہے کتنے بھی۔خیر چھوڑئیے۔

اور یہ ہرچرن سنگھ بلوچ رجمنٹ میں کپتان کیسے بن گیا ؟ کیا سردار جی کو کسی نے نہیں سمجھایا کہ یہاں تو مسلمان فوجیوں کی شہادتیں چیلنج ہو چکی ہیں، تم بھلا کس کھیت کی مولی ہے۔مگر اگر یہی کپتان ہرچرن سنگھ کل کلاں سیاچن یا لائن آف کنٹرول پر مارا گیا تو آپ اسے قربانی اور اجر کے کس خانے میں رکھنا پسند فرمائیں گے ؟ اور اگر اس نے وزیرستان میں جان دی تو پھر کس کیٹگری میں ڈالیں گے ؟ اور پھر میڈیکل کور کے کیپٹن دنیش اور کیپٹن انیل کمار ؟؟؟؟

ویسے جب آپ دھڑلے سے کسی کے شہید یا غیر شہید ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں تو آپ کو کیوں نہیں لگتا کہ دراصل آپ خالصتاً صوابدیدی خدائی اختیار میں ٹانگ اڑا رہے ہیں۔ یہ فیصلہ اتنا ہی آسان اور زمینی ہوتا تو پھر رسولِ ؐخدا خود دین و ریاستِ مدینہ پر قربان ہونے والوں کے ساتھ شہید کا لاحقہ لگاتے اور اگلے زمانوں کے لیے بھی یہی تلقین فرماتے۔ تو کیا کسی نے سنا کہ حضرت امیر حمزہ ، حضرت عبید ابنِ حارث ، حضرت عمرِ فاروقؓ ، حضرت عثمانِؓ غنی ، حضرت عمار بن یاسر ، حضرت علیؓ ابنِ طالب کے نامِ نامی کے آخر میں شہید آتا ہو۔حالانکہ ایک بے شمار قطار ہے راہِ خدا میں نچھاور ہونے والوں کی۔ رسول اللہ نے راہ ِ حق میں جان دینے والوں کی شفاعت ، مغفرت اور اجرِ عظیم کے لیے ہچکیوں کے ساتھ دعائیہ سفارش ضرور کی لیکن یہ فیصلہ اوپر والے پر چھوڑ دیا کہ وہ کس کی شہادت قبول فرماتا ہے۔

اور آپ ہیں کہ کتنی سہولت سے کسی کو بالکل ایسے شہید یا غیر شہید قرار دے دیتے ہیں جیسے ہم میں سے اکثر کسی کو بھی ہنستے ہنستے بتقاضائے احترام حاجی صاحب ، قبلہ ، حضورِ والا ، جہاں پناہ کہہ دیتے ہیں۔ایسا بھی کیا جوش ِ محبت یا جوشِ غضب کہ اندازہ ہی نا رہے کہ درجہِ شہادت کا تعین زمین پر ہو ہی نہیں سکتا۔تب بھی آپ جلسہِ تقسیم ِ اسنادِ شہادت کی عادتِ انعقاد سے خود کو باز نہیں رکھ پا رہے۔

چلیے آپ اگر علمِ غیب میں اس قدر ہی دخیل ہوچکے ہیں تو اپنے بارے میں بھی فرما دیجے کہ آپ کے لیے اوپر کونسا درجہِ اولی مختص کیا جاچکا ہے ؟ اور یہ بھی بتا دیجے کہ واللہ و عالم بالصواب کا مطلب کیا ہے اور یہ کہاں کہاں استعمال ہو سکتا ہے ؟ مگر ایک منٹ۔۔۔یہ راولپنڈی کا فساد اور پھر ڈرون دھرنے کے معاملات کا شہید و غیر شہید کی بحث کے عین درمیان میں سامنے آنا کوئی اتفاق ہے کہ محض حسنِ اتفاق ؟

( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔