پاکستان کے ساتھ عشق و عاشقی کرنے والے

عبدالقادر حسن  جمعـء 13 دسمبر 2013
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

میں ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے ڈھاکا کے اسپتالوں میں زخموں سے چور جماعت اسلامی کے کارکنوں کو دیکھا، اس حال میں کہ جب کسی زخمی کے بستر پر جا کر میں نے اپنا تعارف کرایا تو مغربی پاکستان سے آنے والے ایک بھائی کے لیے ان کے چہرے زخموں کی تکلیف کے باوجود چمک اٹھے اور کئی ایک نے مجھ سے ہاتھ ملانے کی کوشش بھی کی لیکن ان کے زخموں نے انھیں اٹھنے نہ دیا، اس پر ان کے چہروں پر افسردہ معذرت مجھے صاف دکھائی دی۔ میں اپنے ان نوجوان بھائیوں کو دیکھ کر رو بھی دیا اور آپ کو شاید تعجب ہو کہ کئی زخمیوں نے یہ کہہ کر مجھے تسلی دی کہ وہ اپنے ہر زخم سے مطمئن ہیں اور صبر کر رہے ہیں، میں بھی ان کے لیے پریشان نہ ہوں بلکہ ان کے لیے صبر اور حوصلے کی دعا کروں۔ میں جب ایک مریض کے پاس کھڑا تھا تو مریضوں کے اس وارڈ میں سے کسی طرف سے آواز آئی، ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔ اس آواز میں زخموں کی لرزش تھی۔ پھر میں نے اسی وارڈ میں کچھ دیر بعد پروفیسر غلام اعظم کو دیکھا کہ ان کی داڑھی آنسوئوں سے لبریز تھی اور وہ اپنے نوجوان ساتھیوں کے بوسے لے رہے تھے، ان سے بے ساختہ پیار کر رہے تھے۔

زخمیوں کا یہ معمر لیڈر اپنے بیٹوں کے دکھ درد سے کانپ رہا تھا، وہ اپنے ان جوانوں کو دیکھ کر جوان ہو رہا تھا۔ یہ موقع تھا جب مولانا مودودی نے ڈھاکا کے پلٹن میدان میں ایک جلسے سے خطاب کرنے کی کوشش کی تھی اور شیخ مجیب الرحمن کی پارٹی نے اس جلسے پر حملہ کر دیا تھا۔ آج کے اس پاکستان کی طرح یہ اس پرانے پاکستان کا بھی وہ زمانہ تھا جب جماعت اسلامی کو پاکستان کا مخالف سمجھا جاتا تھا اور اسے مارنا پیٹنا ایک نیکی کا اور پاکستانی کام تھا۔ اب اس باقی ماندہ پاکستان میں پاکستانیت کم اور علاقائیت بڑھ رہی ہے اور پاکستان کی برملا مخالفت کرنے والی جماعتیں بھی خوب پھل پھول رہی ہیں، اس لیے ان کے بیچ جماعت اسلامی بچی ہوئی ہے لیکن جماعت کے برخود غلط لیڈر اسے کب تک بچنے دیں گے، یہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بلاوجہ کسی نہ کسی مسئلے میں علمی ٹانگ اڑا دی جاتی ہے اور پھر پرانی طرز پر وضاحتوں کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ ان دنوں بھی ایک ایسا سلسلہ جاری ہے اور نہ جانے کب تک یہ جاری رہے گا اور اس دوران پھر کوئی غیر ضروری ایسا مسئلہ پیدا نہیں ہو گا جو جماعت کی قیادت کی کسی ایمانی رگ کو پھڑکا نہیں دے گا۔

بات عبدالقادر ملا کے مبارک نام سے شروع ہوئی تھی جو اب نہ جانے جنت کے کس محل میں آرام کر رہے ہوں گے، میرا تو خیال ہے وہ اپنے قائد سید ابو الاعلیٰ مودودی کی خدمت میں حاضر ہوں گے، ایک مدت بعد انھیں اپنے لیڈر سے ملنے کا موقع ملا ہے۔ ان کے لیڈر کو بھی شہادت کا ایک موقع ملنے والا تھا لیکن بزدل حکمرانوں کی ہمت جواب دے گئی۔ جیل میں ان کے ساتھی اور ہم عصر علماء ان کے کپڑے آنکھوں کو لگا رہے تھے اور بلک بلک کر کہہ رہے تھے کہ ہمیں خیال نہیں تھا کہ مودودی اتنا بڑا آدمی ہے۔ ان کی وفات کے کچھ عرصہ بعد ایک خواب کی روایت ہے کہ انھوں نے اپنی بیگم سے کہا کہ تم بھی آ جائو دیکھو کیسی ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے۔ ان کا ایک پیرو کار عبدالقادر ملا آج ان کی مجلس میں حاضر ہے کیونکہ وہ جماعت اسلامی والوں کے نزدیک بھی شہید ہے۔ اس کی شہادت میں کوئی شک نہیں ہے۔ آج کے بنگلہ دیش میں کئی دوسرے لیڈر بھی ’پاکستان پاکستان‘ کہتے ہوئے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن انھوں نے موت کو سامنے لہراتا دیکھ کر بھی پاکستان سے انکار نہ کیا۔ مولوی فرید احمد اور کئی دوسرے لیڈر بھی بالآخر پاکستان کے نام پر قربان ہو گئے کیونکہ پاکستانی غداروں کے بنائے ہوئے میدان میں بھارتی فوجیں آسانی سے داخل ہو گئی تھیں اور ملک کے اس حصے کو بنگلہ دیش بنا دیا تھا لیکن اس بنگلہ دیش میں کچھ پاکستانی ایسے موجود تھے جن کے نام معروف تھے۔

چنانچہ ان کے سر پر جب مکتی باہنی والے چھرے لے کر کھڑے ہو گئے تو انھوں نے پاکستان کا نعرہ لگا کر جان دے دی۔ عمر رسیدہ جناب نور الامین کسی طرح پاکستان پہنچ گئے اور یہاں وہ سیدھے قائد کے مزار پر گئے اور رو رو کر بے سدھ ہو گئے۔ معلوم نہیں وہ کون خوش نصیب ہو گا جو ان پاکستانیوں کا حال لکھے گا اور آنے والی نسلوں کو بتائے گا کہ پاکستان سے کچھ لوگوں نے عشق بھی کیا تھا اور اسی عشق و عاشقی میں جان بھی دے دی تھی۔ چند گز کی بنگالی دھوتی اور کرتے میں وہ خالی ہاتھ اس پاکستان سے گزر گئے اس کی پروا کیے بغیر کہ تحریک پاکستان کے کئی کارکنوں نے اس پاکستان میں اتنا کچھ حاصل کر لیا جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ کبھی کوئی یہ بھی لکھے گا کہ تحریک پاکستان کے ان کارکنوں نے کتنا معاوضہ وصول کیا تھا لیکن اس کالم کو میں ان لوگوں کے ذکر سے گندا نہیں کرنا چاہتا۔ یہ شہیدوں کے ذکر سے متبرک کالم ہے وہ لوگ جو کسی عوض معاوضہ کے بغیر اپنی جان تک قربان کر گئے ان کے نام نہ کوئی بلڈنگ الاٹ تھی نہ کوئی کاروبار ان کے پاس سوائے ان کی جان کے اور کچھ نہ تھا جو وہ پاکستان کے سپرد کر گئے۔ وہ اپنے آخری وقت میں گھر والوں سے کہہ گئے کہ دیکھو رونا دھونا نہیں، میں معصوم ہوں، بے گناہ ہوں اور شہادت پانے والا ہوں۔ اس لیے میرے لیے رونا زیب نہیں دیتا۔

65 سالہ عبدالقادر ملا میرا کسی حد تک ہم نام بھی تھا اور ہم خیال بھی۔ وہ مجھ سے چھوٹا تھا جو مرتے وقت مجھ سے نہ جانے کتنے گنا بڑا ہو گیا بلکہ میں تو اس کی صف میں کھڑا ہونے کا حقدار بھی نہیں ہوں، کسی دن بستر پر مر جائوں گا، کچھ کیے بغیر۔ آج ان شہیدوںسے درخواست کرتا ہوں کہ وہ فرصت پائیں تو میرے لیے بھی دعا کریں۔ شہادت جس کے نصیب میں ہو وہ مل جاتی ہے، صرف بہانے مانگتی ہے۔ میں آج ان شہیدوں کے نام پر اپنا سر جھکاتا ہوں جن کو میں نے مشرقی پاکستان کے سبزہ زاروں میں زندہ دیکھا اور مجھ بدقسمت کو کیا معلوم کہ جو نوجوان مجھ سے بڑی محبت کے ساتھ مل رہا ہے، وہ ایک زندہ شہید ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔