میں ہوں آتما کسی اور کی: وہ بچے جن کا دعویٰ ہے کہ’’دوسرا جنم‘‘ جی رہے ہیں

سید بابر علی  اتوار 15 دسمبر 2013
کئی مذاہب میں دوسرے جنم کا عقیدہ انتہائی پختہ ہے فوٹو : فائل

کئی مذاہب میں دوسرے جنم کا عقیدہ انتہائی پختہ ہے فوٹو : فائل

موت کے بعد دوبارہ جنم کا خیال گر چہ اسلام، یہودیت اور عیسائیت میں نہیں ہے۔

لیکن مغربی افریقا، جنوبی امریکا، اور آسٹریلیا کے بہت سے قبائل سمیت ہندو اور جین مذہب میں مرنے کے بعد مرنے والے کی روح کے کسی اور شکل میں جنم لینے کا تصور اور عقیدہ بہت پختہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس موضوع پر بہت سے مصنفین کتابیں لکھ چکے ہیں، جب کہ حال ہی میں’’یونیورسٹی آف ورجینیااسکول آف میڈیسن‘‘ کے ایسو سی ایٹ پروفیسر اور چائلڈ اینڈ فیملی سائیکاٹری کلینک کے ڈاکٹر جم ٹکر نے اس موضوع پر دس سال کی عرق ریزی کے بعد ایک کتاب ’’ریٹرن آف لائف‘‘ مرتب کی ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے دنیا کے کئی ممالک میں ایسے بچوں اور ان کے والدین سے ملاقات کی جن بچوں کی بابت کہا جاتا ہے کہ یہ ان کا ’’دوسرا جنم‘‘ہے۔ اس کتاب میںان بچوں کے حقیقی واقعات بیان کیے گئے ہیں جنہیں اپنے ’’پچھلے جنم‘‘ کی باتیں ازبر ہیں۔

ان میں سے اگر ایک بچہ پچھلی زندگی میں گالف کا تیرہ مرتبہ فاتح قرار پانے والا بین الاقوامی کھلاڑی ’’بوبی جونز‘‘ ہونے کا دعوے دار ہے، تو دوسرے بچے کو اچھی طرح یاد ہے کہ پچھلے جنم میں وہ دوسری جنگ عظیم میں حصہ لینے والا فائٹر پائلٹ تھا اور اس کا جہاز سمند ر میں گرکر تباہ ہوگیا تھا اور سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تمام بچوں کی عمریں دو سے سات سال کے درمیان ہیں اور انہیں نہ صرف اپنا پچھلا جنم بلکہ اُس زندگی کے دوست احباب اور عزیز اقارب تک کی شکلیں اچھی طرح یاد ہیں۔

زیرنظر مضمون میں سب سے پہلے ہم ذکر کریں گے امریکی ریاست کیلی فورنیا کے تین سالہ ہنٹر (فرضی نام) کا۔ ہنٹر کے والد کا کہنا ہے کہ ایک دن جب میں اپنے بیٹے کے ساتھ ٹی وی پر گولف کا میچ دیکھ رہا تھا تو اس دوران 1930 میں کھیلے گئے گولف کے ایک تاریخی میچ کی جھلکیاں دکھائی گئیں جنہیں دیکھ کر اچانک ہنٹر نے مجھ سے کہا،’’ڈیڈ، اپنی جوانی میں، میں بوبی جونز تھا۔‘‘ یہ سن کر ہم دونوں میاں بیوی ہنسنے لگے، کیوں کہ ایک کٹر عیسائی ہونے کی وجہ سے ہمارے ذہن میں دوسرے جنم کے حوالے سے کوئی تصور نہیں تھا۔ تاہم ہنٹر کے اعتماد نے ہمیں شک میں مبتلا کردیا تھا۔ اپنے شک کو دور کرنے کے لیے ہنٹر کے والد نے ایک دن اسے 1930میں گولف کھیلنے والے چھے کھلاڑیوں کی تصاویر دکھا کر پوچھا کے ان میں سے ’’بوبی جونز‘‘ کون ہے؟ اور حیرت انگیز طور پراس نے بنا کسی جھجک بوبی کی تصویر اٹھا کر کہا ’’یہ میں ہوں۔‘‘

اس کے بعد ہنٹر کے والد نے مختلف گھروں کی تصاویر پرنٹ کروائی، جن میں بوبی کے گھر کی تصویر بھی شامل تھی اور ایک بار پھر ہنٹر سے پوچھا تو اس نے بوبی کے گھر کی تصویر اٹھا کر کہا،’’یہ میرا گھر ہے۔‘‘

ڈاکٹر ٹکر کا کہنا ہے کہ ہنٹر میں گولف کھیلنے کی خداداد صلاحیت بھی موجود ہے جس کی بنا پر کیلی فورنیا کے مقامی کلب نے اسے محض تین سال کی عمر میں داخلہ دے دیا تھا، جب کہ کلب میں داخلے کے لیے عمر کی کم از کم حد پانچ سال ہے، جب کہ کئی منجھے ہوئے کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ اتنی کم عمری میں ہنٹر کی ’’سوئنگ‘‘ لاجواب ہے، جو ’’بوبی جونز‘‘ کی یاد تازہ کردیتی ہے، جب کہ ہنٹر کا سب سے پسندیدہ مشغلہ تکیوں اور چادر سے گولف کورس ڈیزائن کرنا ہے۔ ہنٹرکا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں ’’اگوسٹا‘‘ اس کا سب سے پسندیدہ گولف کورس تھا۔

ڈاکٹر جم کا کہنا ہے کہ جب میں پہلی بار ہنٹر سے ملاقات کے لیے اس کے گھر پہنچا تو اس کے چہرے کے تاثرات مجھے دیکھ کچھ عجیب ہوگئے تھے جیسے اسے میرا آنا پسند نہیں آیا، حالاںکہ اس عمر میں بچوں کے چہرے کے تاثرات اتنے پختہ نہیں ہوتے ہیں۔ ہنٹر اب سات سال کا ہوچکا ہے اور 50 جونئیر ٹورنامنٹس میں سے41میں فتح حاصل کر چکا ہے۔ تاہم ڈاکٹر ٹکر کا کہنا ہے کہ ہنٹر کے ذہن سے بوبی جونز کی یادداشتیں آہستہ آہستہ محو ہوتی جارہی ہیں۔

مارٹی مارٹن اور ریان
آنجہانی مارٹی مارٹن کا شمار ہالی وڈ کے 1930کے سنہرے دور کے پہلے سپر ایجنٹس میں سے ایک میں ہوتا تھا۔ پیرس میں پُرتعیش زندگی گزارنے والے مارٹن نے چار شادیاں کی تھی، جب کہ اس کے بہت سے بااثر لوگوں سے بھی قریبی تعلقات تھے۔ مارٹن 1964میں کینسر جیسی موذی بیماری کا شکار ہو کر اس دارفانی سے کوچ کر گیا تھا۔

مارٹن کے انتقال کے پچاس سال بعد ریاست اوکلو ہاما کے ایک عیسائی جوڑے کے 5 سالہ بیٹے ’’ریان‘‘ کا رویہ بہت عجیب ہوگیا، جسے اس نے اپنی تصوراتی فلموں میں ’’ایکشن‘‘کا نام دیا، جب کہ اس نے نیند میں چلنا اور چلانا بھی شروع کردیا تھا۔ ریان اس وقت ہالی وڈ میں موجود ہونے کا دعویٰ بھی کرتا تھا۔ ایسی ہی ایک رات ریان نے اپنی ماں سنڈی سے کہا،’’جب آپ مریں تو آپ کا روشنی کی طرف جانا بہت اہم ہے، کیوں کہ وہاں سے ہر شخص واپس آجاتا ہے۔‘‘

ایک دن ریان نے لائبریری سے سنڈی کے لائے گئے ایک فلمی رسالے کو دیکھا جس کے سرورق پر 1932کی فلم ’’نائٹ آفٹر نائٹ‘‘ کے اداکاروں کا گروپ فوٹو تھا۔ رسالے کا سرورق دیکھتے ہی ریان نے پرجوش انداز میں اداکار ’’جارج رافٹ‘‘ کی تصویر پر انگلے رکھتے ہوئے کہا،’’ماما! یہ جارج ہے، ہم نے یہ فلم ایک ساتھ کی تھی،اور ماما یہ میں ہوں، میں نے خود کو تلاش کرلیا۔ مارٹن کی تصویر پر انگلی رکھتے ہوئے ریان نے کہا۔ ڈاکٹر ٹکر کا کہنا ہے کہ یہ تصاویردیکھنے کے بعد ریان کو اپنی پچھلی زندگی کی تمام باتیں اچھی طرح یاد آگئی ہیں۔

 

ریان نے ڈاکٹر ٹکر کو بتایا کہ ایک بار میں نے ’’مارلن منرو‘‘ کے محافظ کو مکا ماراتھا، کیوں کہ وہ اس سے بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ مجھے اپنا نیا نام ’’ریان ‘‘بہت پسند ہے اور میں پہاڑی پر واقع اپنے وسیع پُرتعیش گھر میں واپس جانا چاہتا ہوں، جب کہ ٹیلی ویژن پر ہالی وڈ ہلز دیکھ کر بھی وہ چلاتا ہے کہ اس کا اس جگہ سے گہرا تعلق ہے۔ ڈاکٹر ٹکر کا کہنا ہے کہ ریان کو مارٹن کی جانب سے پیرس کے ’’کیفے لائن بولیورڈز‘‘ اور ایفل ٹاور کے تفریحی دورے بھی مکمل جزیات کے ساتھ یاد ہیں۔

ریان کے والدین کا کہنا ہے کہ اپنی پچھلی زندگی کی باتیں سناتے وقت ریان کے چہرے کے تاثرات یکسر بدل جاتے ہیں اور وہ پانچ سالہ بچے کے بجائے ایک سنجیدہ اور باوقار آدمی دکھائی دیتا ہے۔

ڈاکٹر ٹکر کا کہنا ہے کہ ریان کے مشاغل بھی پانچ سال کی عمر والے بچوں کی طرح نہیں ہیں وہ اپنی ماں سے یہی کہتا ہے کہ ’’ممی، میں دوبارہ بڑا ہونے کا انتظار نہیں کرسکتا۔ مجھے اپنی اس بڑی کشتی پر جانے دیں جہاں میں نفیس لباس پہن کر خوب صورت خواتین کے ساتھ رقص کر سکوں۔‘‘ ریان اپنی (مارٹن) کی ان باتوں کو بھی دہراتا ہے کہ میں نے کیسے اپنی قیمتی رولز رائس کو ڈبو دیا تھا، میری ایک بیٹی ہے اور مجھے کینسر کی بیماری بھی تھی۔ ڈاکٹر ٹکر کا کہنا ہے کہ ریان اکثر 50کی دہائی میں نیویارک سے تعلق رکھنے والے اپنے قریبی دوست سینیٹر’’Irving Ives‘‘ کے ساتھ کی جانے والی گفت گو بھی دہراتا ہے۔

ریان کے اس دعوے کی تصدیق کے لیے جب ڈاکٹر جم نے مارٹن کی بیٹی سے ملاقات کی تو اس نے ریان کی اپنے والد کے بارے میں کہی جانے والی زیادہ تر باتوں کو درست قرار دیا۔ مارٹن کی بیٹی نے ڈاکٹر ٹکر کو بتایا کہ اس کے والد ایک دولت مند، رقص کے دل دادہ اور ہالی وڈ سمیت دیگر بااثر شخصیات کے ساتھ دوستی کرنے والے شخص تھے۔

جیمز لیننگر اور جیمز ہسٹن
امریکی ریاست ڈلاس کے دو سالہ جیمز لیننگر کے والدین پر اپنے بیٹے کے دوسرے جنم کا انکشاف اس وقت ہوا جب انہوں نے نیوی کی فلائٹ ایگزیبیشن ’’بلیو اینجلز‘‘ سے جیمز کے لیے ایک ویڈیو خریدی ، جسے اتنی کم عمر میں ہی کھلونا جنگی جہازوں سے بہت لگائو پیدا ہوگیا تھا۔ جیمز کے والد بروس نے ڈاکٹر ٹکر کو بتایا کہ یہ ویڈیو دیکھنے کے بعد جیمز نے اپنے کھلونا جہازوں کو متواتر کافی کی میز سے ٹکرا کر توڑنا شروع کردیا۔ ان لمحات میں جیمز کا رویہ بہت عجیب ہو جاتا تھا اور جہاز کو توڑتے وقت چیختا بھی تھا کہ اس کے جہاز میں آگ لگ گئی ہے۔

جیمز کی ماں اینڈریا کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے نے رات میں ڈراؤنے خواب دیکھنے شروع کر دیے تھے اور اکثر و بیشتر وہ بستر پر لڑتے ہوئے خون کو جمادینے چیخیں مارتا تھا اور چلاتا تھا،’’جہاز میں آگ لگ گئی ہے! میں باہر نہیں نکل سکتا‘‘، جب کہ اس دوران اس کی جسمانی حرکات بھی عجیب ہوجاتی تھیں۔ وہ ٹانگیں اوپر اٹھا کر اس طرح چلاتا تھا جیسے جہاز کے کاک پٹ سے باہر نکلنے کے لیے کینوپی کو کھولنے کی کوشش کر رہا ہو۔ لیکن یہ سلسلہ صرف خوابوں تک ہی محدود نہیں رہا۔ ایک دن جیمز نے اپنے والدین کو بتایا،’’ماما، پچھلے جنم میں، میں ایک فائٹر پائلٹ جیمز ہسٹن تھا اور جاپانیوں نے میرے جہاز کورسیئر(Corsair)کو نشانہ بنایا تھا، جس کے نتیجے میں جہاز کے انجن میں آگ لگ گئی تھی اور وہ سمندر میں گر کر تباہ ہوگیا تھا۔ جیمز نے مزید بتایا کہ میرے جہاز نے ’’یوایس ایس ناتوما بے‘‘ کے فضائی بیڑے سے اڑان بھری تھی۔

بروس نے ڈاکٹر ٹکر کو بتایا کہ جیمز کی ان باتوں نے انہیں سخت الجھن میں مبتلا کر رکھا ہے، کیوںکہ ان کے مذہبی عقیدے میں انسان کا دوسرا جنم لینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، جب کہ جیمز کی کہی گئی باتیں بھی حقائق پر مبنی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ محض ڈھائی سال کی عمر میں ہی جیمز نے Iwo Jima کی لڑائی کے بارے میں رکھی ہوئی ایک کتاب کھول کر ’’مائونٹ سوری باچی‘‘ کی تصویر پر ہاتھ رکھ کر چلاتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ڈیڈی، یہی وہ جگہ ہے جہاں میرے جہاز کو نشانہ بنایا گیا تھا۔‘‘

بروس کا کہنا ہے کہ جیمز کی پچھلی زندگی کے بارے میں اتنی پر اعتماد گفت گو کے بعد میں نے اس معاملے کی تہ تک جانے کا فیصلہ کیا اور ’’یوایس ایس ناتوما بے‘‘ کے سابق فوجیوں کی یونین میں شرکت کی اور وہاں یہ جان کر حیرت زدہ رہ گیا کہ Iwo Jima آپریشن کے دوران صرف ایک ہوا باز مارا گیا تھا، جو ریاست پنسلوانیا کا 21سالہ جیمز ہسٹن تھا۔ بروس نے ڈاکٹر ٹکر کو بتایا کہ مزید تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ ’’جیمزہسٹن‘‘ کے جہاز کو اس کی ناک سے نشانہ بنایا گیا تھا اور میرے بیٹے ’’جیمزلیننگر‘‘ نے اپنے کھلونا جہازوں کو بھی ٹھیک اسی جگہ سے توڑا تھا۔

بروس کے مطابق ایک رات جیمز نے اپنی ماں کو بتایا کہ ’’پچھلے جنم‘‘ میں اس کا باپ ایک شرابی شخص تھا اور جب میری عمر تیرہ سال تھی تو میرے شرابی باپ کو 6 ہفتوں کے لیے ایک بحالی مرکز میں بھی رکھا گیا تھا، جب کہ جیمز کو چار سال کی عمر میں دوسری جنگ عظیم میں استعمال ہونے والے جنگی جہازوں کے بارے میں اتنی وسیع معلومات تھیں جو شاید کسی چالیس سال کے شخص کو بھی نہیں ہوں گی۔ جیمز نے ہمیں بتایا تھا کہ کورسیئر (Corsairs) طیارے اپنے فلیٹ ٹائروں کی وجہ سے مشہور تھے۔

بروس کا کہنا ہے کہ جب میں جیمز کو لے کر ’’یو ایس ایس ناتوما بے‘‘ کے پروگرام میں جارہا تھا، تو ہوٹل کی راہداری میں ناتوما بے کے ایک سابق اہلکار بوب گرین والٹ نے جیمز کو روک کر پوچھا، ’’ کیا تم جانتے ہو میں کون ہو؟‘‘ یہ بات سن کر جیمز نے نہایت متانت سے جواب دیا،’’تم بوب گرین والٹ ‘‘ ہو۔ بوب کو پہچاننے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں جیمز نے کیا کہ میں نے اسے اس کی آواز سے پہچانا تھا۔ڈاکٹر ٹکر نے جیمز کی باتوں کی حقیقت جاننے کے لیے آنجہانی پائلٹ جیمز ہسٹن کی بہن سے بھی ملاقات کی جس نے چار سالہ جیمز کی بیان کی گئی تقریباً تمام باتوں کی ہی تصدیق کی۔

ڈاکٹر ٹکر کے مطابق جیمز کا کہنا ہے کہ اس نے اینڈریا اور بروس کو جزیرہ ہوائی کے Waikiki بیچ پر ڈنر کرتے دیکھ کر ہی انہیں والدین بنانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اس انکشاف نے جیمز کے والدین کو حیرت میں مبتلا کر رکھا ہے کیوں کہ جزیرہ ہوائی کا یہ رومانٹک ٹرپ انہوں شادی اور جیمز کی پیدائش سے قبل کیا تھا۔ڈاکٹر جم ٹکر کا کہنا ہے کہ بظاہر تو یہ بات بہت ہی عجیب لگتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس تحقیق کے سلسلے میں گذشتہ دس سالوں میں میں جتنے بھی بچوں سے ملا ان میں سے تقریباً سب بچوں نے ہی بولنا سیکھتے ہی اپنی پچھلی زندگی کے بارے میں انکشافات کرنا شروع کردیے تھے۔

کیا ہمارا شعوروقت اور کسی جگہ سفر کر سکتا ہے؟
ڈاکٹر جم ٹکر کا کہنا ہے کہ جہاں تک میں سمجھتا ہو ں روح کا نئے جسم میں جنم لینا ایک عجیب سی بات ہے، لیکن آئن انسٹائن اور اس جیسے کچھ سائنس دانوں نے شعور کے ماضی میں سفر کے حوالے سے کوانٹم میکینکس اور چاند سورج کی مدد سے کام کرنے کے میدان میں تحقیق کی ہے۔

ڈاکٹر جم کو یقین ہے کہ کوانٹم فزکس شعور کا مشاہدہ کرنے اور مادی واقعات کا تعین کرنے میں پیچیدہ ہوسکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ درحقیقت شعور کو دماغ اور ہمارے جسم کے دوسرے اعضاء سے علیحدہ رکھا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ شعور ہمارے جسم میں رہتا تو ہے، لیکن یہ وقت اور جگہ کے ساتھ سفر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک ٹیلی ویژن سیٹ لہروں کی شکل میں ٹی وی سگنل وصول کرکے اسے ڈی کوڈ کرتا ہے لیکن وہ سگنل تخلیق نہیں کرتا اور اسی طرح دماغ کو اپنے طور پر ظاہر کرنے کے لیے شعور کی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہ خود شعور کا حصہ نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔