سامراجی سرپرستی میں نئی مہم

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 7 ستمبر 2012
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

آج کل دانشورانہ حلقوں میں شدّت کے ساتھ یہ بات محسوس کی جا رہی ہے کہ بیسویں صدی کی چھٹی اور ساتویں دہائی میں سرمایہ دارانہ نظام کے منصوبہ سازوں کی طرف سے سوشلزم کے خلاف عالمی سطح پر جو مہم چلائی گئی تھی۔

اب وہ علامتوں اصطلاحوں کی تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ چلائی جا رہی ہے۔ بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں جب سوشلسٹ نظریہ تیزی سے پھیل رہا تھا اور دنیا کی آبادی کا 1/3 حصّہ سوشلسٹ معیشت کے زیر اثر آ گیا تھا تو سرمایہ دارانہ نظام کے منصوبہ سازوں پر یہ گھبراہٹ طاری ہو گئی کہ کہیں ساری دنیا سوشلسٹ نظام کے زیرِ اثر نہ آ جائے اور سرمایہ داری کا تیا پانچہ نہ ہو جائے۔ اس ممکنہ خطرے سے بچنے کے لیے مغربی پروپیگنڈا بازوں نے دو حوالوں سے دنیا کے غریب اور محکوم عوام کو بہکانا شروع کیا۔

جن ملکوں میں شرح تعلیم زیادہ تھی اور عوام نسبتاً باشعور تھے، ان ملکوں میں مغربی میڈیا اور کرایے کے دانشوروں کے ذریعے یہ پروپیگنڈا شروع کیا گیا کہ سوشلزم میں انسانی حقوق اور شہری آزادیاں ختم ہو جاتی ہیں اور پس ماندہ ملکوں میں خاص طور پر مسلم ملکوں میں یہ پروپیگنڈا سیلاب کی شکل میں پھیلایا گیا کہ سوشلزم ایک دین دشمن نظریہ ہے۔ اگر سوشلزم آ گیا تو انسانوں کی مذہبی آزادیاں چھین لی جائیں گی وغیرہ وغیرہ۔ سوشلزم نہ انسان کی حقیقی آزادیوں کے خلاف تھا نہ شہری آزادیوں کے خلاف نہ دین دھرم کا دشمن۔ سوشلزم ایک منصفانہ معاشی نظام تھا جو 2 اور 98 کی تقسیم کو روکتا تھا۔

اس پروپیگنڈے کے بعد امریکا نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو اپنے مقاصد کے لیے اس وقت استعمال کیا جب روس کی افغانستان میں آمد اس کے سیاسی اور اقتصادی مفادات کے لیے چیلنج بن گئی۔ ضیاء الحق جیسے آمر اور مذہبی اوتاروں کو اس عالمی بدمعاش نے افغانستان سے روس کو نکالنے کے لیے استعمال کیا۔ پاکستان کے دینی مدرسے مجاہدین کے تربیتی مراکز میں بدل گئے اور پاکستان کئی مسلم ملکوں کے مجاہدین کا مرکز بن گیا۔

پاکستان میں ڈالروں اور ہتھیاروں کے انبار لگا دیے گئے اور امریکی منصوبہ ساز اپنی فوج کے ایک سپاہی کے نقصان کے بغیر مسلم مجاہدین کی قربانیوں کے ذریعے روس کو افغان سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے اور پھر اس سازش کا تسلسل روس کی ٹوٹ پھوٹ اور سوشلسٹ بلاک کی پسپائی کی شکل میں دنیا کے سامنے آیا۔ اب اگرچہ سوشلزم اور روس کی پیش رفت کا خطرہ موجود نہیں لیکن امریکا آج کل جس دوسرے بڑے خطرے سے دوچار ہے، وہ ہے سرمایہ دارانہ معیشت کے لگاتار بحران اور دنیا بھر کے عوام کی سرمایہ دارانہ نظام سے بڑھتی ہوئی نفرت، جس کا ابتدائی مشاہدہ وال ااسٹریٹ تحریک اور 82 سے زیادہ ملکوں میں اس کے پھیلائو سے کیا جا سکتا ہے۔

عراق اور افغانستان پر قبضے کی وجہ سے جو کھربوں ڈالر کا اضافی بوجھ امریکی معیشت پر پڑ رہا ہے، اس سے امریکی معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی ہے۔ امریکی منصوبہ سازوں کے اعصاب پر یہ خوف سوار ہے کہ کہیں دنیا کے مایوس اور سرمایہ دارانہ استحصال سے متنفر عوام دوبارہ سوشلسٹ نظام کی طرف پلٹ نہ جائیں۔ یہی وہ خوف ہے جس نے امریکی منصوبہ سازوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ یہ بات اب یقینی ہوتی جا رہی ہے کہ دنیا اب سرمایہ دارانہ استحصال کو مزید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے کسی نہ کسی بہتر اور منصفانہ نظام کی طرف دنیا کو آنا ہی پڑے گا۔ فی الوقت ہم اس ممکنہ متبادل پر بات نہیں کریں گے لیکن اس سازش پر ضرور نظر ڈالیں گے جو ملک کے دانشورانہ حلقوں میں شدّت سے محسوس کی جا رہی ہے اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں دیکھی جا رہی ہے۔

جس شاطرانہ اور عیّارانہ مہم کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے، وہ ہے لبرل ازم، روشن خیالی اور سیکولر ازم کے خلاف تیزی کے ساتھ آگے بڑھتی ہوئی مہم جو اب ایک زبان سے کئی زبانوں تک ایک قلم سے کئی قلموں تک ایک چینل سے کئی چینلوں تک آ گئی ہے۔ ہو سکتا ہے اس مہم میں شامل لوگوں اور اداروں میں کچھ سادہ لوح لوگ بھی ہوں لیکن ان میں اکثریت ایسے اوتاروں کی نظر آ رہی ہے جو امریکی سرپرستی میں یہ مہم چلا رہے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس عوام دشمن مہم کو عوام میں پذیرائی دِلانے کے لیے اس پر مذہب کا مقدس غلاف چڑھایا جا رہا ہے۔

لاکھوں روپوں میں کھیلنے والے ان عاقبت نا ا ندیش مہم بازوں کا مقابلہ چند ہزار ماہانہ کمانے والے اہل دانش اہل قلم کر رہے ہیں۔ یہاں اس حوالے سے اس سازش کے اصل حصّے کی طرف توجہ مبذول کرنا ضروری ہے جسے امریکا اور سرمایہ دارانہ نظام کے منصوبہ ساز اسی طرح استعمال کرنا چاہتے ہیں، جس طرح انھوں نے روس کو افغانستان سے نکالنے کے لیے کیا تھا۔ امریکی ماہرین معاشیات جانتے ہیں کہ دنیا میں کوئی ایسا معاشی، سیاسی اور سماجی نظام موجود نہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کا ایک بہتر متبادل بن سکے، سوعوام کے ایک معقول حصّے کو ذہنی انتشار میں مبتلا کرنے کے لیے لبرل ازم، روشن خیالی اور سیکولر ازم کے خلاف گھٹیا زبان استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ شدّت پسندوں کی طرف سے اسلامی نظام کے نفاذ کا پروپیگنڈا کروا رہے ہیں۔

امریکی منصوبہ ساز اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ اپنے بے گناہ لاکھوں دینی بھائیوں اور ہم قوموں کو بارودی گاڑیوں اور خودکش حملوں کے ذریعے بہیمانہ طریقوں سے قتل کرنے والوں کی پٹاری میں کوئی ایسا نظام موجود نہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کا ایک ایسا بہتر متبادل بن سکے، جسے عوام قبول کریں اور وہ سرمایہ داری کے لیے خطرہ بن سکے۔ اس پس منظر میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ کیا روس کو افغانستان سے نکالنے والے شدّت پسند ایک بار پھر اپنی مرضی اور رضا سے امریکی مفادات کے آلۂ کار بن رہے ہیں؟

اب آئیے ذرا ان الزامات کی طرف جن کے حوالے سے یہ پروپیگنڈا مہم چلائی جا رہی ہے، پہلا شکار لبرل ازم، دوسرا ترقی پسندی، تیسرا سیکولر ازم، لبرل کی اصطلاح ان لوگوں پر استعمال کی جاتی ہے جو رجعت پسندی اور ترقی پسندی کے درمیان کھڑے ہوتے ہیں، یعنی اعتدال پسند، ان کا ایک پیر ماضی میں ہوتا ہے، دوسرا حال میں۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان کی وہ تمام جماعتیں جو مذہبی سیاست نہیں کرتیں وہ سب لبرل ہیں۔ اس کے بعد ترقی پسندی کی اصطلاح آتی ہے جس کی مختصراً تعریف ’’ماضی کے تجربات کی روشنی میں حال اور مستقبل کا تعیّن کرنا ہے۔‘‘

ترقی پسندی کا مطلب سائنسی فتوحات کو تسلیم کرنا زندگی کی حقیقتوں کا معروضی تجزیہ کر کے انھیں عوام کے بہتر مستقبل کے لیے استعمال کرنا ہے۔ کوئی ترقی پسند کسی نظریے کو نہ حرفِ آخر سمجھتا ہے نہ کسی نظریے کو ازلی ابدی سمجھتا ہے جب کہ رجعت پسند ماضی کو حال اور مستقبل پر بغیر اس کی افادیت کے مسلط کرنا اور اپنے نظریے کو حرفِ آخر اور ابدی گردانتا ہے۔ رجعت پسند اپنے نظریے کو بالاتر اور دوسروں کے نظریے کو بدتر سمجھتا ہے۔ آخری مسئلہ سیکولر ازم کا ہے۔

سیکولر ازم کا مقصد ہر مذہب کا احترام اور آزادی کے علاوہ مذہب کو سیاست کی گندگیوں سے دور رکھنا ہے۔ ہندوستان کی ہزار سالہ تاریخ میں سوائے اورنگ زیب کے باقی تمام مسلم حکومتیں سیکولر رہی ہیں۔ دنیا کے 57 مسلم ملکوں میں سے تقریباً 55 ملک اس اعتبار سے سیکولر ہیں کہ انھوں نے مذہب کو سیاست سے الگ رکھاہے۔ سیکولر انسان کسی حوالے سے مذہب مخالف نہیں ہوتا کیونکہ وہ ہر مذہب کا احترام کرتا ہے اور مذہبی آزادیوں کا حامی ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔