زیادہ قصور کس کا ہے؟

کلدیپ نائر  جمعرات 19 دسمبر 2013

پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے بار بار انڈیا سے کہا ہے کہ مذاکرات کو بحال کیا جانا چاہیے جو نومبر2008ء میں ممبئی پر دہشت گردی کے حملے کے بعد معطل ہو گئے تھے۔ ان کے بھائی شہباز شریف نے بھی، جو پاکستانی پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں، چند روز قبل بھارتی پنجاب کے دورے کے دوران انھی جذبات کا اظہار کیا۔ انھوں نے دونوں ملکوں کو تلقین کی کہ اپنے مسائل کے حل کے لیے ڈائیلاگ کریں کیونکہ اب جنگ خارج از امکان ہو چکی ہے۔بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے بھی کہا ہے کہ وہ ڈائیلاگ کے خلاف نہیں ہیں۔

لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ اضافہ کیا کہ مذاکرات کو بامقصد بنانے کی خاطر ماحول کو ساز گار بنایا جائے۔ غالباً ان کے ذہن میں بعض ایسے معاملات تھے جن کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں از سر نو کشیدگی در آئی ہے۔ایک تکلیف دہ مسئلہ تو ممبئی پر حملے کا ہے، اس حوالے سے پاکستان جس طرز عمل کا مظاہرہ ہو رہا ہے اور اس حملے کے ذمے داروں کو سزا نہیں دے رہا، اس سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ وہ محض وقت گزاری ہورہی ہے۔ عدالت انصاف میں جو مقدمہ ہے وہ پانچ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی ابتدائی مراحل میں ہی ہے۔ بہت سے جج جو اس مقدمے کی سماعت کر رہے تھے یا تو تبدیل کر دیے گئے یا انھیں رخصت پر بھیج دیا گیا۔میں چاہتا ہوں کہ پاکستان کے (سابق) چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، جنہوں نے ملک کے آئین کی بالادستی کے لیے نہایت شاندار کام کیا، چند روز قبل اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے اس معاملے کا سوموٹو نوٹس لیتے۔ بہت سے وکلا ممکن ہے اس تجویز کا مذاق اڑائیں مگر 26/11 کے ذمے داروں کو سزا دینا دونوں ملکوں کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے پیشگی شرط ہے۔حافظ سعید، جن کے بارے میں بھارت کو شبہ ہے کہ وہ ممبئی حملے کے ماسٹر مائنڈ تھے، انھیں پاکستانی عدالت نے ناکافی ثبوت کی بنا پر رہا کردیا تھا اور وہ اب بھی انڈیا کے خلاف جہاد پر زور دے رہے ہیں۔

یہ بات ممکن ہے مضحکہ خیز لگے لیکن ہماری طرف بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بھارت کے خلاف پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں انھی کا ہاتھ ہے۔ان چھوٹی موٹی وجوہات سے قطع نظر بھارت میں عام آدمی پاکستان کے بارے میں بڑے گرم جوش جذبات پائے جاتے ہیں۔ پاکستان سے واپس بھارت آنے والے پاکستان کی مہمان نوازی اور شفقت کی کہانیاں سناتے ہیں اور بھارت آنے والے پاکستانی بھی محبت اور خیرسگالی کی باتیں کرتے ہیں جو انھیں یہاں ملتی ہیں۔ لہٰذا کشیدگی کو دفن نہ کرنے کا الزام سیاستدانوں اور بیورو کریٹس پر آتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے فاصلے پر رکھنے میں ان لوگوں کا ذاتی مفاد وابستہ ہو چکا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ وہی سیاستدان اور بیورو کریٹ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ٹریک ٹو ڈائیلاگ میں شامل ہوتے ہیں۔اسی قسم کے ذہنی سوچ کا ایک بیورو کریٹ پریس والوں کو نواز شریف کے اس انتباہ پر بریفنگ دے رہا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ دونوں ملکوں میں چوتھی جنگ شروع کرا سکتا ہے، لیکن نواز شریف کے دفتر کی طرف سے فوراً ہی اس کی تردید کر دی گئی۔ تاہم اس سے جو نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ، جو بصورت دیگر ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں، انھوں نے بھی نہایت غیر ذمے دارانہ ردعمل کا اظہار کیا۔

انھوں نے کہا پاکستان ان کی زندگی میں بھارت کے خلاف جنگ نہیں جیت سکتا۔ میرا خیال ہے ان کے اس بیان کا مقصد آیندہ آنے والے پارلیمانی انتخابات کے حوالے سے اپنی ’’طاقت‘‘ کا اظہار کرنا تھا۔لیکن وزیر اعظم اور کانگریس پارٹی جس کی وہ نمایندگی کرتے ہیں، دونوں کو اس بات کا احساس نہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے بھی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی بند کر دی ہے کیونکہ انھوں نے دیکھ لیا ہے کہ بھارتی عوام اب اس کو پسند نہیں کرتے۔ کانگریس میں بعض افراد یا پارٹی سے باہر بھی کچھ لوگ ابھی تک تقسیم ہند کے زمانے کی بوجھل گٹھری اٹھائے پھرتے ہیں مگر پاکستان دشمنی کا ڈھونگ اب عوام میں مقبول نہیں رہا۔ پاکستان میں یہ غلط پراپیگنڈا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ بھارتی میڈیا پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دیتا ہے۔ مگر اس کے باوجود میری یہ خواہش ہے کہ بھارتی میڈیا میں پاکستان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ ذکر ہو۔ لیکن اس کے لیے دونوں ملکوں کی حکومتیں قصور وار ہیں۔ انھوں نے صرف ایک خبر رساں ایجنسی اور ایک ہی اخبار کو ویزے کی سہولت دے رکھی ہے۔ ایک ٹیلی ویژن ایسا ہے جو طبل جنگ بجاتا نظر آتا ہے لیکن بھارت میں تقریباً 300 چینل ہیں جو پاکستان کے بارے میں اسی طرح کی رپورٹنگ کرتے ہیں جس انداز کی وہ دیگر ممالک کے بارے میں کرتے ہیں۔یہاں سے اب ہمیں کس جانب جانا چاہیے۔ دونوں ممالک کو دہشتگردوں کے خلاف مل کر لڑنا چاہیے۔

نواز شریف ایک مخصوص تجویز پیش کی ہے کہ دونوں ملکوں کے قومی سلامتی کے مشیروں کو باقاعدگی کے ساتھ ملاقاتوں کے ذریعے دہشت گردی کے سدباب کے منصوبے تیار کرنے چاہئیں۔ بہر حال دونوں ممالک نے ڈائکٹرز جنرل آف ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم اوز) کی ملاقات کو طے کر لیا ہے تا کہ جموں کشمیر کی کنٹرول لائن کا احترام ملحوظ رکھا جا سکے۔ یہ درست سمت کی جانب پیشرفت ہے۔ لیکن اس مرحلے پر بھی سب سے اہم یہی بات ہے کہ دونوں ممالک میں ایک دوسرے پر اعتماد کس طرح بحال کیا جا سکے۔ نواز شریف نے درست کہا ہے کہ باہمی کھچائو کی بڑی وجہ دونوں ملکوں کے درمیان عدم اعتماد ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ بنیادی مسئلہ کشمیر کا ہے لیکن یہ فقط مرض کی علامت ہے بنفسہ مرض نہیں۔ اگر ہم مسئلہ کشمیر کو حل کر بھی لیں تو کوئی اور مسئلہ سر اٹھا لے گا کیونکہ اصل مسئلہ عدم اعتماد کا ہے۔ دونوں قومیں اس ہولناک تباہی سے پوری طرح آگاہ ہیں جو ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے نتیجے میں پیدا ہو سکتی ہے، جو دونوں ممالک کے پاس ہیں۔ لہٰذا انھیں اپنے اختلافات کو پرامن طور پر حل کرنا چاہیے۔ اس پالیسی کا آغاز 1965ء کی جنگ کے بعد تاشقند میں سمجھوتے کی صورت میں ہوا تھا۔

اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے پرامن بقائے باہمی پر اصرار کیا تھا اور اس وقت کے پاکستان کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب نے کہا تھا کہ اس معاملے کو اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق طے کیا جانا چاہیے۔ مشترکہ اعلامیہ میں بھی یہی الفاظ درج تھے۔ شاستری نے ایوب خان کو سمجھوتے میں یہ لکھنے کے لیے کہا کہ آیندہ ہتھیاروں کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔ اسلام آباد نے بیان جاری کیا ہے کہ کنٹرول لائن کے احترام کی ذمے داری دونوں حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔ نئی دہلی نے اس حوالے سے کہا ہے کہ کنٹرول لائن کا احترام فوجی معاملہ ہے سیاسی نہیں۔ اگر یہ جواب پاکستان سے آیا ہوتا، جہاں پر فوج کا عمل دخل غالب ہے تو بات سمجھ میں آ سکتی تھی لیکن جمہوریت کا دعویدار بھارت یہ بات کس طرح کہہ سکتا ہے کہ اس معاملے کا فیصلہ فوج کرے گی۔کنٹرول لائن کا تعین شملہ میں وزیر اعظم اندرا گاندھی اور ذوالفقار علی بھٹو کے مابین ملاقات میں کیا گیا تھا۔ آرمی کمانڈروں نے صرف زمین پر وہ لائن لگائی تھی جس کا ذکر سمجھوتے میں دونوں سیاسی لیڈروں نے کیا تھا۔ نئی دہلی کو اپنے رویّے کا از سرنو جائزہ لینا چاہیے تا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات معمول پر آ سکیں۔ یہی موجودہ صورتحال کا تقاضہ ہے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔