بے حساب

جاوید چوہدری  اتوار 22 دسمبر 2013
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

وہ بازار سے گزر رہے تھے‘ مولوی صاحب کے سامنے کریانے کی دکان تھی‘ ایک درمیانی عمر کی خاتون دکان پر کھڑی تھی‘ دکاندار وارفتگی کے عالم میں خاتون کو دیکھ رہا تھا‘ وہ جس جنس کی طرف اشارہ کرتی تھی‘ دکاندار ہاتھ سے اس بوری سے وہ جنس نکالنے لگتا تھا‘ وہ اس وقت تک وہ جنس تھیلے میں ڈالتا جاتا تھا جب تک خاتون کی انگلی کسی دوسری بوری کی طرف نہیں جاتی تھی‘ دکاندار دوسری بوری سے بھی اندھا دھند جنس نکالنے لگتا تھا‘ یہ عجیب منظر تھا‘ دکاندار وارفتگی کے ساتھ گاہک کو دیکھ رہا تھا‘ گاہک انگلی کے اشارے سے دکاندار کو پوری دکان میں گھما رہا تھا اور دکاندار الہ دین کے جن کی طرح چپ چاپ اس کے حکم پر عمل کر رہا تھا‘ خاتون نے آخر میں لمبی سانس لی اور دکاندار کو حکم دیا‘ ’’چلو بس کرو‘ آج کی خریداری مکمل ہو گئی‘‘ دکاندار نے چھوٹی چھوٹی تھیلیوں کے منہ بند کیے‘ یہ تھیلیاں بڑی بوری میں ڈالیں‘ بوری کندھے پر رکھی اور خاتون سے کہا ’’ چلو زبیدہ میں سودا تمہارے گھر چھوڑ آتا ہوں‘‘ خاتون نے نخوت سے گردن ہلائی اور پوچھا ’’ حساب کتنا ہوا‘‘ دکاندار نے جواب دیا ’’ زبیدہ عشق میں حساب نہیں ہوتا‘‘ خاتون نے غصے سے اس کی طرف دیکھا‘ مڑی اور گھر کی طرف چل پڑی۔

دکاندار بھی بوری اٹھا کر چپ چاپ اس کے پیچھے چل پڑا‘ مولوی صاحب یہ منظر دیکھتے رہے‘ دکاندار خاتون کے ساتھ چلا گیاتو مولوی صاحب دکان کے تھڑے پر بیٹھ گئے‘ شاگرد گلی میں کھڑے ہو گئے‘ دکاندار تھوڑی دیر بعد واپس آ گیا‘ مولوی صاحب نے دکاندار کو قریب بلایا اور اس سے پوچھا ’’ یہ خاتون کون تھی‘‘ دکاندار نے ادب سے ہاتھ چومے اور عرض کیا ’’ جناب یہ فلاں امیر خاندان کی نوکرانی ہے‘‘ مولوی صاحب نے پوچھا ’’ تم نے اسے بغیر تولے سامان باندھ دیا‘ پھر اس سے رقم بھی نہیں لی‘ کیوں؟‘‘ دکاندار نے عرض کیا ’’ مولوی صاحب میں اس کا عاشق ہوں اور انسان جب کسی کے عشق میں مبتلا ہوتا ہے تو پھر یہ اس سے حساب نہیں کر سکتا‘‘ دکاندار کی بات سیدھی مولوی صاحب کے دل پر لگی‘ وہ چکرائے اور بے ہوش ہو کر گر گئے۔

شاگرد دوڑے‘ مولوی صاحب کو اٹھایا‘ ان کے چہرے پر عرق گلاب چھڑکا‘ ان کی ہتھیلیاں اور پاؤں رگڑے ‘ مولوی صاحب نے بڑی مشکل سے آنکھ کھولی‘ دکاندار گھبرایا ہوا تھا‘ وہ مولوی صاحب پر جھکا اور ادب سے عرض کیا ’’ جناب اگر مجھ سے غلطی ہو گئی ہو تو میں معافی چاہتا ہوں‘‘ مولوی صاحب نے فرمایا ’’ تم میرے محسن ہو‘ تم میرے مرشد ہو کیونکہ تم نے مجھے زندگی میں عشق کا سب سے بڑا سبق دیا‘‘ دکاندار نے حیرت سے پوچھا ’’جناب وہ کیسے؟‘‘ مولوی صاحب نے فرمایا ’’ میں نے جانا‘ تم عورت کے عشق میں مبتلا ہو کر حساب سے بے گانے ہو جب کہ میں اللہ کی تسبیح بھی گن کر کرتا ہوں‘ میں نفل بھی گن کر پڑھتا ہوں اور قرآن مجید کی تلاوت بھی اوراق گن کر کرتا ہوں لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ سے عشق کا دعویٰ کرتا ہوں‘ تم کتنے سچے اور میں کس قدر جھوٹا عاشق ہوں‘‘ مولوی صاحب وہاں سے اٹھے‘ اپنی درگاہ پر واپس آئے اور پھر اپنے مرشد حضرت شمس تبریز کے ساتھ مل کر عشق کے چالیس اصول لکھے‘ ان اصولوں میں ایک اصول بے حساب اطاعت بھی تھا‘ یہ مولوی صاحب مولانا روم تھے‘ یہ پوری زندگی اپنے مریدوں کو بتاتے رہے‘ اللہ تعالیٰ نے ہمیں نعمتیں دیتے ہوئے حساب نہیں کیا چنانچہ تم بھی اس کا شکر ادا کرتے ہوئے حساب نہ کیا کرو‘ اپنی ہر سانس کی تار اللہ کے شکر سے جوڑ دو‘ اس کا ذکر کرتے وقت کبھی حساب نہ کرو‘ یہ بھی تم سے حساب نہیں مانگے گا اور یہ کل عشق الٰہی ہے۔

ملتان میں ہمارے ایک بزرگ ہیں شیخ صاحب‘ یہ زندگی کا بڑا حصہ مدینہ منورہ میں گزار کر ملتان تشریف لائے‘شیخ صاحب کے مریدین کی تعداد لاکھوں میں ہے‘ یہ مجھ پر خصوصی مہربانی فرماتے ہیں‘ میں ان کے فرمان پر ان سے ملاقات کے لیے ملتان بھی گیا‘ شیخ صاحب نے خصوصی مہربانی فرمائی‘ میری ان سے تفصیلی ملاقات ہوئی‘ مجھے اس کے بعد شیخ صاحب کے پیغامات ملتے رہتے ہیں‘ یہ اپنے خصوصی مریدین کو بھی میرے پاس اسلام آباد بھجواتے رہتے ہیں اور یہ اپنے پیغامات بھی ریکارڈ کر کے مجھے ای میل کرا دیتے ہیں‘ میں نے ان کے پیغامات سے بہت کچھ سیکھا‘ عشق رسولؐ شیخ صاحب کا خصوصی روحانی فلسفہ ہے‘ یہ سمجھتے ہیں ہم نے اگر عشق رسولؐ کی معراج پا  لی تو ہماری دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیںگی‘ میں شیخ صاحب سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کائنات کا سب سے بڑا سچ ہے‘ یہ ہمارا خالق بھی ہے اور روز قیامت کا مالک بھی۔

آپ خودفیصلہ کیجیے‘ دنیا کی یہ سب سے بڑی سچائی‘ سب سے بڑا خالق اور سب سے بڑا مالک جس ہستی کو اپنا محبوب کہتا ہو وہ ہستی کتنی بڑی ہو گی اور ہم اگر خالق کے محبوب سے عشق کریں گے تو ہمارا خالق ہم سے کتنا خوش‘ ہم سے کتنا راضی ہو گا؟ میں شیخ صاحب کے فلسفے سے اتفاق کرتا ہوں‘ میں مولانا روم کے عشق کے چالیس اصولوں کو بھی روحانی حقیقت مانتا ہوں لیکن اس کے باوجود میرے دل میں کبھی کبھی عجیب گمان اٹھتے ہیں‘ میرا دنیاداری میں الجھا ہوا دماغ انتہائی نامعقول سوال اٹھاتا ہے اور میں کئی کئی دنوں تک ان سوالوں کی کرچیاں چنتا رہتا ہوں‘مثلاً میرا دنیاوی ذہن اکثر پوچھتا ہے‘ یہ دنیا اگر بری ہے‘ یہ اگر گھٹیا جگہ ہے اور یہ اگر مصیبتوں کا گھر ہے تو پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی سب سے اچھی مخلوق یعنی انسان کو اس گھٹیا اور بری جگہ کیوں بھجوایا‘ ہو سکتا ہے ہم گناہ گاروں کے لیے یہی جگہ مناسب ہو لیکن اللہ تعالیٰ کے نبی‘ اللہ تعالیٰ کے رسول اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے محبوبؐ تو عظیم ہستیاں ہیں‘ اللہ تعالیٰ ان کی عظمت‘ ان کے تقدس کی قسمیں کھاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے ان ہستیوں کو مصیبت‘ آزار‘ خرابی اور غلطیوں سے لتھڑی اس زمین پر کیوں بھجوادیا؟ یہ ہستیاں اس زمین اور ہم جیسے چھوٹے اور ناقص ایمان والے انسانوں کو ’’ڈیزرو‘‘ نہیں کرتی تھیں اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان ہستیوں کو اس زمین پر بھی اتارااور ساتھ ہی انھیں ہم عام انسانوں کے تقاضوں کا پابند بھی بنا دیا۔

وہ بھی پانی پیتے تھے‘ کھانا کھاتے تھے‘ کپڑے اور سائبان ان کی بھی ضرورت تھے‘ وہ بھی خانگی زندگی گزارتے تھے‘ وہ بھی کھیتی باڑی‘ تجارت اور گلہ بانی کرتے تھے‘ وہ بھی اپنوں کے ہاتھوں تکلیف اٹھاتے تھے‘ وہ بھی نقل مکانی اور ہجرت کرتے تھے اور وہ بھی اپنا اور اپنے لوگوں کا حق لینے کے لیے لڑتے تھے‘ ان کی رگوں میں بھی لہو دوڑتا تھا‘ وہ بھی سانس لیتے تھے‘ وہ بھی بیمار ہوتے تھے‘ وہ بھی زخم کھاتے تھے‘ وہ بھی گھبرا کر اللہ سے مدد مانگتے تھے اور تکلیف انھیں بھی تکلیف دیتی تھی‘ یہ دنیا ان میں اور ہم میں دونوں میں کامن ہے‘ ہم میں اور ان میں زندگی کے تقاضے بھی مشترک ہیں‘ وہ بھی آئے اور چلے گئے‘ ہم بھی آئے اور چلے جائیں گے ‘ میرا ناقص دماغ اکثر سوچتا ہے‘ یہ دنیا اگر واقعی بری جگہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ کبھی اپنے محبوب کو اتنی بری جگہ نہ بھجواتا اور اگر زندگی کے تقاضے بھی غلط اور برے ہوتے تو دنیا کا کوئی نبی گھر نہ بناتا‘ وہ شادی نہ کرتا‘ وہ صاحب اولاد نہ ہوتا‘ وہ بھیڑ‘ بکریاں اور اونٹ نہ پالتا‘ وہ تجارت نہ کرتا‘ وہ جنگ نہ لڑتا اور وہ کسی انسان کے پاس ملازمت اختیار نہ کرتا مگر یہ وہ تمام دنیاوی معاملات ہیں جنھیں دنیا کے تقریباً تمام انبیاء کرام نے نبھایا اور دنیا کے تمام غوث‘ قطب‘ ابدال اور اولیاء کرام نبھا رہے ہیں‘ دنیا بری نہیں‘ اس دنیا کے تقاضے اور معاملات بھی برے نہیں ہو سکتے‘ یہ برے ہوتے تو اللہ تعالیٰ کبھی اپنی اشرف ترین مخلوق کو اس دنیا میں بھجواتا اور نہ ہی اپنے محبوب ترین نبیوں کو اس زمین‘ اس دنیا میں اتارتا مگر سوال یہ ہے پھر ایشو کیا ہے؟ ایشو صرف عشق ہے۔

اللہ تعالیٰ کے نبی اللہ تعالیٰ کے عشق کے سفیر تھے‘ یہ عام لوگوں اور اللہ تعالیٰ کے درمیان عشق کی سفارت فرماتے تھے‘ یہ ہمیں یہ بتانے کے لیے زمین پر آتے رہے تم دنیا کے سارے تقاضے پورے کرو‘ عام انسانوں کی طرح عام زندگی گزارو‘ ٹھنڈے پانی کی ٹھنڈک سے بھی لطف لو اور جنس مخالف کی قربت سے بھی لذت اٹھاؤ لیکن ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کو بھی یاد رکھو کیونکہ اللہ کی یہ یاد‘ اللہ سے یہ عشق تمہارا وہ اثاثہ ہو گا جسے تم باندھ کر واپس اللہ کے پاس جاؤ گے‘ یہ پیغام دینے کے لیے اللہ تعالیٰ کے نبی زمین پر آتے رہے اور ہم عام انسانوں کے درمیان رہ کر‘ عام لوگوں جیسی زندگی گزار کر اللہ تعالیٰ کی سفارت کرتے رہے مگر ہم نے پیغام کو چھوڑ کر ان کے بشری تقاضوں کو سنت بنا دیا‘ ہم نے عشق کی بجائے محبوب کے لباس کو اپنا لیا‘ نبی اکرمؐ کی سب سے بڑی سنت اللہ تعالیٰ سے عشق ہے‘ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر ہے‘ اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے‘ اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی آزمائشوں پر صبر ہے اور ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ کا بے حساب ذکر ہے مگر ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کا بے حساب ذکر کرتے ہیں‘ دنیا کی آزمائشوں پر صبر کرتے ہیں‘ اطاعت اور فرمابرداری کو معمول بناتے ہیں‘ ہر سانس کے بعد اللہ کا شکر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے اتنا عشق کرتے ہیں جتنا مولانا روم کا وہ دکاندار قونیہ کی اس فانی خاتون سے کرتا تھا‘ ہم زندگی میں داڑھی‘ مسواک اور تسبیح تک کا حساب رکھتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سے توقع کرتے ہیں‘ یہ ہمارے معاملے میں بے حساب ہو جائے گا‘ ہم اللہ تعالیٰ کے بندوں کو ان کے حلیوں کی بنیاد پر اچھا یا برا سمجھتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سے توقع رکھتے ہیں‘ یہ ہمارے عیب چھپائے رکھے گا‘ آپ حساب کر رہے ہیں تو آپ کے ساتھ بھی حساب ہو گا‘ آپ بے حساب ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی بے حساب ہو گا‘ اللہ اور اس کے رسولؐ کے عاشق ہیں تو پھر بے حساب ہو جائیں‘ آپ کو بے حساب صلہ ملے گا ‘ بے حساب کرم اور رحمتیں ملیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔