ایک سڑک کی کہانی

امجد اسلام امجد  اتوار 22 دسمبر 2013
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

کوئی بیس برس پہلے میں نے ’’اسلام آباد کی ایک سڑک‘‘ کے حوالے سے ایک نظم لکھی تھی جس کا آخری شعر کچھ اس طرح سے تھا کہ

یہاں زمیں کا سرا آسماں سے ملتا ہے
سوائے خیر کے سب کچھ یہاں سے ملتا ہے

حیرت کی بات ہے کہ اتنے واضح اشاروں کے باوجود کئی احباب نے مختلف اوقات میں مجھ سے اس سڑک کا نام اور محل وقوع دریافت کیا اس خیال سے کہ شاید اب بھی کچھ دوست اشتباہ کی حالت میں ہوں عرض کرتا چلوں کہ یہ وہی مرکزی سڑک ہے جس کا نام کانسٹی ٹیوشن ایوینیو ہے اور جس کے دونوں طرف وہ عمارتیں ہیں جن میں صاحبان اقتدار بیٹھ کر اس ملک کے غریبوں کی قسمت سے سانپ اور سیڑھی والی لوڈو کھیلتے رہے ہیں۔

سڑک کا ذکر چلا ہے تو ایک اور شعر بھی یاد آ رہا ہے۔
بھٹکنے والوں کو کیا فرق اس سے پڑتا ہے
سفر میں کون سڑک‘ کس طرف کو جاتی ہے!

اتفاق سے آج جس سڑک کے حوالے سے میں بات کرنا چاہ رہا ہوں اس کا تعلق بھی اسلام آباد ہی سے ہے اور اس احوال میں تجربہ‘ مشاہدہ اور تقاضا تینوں ہی شامل ہیں تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ چند برس قبل تک اسلام آباد ایئر پورٹ سے شہر کی طرف جانے والی سڑک دو رویہ ہوا کرتی تھی اگرچہ ان دنوں ٹریفک کا دباؤ بہت زیادہ نہیں تھا اس کے باوجود کسی VIP Movement کی صورت میں اسے روک دیا جاتا تھا اور لوگوں کو تقریباً آدھ گھنٹہ سڑک کھلنے کا انتظار کرنا پڑتا تھا جب کہ ٹریفک کو معمول پر آنے میں مزید پندرہ بیس منٹ لگ جاتے تھے۔

حاکمان شہر نے اس صورت حال کی وجوہات اور ان کے حل پر غور تو کیا مگر ان کے پیش نظر صرف اسلام آباد کی بڑھتی ہوئی آبادی‘ نئے سیکٹر‘ اپنی گاڑیوں پر سفر کرنے والے مسافر اور ایئر پورٹ تک جانے والی سڑک ہی رہے اور کسی نے یہ نہیں سوچا کہ روات سے ایئر پورٹ چوک اور اس کے بعد شہر میں داخل ہونے والی طرح طرح کی ٹریفک بالخصوص سامان اور خوراک لے جانے والے ٹرک اور ٹرالر بھی اسی سڑک کو استعمال کرتے ہیں اور پشاور اور خیبر پختونخوا کی طرف جانے والے راستے کے لیے بھی یہی سڑک استعمال کی جاتی ہے کہ نہ تو اسلام آباد کو اور نہ ہی راولپنڈی کو کوئی By pass یا Ring Road فراہم کیے گئے ہیں تا کہ شہر سے غیر متعلق ٹریفک اس میں داخل ہوئے بغیر باہر باہر ہی سے اپنا راستہ لے لے اب ہوا یوں کہ زیرو پوائنٹ سے ایر پورٹ چوک تک تو سڑک کو وسیع کر کے پانچ رویہ کر دیا گیا جسے اسلام آباد ایکسپریس وے کا نام دیا گیا اس سے صورت حال میں قدرے بہتری تو پیدا ہو گئی مگر وی آئی پی نقل و حرکت میں اضافے کے باعث اس سڑک پر سفر کرنے والوں کے مسائل میں کوئی خاص کمی واقع نہ ہو سکی کہ اب غیر ملکی مہمانوں کے ساتھ ساتھ نئے لوکل وی آئی پیز کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے یہ اور بات ہے کہ ان وی آئی پیز میں سے بیشتر اپنے استحقاق سے کہیں زیادہ پروٹوکول کے دعویدار ہیں اور بقول شخصے ہمیں ایر پورٹس کے وی آئی لاؤنج بڑا کرنے کی اتنی ضرورت نہیں جتنا کہ انھیں استعمال کرنے والے لوگوں کا قد بڑھانے کی ہے۔

خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا اصل مسئلہ یہ ہے کہ زیرو پوائنٹ سے ائیر پورٹ چوک تک تو سڑک وسیع ہو گئی لیکن جی ٹی روڈ پر روات موڑ سے لے کر ایئر پورٹ چوک تک آنے والی سڑک بدستور تنگ اور دو رویہ ہی رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں طرف سے سڑک کی کشادگی میں موجود اس واضح فرق کی وجہ سے ٹریفک کا دباؤ بے ترتیب بھی ہو گیا اور بے قابو بھی کہ سڑک کے اس ٹکڑے کے ارد گرد گزشتہ کچھ عرصے میں کئی نئی رہائشی کالونیاں DHA)۔بحریہ ٹاؤنPWD وغیرہ) آباد ہو گئی ہیں اس کے ساتھ خیبرپختونخوا کے راستے افغانستان کی طرف جانے والے ٹرکوں اور ٹرالروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے جب کہ دوسری طرف وی آئی پی موومنٹ کے ساتھ ساتھ ہڑتالوں‘ دھرنوں اور احتجاجی جلوسوں کا اثر بھی اس علاقے میں بہت بڑھ گیا ہے نتیجہ یہ ہے کہ اسکولوں اور دفاتر کے اوقات کے درمیان پیدا ہونے والے ٹریفک جام اب سارے دن پر پھیل گئے ہیں اور عام طور پر دس پندرہ منٹ کا سفر ایک گھنٹے سے بھی زیادہ وقت لینے لگا ہے۔

جس سے بالخصوص بچے اور ان کے والدین بری طرح متاثر ہو رہے ہیں گزشتہ دنوں راولپنڈی میں ہونے والے ہنگاموں کی وجہ سے شہر کی ٹریفک تو چند گھنٹوں میں بحال ہو گئی مگر روات سے اسلام آباد ایر پورٹ چوک تک ٹرکوں کی آمد و رفت کو اتنے زیادہ عرصے کے لیے روکا گیا کہ ان کی قطار کئی میل تک پھیل گئی اندریں حالات بے حد ضروری ہو گیا ہے کہ اس صورت حال کے سدباب کے لیے کچھ ایسے اقدامات کیے جائیں جن کی پلاننگ موجودہ کے ساتھ ساتھ ساتھ مستقبل کے ممکنہ مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے کی جائے اور Short term یعنی ڈنگ ٹپاؤ سوچ کے بجائے اس کا کوئی مستقل حل نکالا جائے متعلقہ اور متاثرہ لوگوں سے گفتگو کے بعد جو تجاویز متفقہ طور پر سامنے آئی ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہیں۔

-1 فیض آباد سے روات موڑ تک سڑک کو بقیہ ایکسپریس وے کی طرح پانچ رویہ کیا جائے تا کہ ٹریفک کی روانی (Flow ) ِبرقرار رہ سکے۔-2 فیض آباد سے ایئر پورٹ تک کے تینوں ٹریفک سگنلز کی جگہ انڈر پاس تعمیر کیے جائیں جو آج کل بہت کم وقت میں تیار ہو جاتے ہیں۔-3 سڑک کے درمیان موٹروے کی طرح حفاظتی دیوار تعمیر کی جائے تا کہ حادثات کی روک تھام ہو سکے۔-4 Over head Bridges کی تعداد میں میں اضافہ کیا جائے۔-5 بھاری ٹریفک کے لیے رات 10 بجے سے صبح 5 بجے تک کا وقت مخصوص کیا جائے اور تیز رفتاری پر موٹروے کی طرح فوری اور بھاری جرمانے عائد کیے جائیں۔-6 فیض آباد سے روات تک تمام سڑک سگنل فری کی جائے۔-7آگے چل کر اسلام آباد اور راولپنڈی کے گرد Ring Road بنائی جائے تا کہ اس مسئلے کا مستقل حل نکل سکے۔ایک شعر ہے

گھٹی دلوں کی محبت تو شہر بڑھنے لگا
مٹے جو گھر تو ہویدا ہوئے مکاں‘ کیا کیا

لیکن جہاں تک اس سڑک اور اس طرح کی دوسری مسائل زدہ سڑکوں کا معاملہ ہے تو ان کا تعلق ہماری اجتماعی نفسیات سے زیادہ مسائل کے عملی حل سے ہے کہ مناسب وقت پر کیے ہوئے صحیح فیصلے ہی قوموں اور معاشروں کو اندر اور باہر دونوں طرف سے مضبوط اور متحرک رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔