چند نشریاتی زنخوں کی مردانگی

وسعت اللہ خان  پير 23 دسمبر 2013

گذشتہ ہفتے ایک ٹی وی چینل پر سماجی برائیوں کو بے نقاب کرنے کے نام پر ایک پروگرام دیکھ کے دل اور دماغ شاد باد ہوگیا۔چینل کی چھاپہ مار ٹیم نے پاکستانی معاشرے کے سب سے کمزور ، استحصال زدہ اور اسفل ترین سمجھے جانے والے طبقے یعنی خواجہ سراؤں اور ان کے ہمراہ رہنے والے لڑکوں پر اپنی مردانگی نکالی تاکہ چھت پھاڑ ریٹنگ مل سکے۔

اب تک مجھے زعم تھا کہ تاریخ ، جغرافیے اور سماجی و طبقاتی و نفسیاتی مسائل سے واجبی سا واقف ہوں۔لیکن اس پروگرام نے مجھے اپنی ذاتی جہالت کا بھرپور احساس دلانے میں خاصی مدد دی۔مثلاً یہ معلوم ہوا کہ ہم جنس پرستی کو یہود و نصاریٰ نے ایک سازش کے تحت مسلمانوں سے متعارف کرایا اور یہ کہ یہود و نصاریٰ کا تعلق لوط علیہ سلام کی قوم سے ہے۔(اب تک میرا خیال تھا کہ یہود حضرت موسیٰ علیہ السلام اور عیسائی حضرت عیسی علیہ السلام کی امت ہیں)۔

مجھے اس پروگرام کی مدد سے یہ بھی پتہ چلا کہ ایڈز کی بیماری ہم جنس پرستوں کو ہی ہوتی ہے۔اب تک میرا خیال تھا کہ ایچ آئی وی سے متاثرہ شخص کا خون اگر کسی گھریلو عورت یا چار سال کے بچے کو بھی بغیر اسکریننگ کے چڑھا دیا جائے تو وہ بھی ایڈز میں مبتلا ہوسکتے ہیں اور اس دنیا میں لاکھوں مرد ، عورتیں اور بچے ہیں جو ہم جنس پرستی میں مبتلا ہوئے بغیر ایڈز میں مبتلا ہوگئے۔اس پروگرام نے یہ بھی بتایا کہ ہیپاٹائٹس بھی ہم جنس پرستی کا شاخسانہ ہے۔اس طبی انکشاف کے بعد میرا تو ہر ایک کو یہی دردمندانہ مشورہ ہے کہ جو جو بھی ہیپاٹائٹس کا شکار ہے وہ سچی سچی یاد کرے کہ اسے دراصل یہ بیماری کس سے اور کن حالات میں لگی اور پھر گڑ گڑا کے اپنے کردہ ناکردہ گناہوں کی معافی مانگے۔البتہ پروگرام کی میزبان نے یہ نہیں بتایا کہ ہیپاٹائٹس کی تمام اقسام ہم جنس پرستی کا شاخسانہ ہیں یا کوئی ایک آدھ قسم بغیر ہم جنسی کے بھی لگ سکتی ہے ؟ ویسے پاکستان میں لگ بھگ بیس فیصد آبادی ہیپاٹائٹس کی کسی نا کسی قسم کے نرغے میں ہے۔ تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ مذکورہ پروگرام کی تحقیقی روشنی میں ایڈز سے متاثر پچاس ہزار سے زائد مریضوں کے علاوہ پاکستان کی بیس فیصد آبادی ہم جنس پرستی کی زد میں ہے ؟ اور بقول میزبان یہ دونوں بیماریاں بھی ایک بین القوامی سازش کے تحت پاکستان میں پھیلائی جارہی ہیں

( شائد اسی لیے اس سازش کا دندان شکن جواب پاکستان سے پولیو ایکسپورٹ کرکے دیاجارہا ہے )۔۔۔۔

معروف سماجی کارکن انصار برنی کی انسانی خدمات کا میں شروع سے معترف ہوں لیکن اس پروگرام میں ان کی زبان سے یہ سن کے تو میں ان کا پورا پورا مرید ہوگیا کہ یہ جو شام گئے اہم شاہراہوں کے کنارے اور ناکوں پر خواجہ سرا اور زنخے گاہک کی تلاش میں منڈلاتے رہتے ہیں کہیں یہ غیرملکی ایجنٹ نا ہوں جو ہماری نقل و حرکت پر نگاہ رکھ رہے ہوں اور اہم خبریں دہشت گردوں تک پہنچا رہے ہوں ؟

پروگرام کی میزبان سڑک کے کنارے ٹہلنے والے خواجہ سراؤں کے روپ میں گھومنے والے مردوں کو پکڑ پکڑ کے پوچھ رہی تھیں تم مرد ہو کہ خواجہ سرا ؟ جب وہ کہتا تھا کہ خواجہ سرا تو میزبان کہتی تھیں تم جھوٹ بول رہے ہو ؟ ( معلوم نہیں انھیں کیسے اندازہ ہوجاتا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے ؟؟)۔ ایک انکشاف انھوں نے یہ بھی کیا کہ کوئی بھی ان لوگوں کا حلیہ اور چال ڈھال دیکھ کے بتا سکتا ہے کہ یہ گے ( ہم جنس پرست ) ہیں یا نہیں۔میزبان محترمہ پورے پروگرام میں یہ طے نہیں کرپائیں کہ وہ کسے گے سمجھیں اور کسے خواجہ سرا کہیں۔۔البتہ وہ یہ پروگرام کس قدر پیشہ ورانہ ذمے داری ، غیرجانبداری اور آگہی کے جذبے سے کررہی تھیں اس کا اندازہ ان کے سوالات سے بخوبی ٹپک رہا تھا۔ مثلاً تم نے اپنے منہ پر یہ لعنت کب سے ملی ہوئی ہے ؟ جن کے ساتھ تم جاتے ہو وہ کتنے بے غیرت ہیں ؟ اچھا یہ بتاؤ مرد اور مرد کے تعلق میں کیا مزا ہے ؟

ایک کچی بستی میں یہ محترمہ کیمرہ کریو اور پولیس سمیت رات تین بجے ایک دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے ناظرین کو بتانے لگیں کہ ’’ اب تک تو جو اندر ہیں انھوں نے کپڑے پہن لیے ہوں گے۔یو نو وٹ آئی مین‘‘۔گھر کا دروازہ کھلتے ہی محترمہ کا ہکا بکا مکینوں سے پہلا سوال تھا کہ سچ سچ بتائیں آپ میں سے مرد کون ہے اور ہیجڑہ کون کون ؟ اگر مرد ہیں تو پھر کارروائی ہوگی اور اگر ہیجڑے ہیں تو ہم معذرت کرکے چلے جائیں گے۔انھوں نے الماریاں کھول کے فوٹو البم نکال لیے اور دیوار پر دو علیحدہ علیحدہ لوگوں کی لگی ہوئی تصاویر کی بنیاد پر یہ فیصلہ بھی سنایا کہ یہ دراصل دونوں مرد ہیں جنہوں نے آپس میں شادی کی ہوئی ہے۔محترمہ ناظرین سے یہ بھی کہہ رہی تھیں کہ مجھے دراصل آپ کو یہ سمجھانا ہے کہ عقل کے ناخن کیا ہوتے ہیں ؟

اسی بستی میں ایک اور گھر میں کودا گیا۔وہاں ایک خواجہ سرا اور ایک نفسیاتی مریض رہ رہے تھے۔انھوں نے اس ڈاکٹر کا نام بھی بتایا جس کے وہ زیرِ علاج تھے۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ انھیں گھر والوں نے نکال دیا ہے اور یہ خواجہ سرا ان کا دوست ہے اور اس نے انھیں اپنے گھر میں دو سال سے رکھا ہوا ہے۔لیکن محترمہ میزبان نے اعلان کیا کہ دراصل یہ نفسیاتی مریض ہونے کا ڈرامہ کررہا ہے، اصل میں یہ خواجہ سرا کا بوائے فرینڈ ہے۔

بعد ازاں علاقے کے ایس ایچ او صاحب ان سب گھروں سے پکڑے گئے آنکھیں ملتے ’’ ملزموں ’’ کو جانے کن کن قانونی دفعات کے تحت یا بغیر پولیس وین میں بٹھا کر تھانے لے آئے۔کیمرے نے ملزموں پر ایس ایچ او کی لعنت ملامت ریکارڈ کی ’’ یہ سب خبیث انسان ہیں، ان کی روح ہی ایسی ہے وغیرہ وغیرہ‘‘۔اس کے بعد پولیس والے ان ’’خبیث انسانوں ‘‘کو مارتے ہوئے کمرے سے باہر لے گئے۔معصوم ایس ایچ او نے چینل کی ٹیم کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے اس علاقے میں اتنی ’’ گھناؤنی برائی’’ کی نشاندہی کی اور انشااللہ اب ہم اس علاقے سے ان برائیوں کا صفایا کردیں گے۔پروگرام کی میزبان نے ایس ایچ او صاحب کا شکریہ ادا کیا کہ آپ کی مدد کے بغیر ہم اس گھناؤنے کام کے کرداروں کی رپورٹنگ کر ہی نہیں سکتے تھے۔

مجھے یہ تو علم نہیں کہ اس پروگرام میں اصلی کردار کتنے تھے اور ایکٹر کتنے۔لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ جب ایک خواجہ سرا یا لڑکا کہہ رہا تھا کہ معاشرہ ہمیں انسان ہی نہیں سمجھتا تو یہ بات پوری سننے سے میزبان کو دلچسپی کیوں نہیں تھی۔یا جب ایک کردار نے کہا کہ میرا رجحان بچپن سے ہی گڈے گڑیوں سے کھیلنے اور اپنی بہنوں کے کپڑے پہننے اور میک اپ کی طرف تھا اور گھر والے عجیب انداز میں دیکھتے تھے۔یا جب ایک کردار نے یہ کہا کہ بے روزگاری کے ہاتھوں اس کے پاس دوراستے تھے یا تو ڈکیتیاں شروع کردے یا پھر خواجہ سرا کا روپ دھار لے ؟ ان انسانی زاویوںپر ان کرداروں کے چہروں سے زبردستی نقاب کھینچنے اور دھینگا مشتی کرنے ، گالیاں اور دھمکیاں دینے والی چینل ٹیم کی آنکھ کیوں نہیں گئی۔

اس پروگرام میں نا صرف اچانک اور رات کے پچھلے پہر بلا اجازت گھروں میں گھسا گیا اور سب کرداروں کی شکلیں دکھائی گئیں بلکہ ان کے نام بھی انھی کی زبانی اگلوائے گئے اور پھر انھیں تھانے بھی لے جایا گیا اور ان کے ساتھ بازاری زبان بھی استعمال ہوئی۔اگر کوئی جنونی ان میں سے کسی کردار کو ایک مشن سمجھ کے کل کلاں قتل کردے تو اس کا ذ مہ دار کون ہوگا ؟

تو کیا اب مجھے اجازت ہے کہ میں بھی اس مقدس سماج سدھار مشن میں حصہ لینے کا اعلان کروں اور اپنی شکاری کیمرہ ٹیم کے ساتھ اس پروگرام کی میزبان کے گھر میں صبح چار بجے کود جاؤں اور ان سے ان کے جنسی رجحانات پر سوالات کی بوچھاڑ کردوں اور یہ بھی پوچھ لوں کہ سچ سچ بتائیں کہ آپ گے ہیں یا لیزبئین ؟ اگر آپ ’’ نارمل ’’ ہیں تو میں آپ کے گھر میں گھسنے کی معذرت کرتا ہوں اور اگر آپ گے یا لیزبیئن ہیں تو میں آپ کو تھانے لے جانا چاہوں گا ؟

کیا یہی سرفروش ٹیم صبح تین بجے اشرافیہ کے کسی علاقے یا کنٹونمنٹ میں ہونے والی کسی گے لیزبئین پارٹی میں گھسنے کی جرات کرسکتی ہے ؟ کیا یہی ٹیم اپنے ہی چینل میں موجود کسی ساتھی یا اپنے کسی گے یا لیزبین رشتے دار کے اعترافات ریکارڈ کرکے نشر کرنے یا کم ازکم ان کے ساتھ اس موضوع پر کوئی اکیڈمک ڈسکشن ریکارڈ کرنے میں بھی کوئی دلچسپی رکھتی ہے ؟ کیا جو میڈیائی مجاہد ان موضوعات پر ہاتھ ڈال رہے ہیں انھیں اس موضوع کے سائنسی ، سماجی ، طبی پہلوؤں اور نتائج و عواقب کی کوئی شد بد ہے ؟

چلیے اگر واقعی یہ کوئی مقدس مشن اور اس وقت معاشرے کا سب سے سنگین مسئلہ ہے تو پھر اوپر سے شروع کرتے ہیں اورسیاست،بیورو کریسی،جرنیلی، تجارت و صنعت اور کارپوریٹ دنیا میں موجود’’جنسی ایب نارملوں’’کا احتسابی تعاقب شروع کرتے ہیں۔لیکن آپ بھی جانتے ہیں کہ آپ کی ٹانگوں اور زبان میں اتنا دم نہیں۔آپ ایسا کبھی نہیں کریں گے۔

آپ کی اخلاقیات بس اپنے خانساماں کی چوری پکڑنے سے شروع ہوتی ہے اور ایک فقیر کو ہٹا کٹا ہو کے بھیک مانگنے کا طعنہ دینے پے رک جاتی ہے۔لہٰذا اگر معاشرے کے ادھ موئے اور پہلے ہی سے راندہ ِ درگاہ طبقات کی چلتی پھرتی لاشوں پر درے مار کے چند نشریاتی زنخوں کو اپنی کھوئی ہوئی مردانگی بشکلِ ریٹنگ واپس مل سکتی ہے تو پھر میں ایسے تمام شوز کے حق میں ہوں ؟لگے رہو منا بھائی۔

( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔