کیا آفریدی کو اپنے رویے میں بہتری کی ضرورت ہے؟

راجا یوسف  منگل 24 دسمبر 2013
آفریدی کو اپنی شخصیت اور کارکردگی کے بارے میں دوبارہ سے سوچنے کی ضرورت ہے۔

آفریدی کو اپنی شخصیت اور کارکردگی کے بارے میں دوبارہ سے سوچنے کی ضرورت ہے۔

جیسا کہ پاکستان کرکٹ میں بہت ہی سنجیدہ قسم کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں، ان میں سے سب سے برا یہ ہے کہ ایک دوسرے کی جانب سے دیئے گئے تبصروں پر انہوں نے آپس لڑنا شروع کر دیا ہے، اس کی وجہ سے ٹالک شوز میں کرارہ پن تو آ جاتا ہے مگر اس میڈیا ابتر بنتا جا رہا ہے۔

پاکستان بلآخر پہلی دفعہ جنوبی افریقا کے خلاف ایک سیریز جیتنے میں کامیاب ہوا۔ انہوں نے اس سے پاکستانی میں کرکٹ سے محبت کرنے والے افراد کے دوبارہ دل جیتے اور اس موقع پر مصباح الحق بھی ناقدین کی جانب سے داد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

افسوس  کے ساتھ شاہد آفریدی کی پوری سیریز میں کارکردگی نے ان کی بیٹنگ کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دیا باالخصوص اس وقت جب وہ 300 سے زائد میچز کھیل چکے ہیں اور اب بھی اسی طرح کے غیرسنجیدہ شاٹ  کھیلتے ہیں۔

کرکٹ ڈرامہ کے  کردار شاہد آفریدی، محمد یوسف اور شعیب اختر

ایک ٹی ٹالک شو کے دوران سکندربخت، شعیب اختر اور محمد یوسف نے جنوبی افریقا کے خلاف سیریز میں بری کارکردگی پر آفریدی کو نشانہ بنایا ۔ آفریدی نے اسے اپنی ذات کے اوپر لیااور تینوں سابق کھلاڑیوں کے خلاف اس قسم کے تبصرے دیے،

“وہ جو بھی کہتے ہیں مجھے اس کوئی پروا نہیں،  لیکن کچھ ماہرین کا رویہ ایسا ہوتا ہے جیسے ٹیم کبھی ان کے دور میں نہیں ہاری۔ مجھے ہیکل، جیکل اور مسٹربین کے تبصروں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔”

پاکستان واپسی پر ایئرپورٹ پر ان کی جانب سے دیئے گئے اس بیان نے ایک نئے تنازعے کو جنم دیا۔

آفریدی کے بیان پر یوسف نے کہا کہ،

“میں نےپہلے بھی یہ کہاہے کہ وہ اب بھی ایک بچہ اور کچے ذہن کا ہے۔ لیکن میں دوبارہ یہ کہوں گا کہ نوجوان کو اپنا رول ماڈل آفریدی کو نہیں بنانا چاہیے۔ میں صرف وہ کہتا ہوں جو سچ ہے اور اگر آفریدی اس پر پریشان ہیں تو مجھے سے کوئی پروا نہیں کیونکہ ہر کوئی اس کے رویے سے بخوبی واقف ہے۔”

شعیب اختر تو کچھ زیادہ ہی برہم ہوئے اور جیو پر یہ کہا کہ آفریدی نے ایک جاہل اور پڑھے لکھے انسان میں فرق واضح کردیا ہے۔

“مجھے حیرت ہے کہ وہ ابھی تک بڑا نہیں ہوا۔ وہ پاکستان کے لیے 360 ایک روزہ میچز کھیل چکے ہیں لیکن ان میں ابھی تک پختگی نہیں آئی۔ انہیں اپنی پرفارمنس کو دیکھنا چاہیے، وہ بعض اوقات کہتے ہیں کہ وہ باؤلر نہیں ہے اور پھر کہتے ہیں وہ بیٹسمین نہیں ہیں، آپ کراچی جیم خانہ کے لیے کھیل رہے ہیں یا پاکستان کے لیے؟ میں صرف اس کی بات کر رہا ہوں جو کہ گراؤنڈ میں پیش آیا۔ میں اپنا منہ نہیں کھولنا چاہتا مگر میں جانتا ہوں کس کھلاڑی نے کب پاکستان کرکٹ کو بیچا۔”

مثبت سوچ اپنائیں

جب میں اس کیس کو دیکھتا ہوں تو آفریدی ایک لیجنڈ ہیں اور تیز کرکٹ کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔

ان کی 1996 میں سری لنکا کے خلاف 37 گیندوں پر سنچری نے انہیں ہیرو بنایا اور وہ  300 میچز کھیلنے کے بعد بھی ناقابل اعتبار بیٹسمین سمجھے جاتے ہیں۔اگرچہ  ان کی باؤلنگ کافی حد تک بہترہوئی ہے، ان کا شمار آل راؤنڈرمیں ہوتا ہے جسے اسکور بھی بنانے ہوتے ہیں۔

رواں سال ایک روزہ میچز میں آفریدی کی کاکردگی:

میچز: 20    |  رنز: 375  |    زیادہ سے زیادہ رنز:  88

بیٹنگ اوسط: 22.05  |    وکٹیں :  22   |   باؤلنگ اوسط :  32.18

مزید براں، اس لیجنڈ کے پرستاروں  کی تعداد بہت وسیع ہے۔ لوگ ان پر یقین کرتے ہیں، ان فالو کرتے ہیں،  انہیں پسند کرتے ہیں اور ان کی مہارت  کو پوجتے ہیں۔انہیں خود کو ایک لیجنڈ کی طرح تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تیسرا موقع ہے کہ انہوں نے ایک بین الاقوامی ٹورنامنٹ میں شرکت سے واپسی پر ایئرپورٹ پر تماشا کھڑا کیا ۔

چلیں بھارتی ٹیم کو بطور مثال لیتے ہیں،  ایم ایس دھونی نے اپنے ملک کے لیے ورلڈ کپ 2011 جیتا اور ان کا شمار دنیا کے بہترین قائدین میں کیا گیا، لیکن آج اگر ان کی ٹیم میچ ہارتی ہے تو میڈیا ان پر تنقید کرتے ہوئے تمام حدیں پار کرتا ہے۔

اور مجھے نہیں یاد پڑتا کہ انہوں نے کبھی بھی “ ہیکل جیکل “  اور “ مسٹر بین “ جیسا لفظ  کسی ٹیم ممبر یا کسی اور کے خلاف استعمال کیا ہو اور نہ ہی مجھے یاد پڑتا ہے کہ انہوں نے کبھی ایئرپورٹس پر تماشا کھڑا کیا ہو۔

آفریدی کی جانب سے محمد یوسف اور شعیب اختر کے تبصروں کا جواب ہماری قومی ٹیم کی موجودہ حالت کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر آپ اپنی کارکردگی پر کی جانے والی تنقید کو برداشت نہیں کر سکتے تو آپ کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔

ناقدین کا یہ کام ہے کہ جب بھی آپ اسکور کرتے ہیں تو وہ آپ داد دیتے ہیں اور تنقید کرتے ہیں جب آپ نہیں کرتے۔  اگر لوگ اس بات سے متفق ہوتے ہیں جو کہ ناقد کسی بھی کھلاڑی کے متعلق کہتا ہے تو کوئی بھی اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ اس کھلاڑی کا ماضی میں ریکارڈ کیا تھا۔ شعیب اختر اسی قسم کے ناقد ہیں۔ انہوں نے دیکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی جانب راغب کیا ہے کیونکہ عوام عموماً اس بات سے اتفاق کرتی ہے جوکہ وہ کہتے ہیں۔

اسکور کارڈ کسی بھی قسم کی تنقید کا سب سے بہترین جواب ہے، اگر کوئی کھلاڑی دباؤ کا شکار ہے یا اس کی جانب انگلی اٹھائی جا رہی ہے تو اس کا سب بہترین راستہ یہ ہے کہ اپنی کمزوریوں پر توجہ دیں ، ان پر قابو پانے کی کوشش کریں  اور اچھے رنز  کے ساتھ سامنے آئیں۔

غیرضروری تماشا لگانے کے بجائے، سینئرکھلاڑیوں کو چاہیے کہ وہ مسائل کے حل کی جانب توجہ دیں اور قوم کو اپنی خدمات پیش کریں ۔  جو لوگ تنقید کا نشانہ بنتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اسے مثبت انداز میں لیں  اور اسے ذاتی عناد بنانے سے گریز کریں۔ اگر کوئی ناقد ذات پر تبصرہ کرتا ہے تو کھلاڑی کو بڑا انسان بننا چاہیے اور کرکٹ کی خاطر اور اپنی عزت کی اس چیز کو نظرانداز کرے ۔

مختصراً، آفریدی کو اپنی شخصیت اور کارکردگی کے بارے میں دوبارہ سے سوچنے کی ضرورت ہے۔

انہیں کھیل ایک وقفے  اور اپنے کام اور کمزوریوں کو وقت دینے کی ضرورت ہے۔ انہیں یہ چیز سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تنقید کا واحد جواب کارکردگی اور اچھی کارکردگی ہے۔ جیسا کہ انہیں کھیلنے کی ایک کثیر رقم دی جاتی ہے، اس لیے انہیں ضرورت ہے کہ وہ اپنی  نوکری کے حوالے سے سنجیدگی سے سوچیں اور اپنی جگہ حاصل کرنے کے لیے کام کریں۔یہ سوالات اٹھنا صرف اس وقت ختم ہو ں گے جب آفریدی ذمہ داری سے کھیلنا شروع کریں گے۔

عزت کا کبھی مطالبہ نہیں کیا جاسکتا اسے حاصل جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا آفریدی کو اپنے رویے میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟

  • ہاں (58%, 280 Votes)
  • نہیں (42%, 206 Votes)

485 : کل ووٹرز

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔