تشدد پسند تنظیموں کا قلع قمع کیا جائے

ایڈیٹوریل  بدھ 8 جنوری 2014
 فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

وطن عزیز کا سب سے اہم مسئلہ دہشت گردی کا ہے اور یہ اب ایک ایسا عفریت بن چکا ہے، جس نے ہزاروں انسانی جانوں کو نگل لیا ہے، صدیوں سے شاد و آباد تہذیبوں کا گہوارہ یہ خطہ جسے آج ہم پاکستان کے نام سے جانتے ہیں متشدد گروہوں، لسانی و مذہبی و فرقہ وارانہ تنظیموں سمیت مختلف مافیاز کی زد میں ہے، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جس دن ہولناک واقعات کی خبریں اخبارات کی زینت نہ بنتی ہوں ۔ خیبرپختون خوا اور بلوچستان دونوں صوبوں میں شورش عروج پر ہے اور امن و امان کی حالت انتہائی دگرگوں ہے۔ پنجاب اور سندھ بھی پر تشدد لہر سے بچے ہوئے نہیں ہیں۔ منگل کی صبح کراچی کے داخلی راستے پر واقع گلشنِ معمار میں ایوب شاہ غازی کے مزار سے چھ لاشیں ملیں جن کے گلے کاٹے گئے تھے ، پولیس کو لاشوں کے ساتھ ایک خنجر اور چٹ بھی ملی ہے جس پر ’مزاروں پر جانا چھوڑ دو، تحریک طالبان‘ درج تھا۔ اس سے پہلے نوری جام تماچی کے مزار پر بھی ایسا ہی سانحہ چند دن پیشتر رونما ہو چکا ہے، انتہائی واجب الاحترام شخصیات کی آخری آرام گاہیں، جو مرجع خلائق ہیں، ان پر ایسے واقعات کا رونما ہونا پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے، تشدد کی بنیاد پر قائم تحریکیں ہمیشہ ناکامی و بربادی کا شکار ہوتی ہیں‘ پاکستان ایک نظریاتی اسلامی مملکت ہے۔ حضورؐ کی تعلیمات پر عمل میں ہی ہماری بقا ہے۔ پاکستان تمام مسالک‘ تمام مذاہب کے لوگوں کا ہے لہٰذا اپنا عقیدہ چھوڑو نہیں دوسرے کے عقیدے کو چھیڑو نہیں کے مقولے پر عمل کرنے سے شدت پسندی میں کمی لائی جا سکتی ہے۔

دوسری جانب ملزموں کی بر وقت گرفت نہ ہونے کے سبب ایسے مافیاز اور گینگ وجود میں آئے جنھوں نے لیاری جیسی محنت کشوں کی بستی کا روشن چہرہ داغدار کر دیا ہے۔ گزشتہ روز عبدالجبار عرف جینگو لیاری گینگ وار کا انتہائی مطلوب سفاک قاتل جو پولیس و رینجرز کے لیے چھلاوا بنا رہا اور کئی ٹارگٹڈ آپریشن، چھاپوں اور محاصروں کے باوجود پولیس و رینجرز سے بچ نکلنے والا، قدرت کی پکڑ میں آ کر ایک ٹریفک حادثے میں ہلاک ہو گیا۔ عبدالجبار عرف جینگو جرم کی دنیا میں آنے سے قبل ٹرک کا کلینر تھا، جب کہ تحریک طالبان کا موجودہ سربراہ مولوی فضل اللہ بھی ماضی میں اسی پیشے سے منسلک تھا، جرم و سزا، جرم اور قانون کی جنگ تو تمام متمدن معاشروں میں جاری رہتی ہے لیکن ہم اس وطن کے باسی ہیں جو متشدد تنظیموں اور جرائم پیشہ عناصر کے رحم و کرم پر ہیں، حکومتی رٹ بحال ہونے میں کتنا وقت لگے گا، قانون کے رکھوالے کب کراچی سمیت ملک کے طول و عرض میں امن قائم کر سکیں، یہ ایک سوال ہے جس کا جواب ہنوز ندارد ہے۔ البتہ ہماری نظر سے ایسی خبریں ضرور گزرتی ہیں جن کے مطابق کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن جاری ہے، رینجرز نے لیاری کے علاقے علی محمد محلہ میں گینگ وار کے انتہائی مطلوب غفار ذکری کے بھائی سمیت 6 ملزمان کو گرفتار کر کے بھاری تعداد میں اسلحہ برآمد کیا ہے، گرفتار ملزمان میں ایک کا تعلق بلوچستان لبریشن آرمی سے بھی بتایا جاتا ہے، ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران تین مبینہ ٹارگٹ کلرز سمیت 113 ملزمان کو گرفتار کر کے اسلحہ، منشیات، نقدی، موٹر سائیکل اور دیگر سامان برآمد کر لیا گیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جتنی بڑی تعداد میں ٹارگٹڈ آپریشن میں ملزموں کی گرفتاریاں ہو رہی ہیں تو اس حساب سے تو کراچی سے جرائم کا خاتمہ ہو جانا چاہیے تھا لیکن صورتحال دن بدن مزید ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ نہ تو ٹارگٹ کلنگ رکی ہے اور نہ ہی اسٹریٹ کرائمز کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے۔ جب تک فعال اور مربوط میکنزم نہیں ہو گا اس وقت تک دہشتگردوں کا شہر و ملک سے خاتمہ نہیں ہو سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔