پرویز مشرف کے علاج پر یومیہ ایک لاکھ جبکہ سیکیورٹی کے لئے 10لاکھ خرچ ہوتے ہیں

سابق صدر کی سیکیورٹی کیلیے600 اہلکار اور کمانڈوز تعینات ہیں ۔ فوٹو: رائٹرز/فائل

سابق صدر کی سیکیورٹی کیلیے600 اہلکار اور کمانڈوز تعینات ہیں ۔ فوٹو: رائٹرز/فائل

راولپنڈی / اسلام آ باد: سابق صدر پرویز مشرف پر کے علاج پر یومیہ ایک لاکھ  جبکہ سیکیورٹی کے لئے 10لاکھ خرچ ہوتے ہیں تاہم  ان کے دوبارہ میڈیکل ٹیسٹوں کی تاحال رپورٹ نہیں آئی جس کے باعث ان کے خصوصی عدالت میں پیش ہونے کا معاملہ تاحال واضح نہیں ہوسکا۔

اسپتال ذرائع کے مطابق میڈیکل ٹیسٹ رپورٹ اگر ڈاکٹروں کے مطابق نہ ہوئیں تو سابق صدر طلبی کے باوجود 16جنوری کو بھی عدالت پیش نہیں ہوسکیں گے۔ اسپتال ذرائع کے مطابق سابق صدر اب پرسکون نیند کر رہے ہیں ۔ روزانہ صبح و شام ہلکی ورزش بھی جاری ہے جبکہ ان کا بلڈ پریشر اور نبض بھی درست ہے ۔

سابق صدر2جنوری کو ہسپتال داخل ہوئے تھے ، اس دن سے روزانہ ان کے علاج پر ایک لاکھ روپے تک کے اخراجات ہورہے ہیں جبکہ ان کی سیکیورٹی کیلیے600 اہلکار اور کمانڈوز تعینات ہیں ۔ ان کے روزانہ کے اخراجات 10لاکھ روپے تک ہیں ۔ گزشتہ روز ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر توفیق آصف اور سیکریٹری فیصل خان نیازی بھی اے ایف آئی سی کے باہر گئے ۔انھوں نے الزام لگایا کہ آئین توڑنے والے سابق صدر کو بلاوجہ اسپتال میں عدالتی کارروائی سے بچانے کیلیے بطور پناہ گاہ رکھا گیا ہے ۔ اگر پرویز مشرف عدالتی حکم پر 16 جنوری کو عدالت پیش نہ ہوئے تو ہائیکورٹ بار کے وکلا اسپتال کے باہر احتجاجی دھرنا دیں گے ۔ انھوں نے کہا کہ اس ضمن میں فوج بھی اپنا رد عمل ظاہر کرے، فوج کی خاموشی کے باعث اس کی ساکھ متاثر ہورہی ہے۔ ادھر آئی این پی کے مطابق ہائیکورٹ بار راولپنڈی بینچ کے سابق صدر شیخ احسن الدین نے شہدا فائونڈیشن کے صدر اور علامہ عبدالرشید قتل کیس میں ہارون الرشید کے وکیل طارق اسد ایڈوکیٹ سے ملاقات کی اور انھیں ملنے والی دھمکیوں پر تبادلہ خیال کیا۔

پرویز مشرف  کاخصو صی عدالت کے حکم  کے باوجود جمعرات 16جنوری کو بھی پیش ہونیکا کوئی امکان نہیں ہے ۔ معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اگر سابق صدر کو اگلی سماعت سے پہلے اسپتال سے ڈسچارج  بھی کیا گیا تو وہ اس کے باوجود  عدالت میں پیش نہیں ہوں گے اور کوئی اور عذر بنا کر ان کے وکلا کی طرف سے التوا کی درخواست دائر کی جائے گی۔ پرویز مشرف کے لیگل ٹیم کے ایک اہم رکن نے بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر  بتایا ہے کہ اگر خصو صی عدالت نے پرویز مشرف کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے تب بھی وہ پیش نہیں ہوں گے ۔ پہلے خصو صی عدالت اور پھر ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں حکم امتناع کیلیے رجوع کیا جا ئیگا۔ قانون کے مطابق ملزم کا پیش ہونا ضروری نہیں ۔

اس لیے ذاتی حیثیت میں پرویز مشرف کو پیش ہونیکا حکم دینا ہی غلط ہے ۔انھوں نے کہا کہ سابق صدر کو اسپیشل کورٹ میں شامل ججوں پر اعتراض ہے اور یہ معاملہ آخر کار سپریم کورٹ میں آکر حل ہوگا۔ اس ضمن میں پی سی او فیصلے پر نظر ثانی اور اسپیشل کورٹ کی کاروائی روکنے کی درخواست کو16 جنوری کو سپریم کورٹ میں لگانے کی درخواست دائر کر دی گئی ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ اسپیشل کورٹ کے ججوں کو سابق چیف جسٹس نے مقرر کیا ہے جو ملزم کیخلاف تعصب رکھتا تھا جبکہ قانون کے مطابق اسپیشل کورٹ کا قیام فیڈرل گورنمنٹ کا اختیار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔