خود فریبی کی پالیسی

طلعت حسین  اتوار 19 جنوری 2014
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12

www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

ملک میں سیکیورٹی کی صورت حال ہمارے ہاتھوں سے پھسلتی جا رہی ہے۔ ہمارے حکمران اور ادارے محض سر کھجا رہے ہیں کہ کیا کریں۔ کراچی میں ایکسپریس نیوز کی گاڑی پر حملہ اور کارکنوں کی شہادت اتنی ہی قابل مذمت اور قابل فکر ہے جتنا بنوں  میں سیکیورٹی فورسز پر حملے میں قومی نقصان۔ دونوں واقعات میں محرکات مختلف ہو سکتے ہیں لیکن اس کا نتیجہ ملک کے لیے ایک ہی ہے۔ یہ بڑھتی ہوئی فکر کہ ہماری فیصلہ ساز قوتیں مخمصوں میں پھنسی رہیں گی اور ملک کا بیڑہ غرق ہو تا رہے گا۔ پاکستان کی سر زمین پر کتنے دہشت گرد گروپس کام کر ہے ہیں اس کا اندازہ آپ کو حکومت کی طرف سے جاری کردہ لسٹ سے ہی ہو جائے گا جس میں 60 چھوٹی بڑی تنظیمو ں کے نام درج ہیں۔

وہ تنظیمیں اس کے علاوہ ہیں جو ہیں تو دہشت گردی میں ملوث مگر سیاسی اور مذہبی مصلحتوں کے باعث اُن کے نام اس فہرست سے باہر ہیں۔ اگر اُن کو شامل کر لیا جائے تو لوگوں کی جان لینے والے‘ قانون کو پامال کرنے والے اور پاکستان کو ایک اکھاڑے میں تبدیل کرنے والے گروہ سیکڑوں ہو جاتے ہیں۔ خودکش حملے، دور سے ریمورٹ کے ذریعے پھاڑے جانے والے بم، اغواء، ٹارگٹ کلنگ، بارود اور اسلحے کی اسمگلنگ اور اس سرزمین کی مختلف جگہوں پر اپنی اجارہ داری قائم کر کے لوگوں کو یرغمال بنانا اُن ہتھکنڈوں میں سے چند ایک ہیں جو یہ تمام گروپس اپنی اپنی استطاعت کے مطابق استعمال کر کے ہر روز خونریزی پھیلاتے ہیں۔ اِن واقعات نے آہستہ آہستہ پاکستان کا نام اُن ریاستوں کے ساتھ جوڑنا شروع کر دیا ہے جو فیصلہ سازی کی دائمی کمزوری کا شکار ہو کر ایک ایسے خلفشار کا شکار ہو رہی ہیں جس سے نجات حاصل کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ترین درد سر یقینا ہوگا۔

پاکستان کی معیشت اور معا شرت، عام زندگی اور اداروں کی عزت روزانہ نئے خطرات اور شرمندگی سے دوچار ہو رہی ہیں۔ مگر ان معاملات کو سلجھانے اور نبھانے کے لیے کسی کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔ بنو ں کا واقعہ بالخصوص ان بدترین دھچکو ں میں سے ایک ہے جو پاکستان کو دہشت گردی کی حالیہ وارداتوں کی وجہ سے ملے۔ جانیں سب کی قیمتی ہیں۔ مگر ایک پر وفیشنل فورس کو اِس بڑے پیمانے پر نشانہ بنانا اور اتنے بڑے نقصان کا سامنا کرنا یقینا پریشانی کا مقام ہے۔ اس علاقے میں پہلے بھی ایسے واقعات ہو چکے ہیں۔ وہ ویڈیوز جو مغوی سیکیورٹی اہلکاروں کے سر قلم کرنے کے بعد جاری کی جاتی ہیں۔ طاقت کے اُس توازن کی نشاندہی کرتی ہیں جو اِن گروپوں کے دعووں کے مطابق اس وقت اِن کے حق میں ہے۔ یہ حملہ اس وجہ سے بھی ایک بڑا سانحہ ہے۔

کیونکہ یہاں پر پاکستان آرمی نے سب سے زیادہ فوج جنگی طرز پر تعینات کی ہوئی ہے۔ مگر چونکہ بات چیت اور آپر یشن سے متعلق ریاست، حکومت اور سیاست دان پچھلے دو سال سے اپنا ذہن نہیں بنا پا رہے لہٰذا کچھ نہ کر تے ہوئے بھی فوج نے آپر یشن کرنے سے زیادہ نقصان اٹھا لیا ہے۔ مقامی کمانڈروں کے لیے یہ صورت حال اور بھی گمبھیر ہو جاتی ہے۔ اس قسم کی خبریں میڈیا پر تو اکا دکا واقعات کے طور پر پیش کر کے سامنے لائی جا سکتی ہیں۔ لیکن زمین پر موجود افسر اور جوان اِن سے بری طر ح متاثر ہوتے ہیں۔ فوجی معاملات میں واضح فیصلے اور غیر مبہم ہدایات ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ فوج کالے یا سفید زاویوں سے معاملات کو دیکھنے کی تر بیت رکھتی ہے۔ کیونکہ موت اور زند گی انتہائی واضح حقائق ہیں۔ درمیانی رستے میں بیٹھ کر گومگو کی کیفیت جنگی علاقوں میں تعینات فوجیوں کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں۔ ابھی تک بدقسمتی سے دہشت گردی سے نپٹنے کی پالیسی اسی کیفیت کا شکار رہی ہے۔

کراچی کے اندر ہونے والے آپریشن کی تفصیل اٹھا کر دیکھ لیں۔ جب تک سیاست دانوں نے پولیس تبادلوں اور انتظامیہ میں رد و بدل کا کام شروع نہیں کیا تھا، آپریشن کی رفتا ر اور سمت درست تھی۔ جو نہی تبادلوں کی خبریں سامنے آئیں ہر کوئی تذبذب کا شکار ہو گیا اور جو اہداف ستمبر کے بعد بڑی تشہیر کے ساتھ بیان کیے گئے تھے معدوم پڑتے ہوئے نظر آنے لگ گئے ہیں۔ طالبان کے ساتھ بات چیت کا عمل بھی ایسے ہی خطر ناک تذبذب کی نشاندہی کرتا ہے۔ بیان کرنے کی حد تک منزل طے کر دی گئی تھی۔ بات چیت کے عمل کے ذریعے یہ طے کر نا تھا کہ امن سفید جھنڈے کے ذریعے آئے گا یا توپ کے گولے کے توسط سے۔ مہینو ں گزرگئے خالی بیانات کے سوا کچھ سامنے نہیں آیا۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ اس محاذ پر کیا پیشرفت ہوئی ہے۔ وزیر اعظم کے ساتھ سفر کرتے ہوئے ایک حالیہ سفر میں کریدنے کے باوجود میں ان سے چار واضح جملے نہیں نکلوا پایا وہ اتنا مانتے ہیں کہ بات چیت کا عمل انتہائی سست ہے۔ وہ اس سلسلے میں متوازی عمل کا آغاز بھی کرنا چاہتے ہیں۔ جس میں جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام اور پاکستان تحریک انصاف جیسی جماعتیں شامل ہوں۔ اور وہ مرکز کے مینڈیٹ کے ساتھ طالبان کے ساتھ بات چیت کے عمل کا آغاز کریں۔

اگر ٹریک ون نے پیش رفت نہیں کی تو ٹر یک ٹو کیا پیش رفت دکھائے گا۔ ویسے بھی یہ بات چیت پاکستان اور ہندوستان کے ساتھ بات چیت جیسی تو ہے نہیں کہ چھ ٹریکس کے اُوپر چلے۔ پاکستان میں ایک حکومت ہے اور ایک ریاست۔ اور دوسری طرف وہ گروپس ہیں جو اس حکومت کو مانتے ہیں اور نہ ریاست کو۔ دونوں کے درمیان صر ف یہ طے کرنا ہے کہ کون کس کی بات کتنی مانے اور کیوں۔ دوسرا معاملہ طے کرنا  یہ ہے کہ اگر یہ گروپ خود کو ریاست کے قوانین کے تابع نہیں کر تے تو ریاست خاموش رہے گی یا ردعمل دکھا ئے گی۔ کراچی کے ٹارگٹ کلر سے لے کر بنو ں کے حملہ آوروں تک فیصلہ صر ف ایک کرنا ہے کہ پاکستان کی فیصلہ ساز قوتیں کیا کر نا چاہتی ہیں۔ خاموشی پالیسی نہیں ہوتی بیانات اور پریس کانفرنسز کے ذریعے ادا کیے ہوئے سخت الفاظ نہ دہشت گردی کا قلع قمع کر تے ہیں نہ ناراضیوں کو دور کرتے ہیں۔ مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت، سیاسی جماعتیں اور عسکری ادارے سب اس پر اتفاق کیے بیٹھے ہیں کہ باتوں سے کام چل جائے گا۔ خا موشی سے فیصلے کی گھڑی ٹل جائے گی۔ اور کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی طرح اللہ تعالی کی کوئی خاص رحمت ایسی آئے گی کہ کچھ کیے بغیر معاملات درست ہو جائیں گے۔ بہت کم ممالک اپنے آپ کو اتنے بڑے اور اتنے برے دھوکے میں مبتلا رکھتے ہیں۔ جس میں پاکستان اس وقت مبتلا کیا جا چکا ہے۔ کراچی اور بنوں کے واقعات اسی دھوکے کی سزا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔