مسٹر پریذیڈنٹ یہ سیاست ہے

کلدیپ نائر  جمعرات 30 جنوری 2014

صدر پرناب مکھرجی پہلے دن سے ہی ایسی تقریریں کر رہے ہیں جن کا جھکاؤ سیاست کی طرف ہوتا ہے۔ وہ قوم کو درپیش مسائل پر اس انداز سے تبصرے کر رہے ہیں جیسے وہ ملکی معاملات پر ہونیوالے کسی مباحثے کی صدارت کر رہے ہوں۔ یوم جمہوریہ کی نشری تقریر میں تو انھوں نے اپنی ہی تمام تقاریر کو مات کر دیا۔ ظاہر ہے کہ اس سے بعض حلقوں کی طرف سے خفگی کا بھی اظہار کیا گیا۔ بہت سی سیاسی جماعتوں نے، جن میں  کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) بھی شامل ہے‘ صدر کی تقریر کو خالصتاً سیاسی قرار دیا۔

ویسے تو صدر مکھرجی جو کہتے ہیں وہ عمومی طور پر درست ہی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ان کا یہ کہنا کہ عوامی سیاسی جماعتوں کی انتشار پسندی اچھی گورننس کی کسی صورت متبادل نہیں ہو سکتی اور یہ بھی درست ہے کہ عوامی زندگی میں منافقت کا رجحان فروغ پذیر ہے۔ لیکن وہ یہ بات فراموش کر دیتے ہیں کہ وہ محض آئینی سربراہ ہیں اور انھیں اس ادب آداب کا پاس رکھنا چاہیے جس کی منتخب پارلیمنٹ اور ریاستی قانون ساز اس منصب پر فائز شخص سے توقع رکھتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاست مکھرجی کا من بھاتا میدان ہے لیکن جب وہ صدر منتخب ہو گئے تو گویا انھوں نے سیاست کو ترک کر دیا۔ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے خلاف ان کی شکایات ممکن ہے کہ بجا ہوں لیکن یہ ان دونوں کا ذاتی  معاملہ ہے، قوم کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ایک سیاسی پارٹی کے اندر کیا ہو رہا ہے۔

وزیر اعظم منموہن سنگھ کے سبکدوش ہونے پر مکھرجی فطری طور پر ان کے جانشین ہو سکتے ہیں، مختصراً یہی وجہ ہے کہ بہت وسیع تعلقات والے ایک شخص کو آخر کیونکر اوپر کی طرف دھکیلا گیا۔ سونیا گاندھی کا اپنے بیٹے راہول گاندھی کو وزیر اعظم بنانے کا ارادہ مکھرجی کے سیاسی عزائم میں ایک رکاوٹ ہے۔ اور اس کا انحصار مکھرجی پر ہی تھا کہ وہ عہدہ صدارت قبول نہ کرتے۔ لیکن جب انھوں نے اعلان کیا کہ 2014ء کا انتخاب نہیں لڑیں گے تو یہ صاف ظاہر ہو گیا کہ وہ مناسب وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔ سونیا گاندھی نے بخوشی ان کی پوزیشن قبول کر لی کیونکہ اس طرح انھوں نے خود راہول گاندھی کے لیے راستہ صاف کر دیا تھا۔ مکھرجی نے اس بات کو یقینی سمجھ لیا تھا کہ مشکل حالات میں انھوں نے جو آگ بجھانے والا کلیدی کردار ادا کیا ہے تو حکمران خاندان ان کی بے لوث خدمات کو نظر انداز نہیں کرے گا لیکن بدقسمتی سے مکھرجی صدارتی منصب   کے مطابق خود کو پوری طرح سے نہیں ڈھال سکے۔ انھیں ایسے ریمارک نہیں دینے چاہئیں جو وہ سیاستدان ہونے کی حیثیت سے دے سکتے تھے۔

مجھے عام آدمی پارٹی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کا دھرنا بھی پسند نہیں آیا جو ان دو پولیس والوں کی تبدیلی کے مطالبے کے لیے دیا گیا جنہوں نے ان کے وزیر قانون سومناتھ بھارتی کی مبینہ طور پر ہتک  کی تھی۔ لیکن وزیر اعلیٰ کیجریوال نے اپنے وزیر قانون کی بے ضابطگی کو نظر انداز کر کے کوئی اچھی مثال قائم نہیں کی ہے۔ انھیں ریاستی پولیس افسروں کی حکم عدولی کا معاملہ ریاست کے چیف سیکریٹری کے سپرد کرنا چاہیے تھا۔ ان کا موقف یہ ہے کہ انھوں نے آئین کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ یہ عجیب منطق ہے جب وہ آئین کے ہر لفظ کو اس کے معانی سمیت گویا دریا برد کر رہے ہیں جو تمام اختیارات انتظامیہ کو دیتا ہے جس کے کہ کیجریوال محض نام کے سربراہ ہیں۔ لہذا وزیر اعلی کا یہ کہنا کہ ان کا دھرنا غیر آئینی نہیں اس گتھی کو سلجھانے سے قاصر ہے۔ ان کو یہ احساس نہیں ہے کہ متوسط طبقہ جو ان کا قلعہ ہے وہ ایک باضابطہ انتظامیہ کا خواہاں ہے اور جب ریاست کا وزیر اعلیٰ دھرنا دینے کی سیاست کرتا ہے تو وہ طبقہ اس میں اپنی سبکی محسوس کرتا ہے۔ لیکن آخر صدر مکھرجی سیاسی معاملات پر کیوں تبصرے کر رہے ہیں یہ میری فہم سے بالا ہے۔ صدر مکھرجی کا یہ تبصرہ کہ ’’حکومت کوئی خیرات گھر نہیں‘‘ دراصل حکومت کے ان دعووں پر تنقید ہے جو وہ انتخابی حمایت حاصل کرنے کے لیے کرتی رہی ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں ایسا کرتی ہیں۔ مکھرجی اندرا گاندھی کی کابینہ کے وزیر تھے جب موصوفہ نے ’’غریبی ہٹاؤ‘‘ کا نعرہ بلند کیا تھا۔ منموہن سنگھ حکومت نے ’’ڈی ایم کے‘‘ کی حمایت حاصل کرنے کی خاطر اس پر نوازشات کیں۔

یہ ایک کھلا راز ہے کہ ملائم سنگھ یادو کی پارٹی کی حمایت حاصل کرنے کی خاطر کس طرح اس کے خلاف سی بی آئی کا مقدمہ خارج کر دیا گیا۔ جب منموہن سنگھ کی حکومت گرنے والی تھی تو مکھرجی بھی اس حکومت میں شامل تھے جسے بچانے کی انھوں نے اپنی سی کوششیں کیں۔ اگر مکھرجی کی تنقید کو درست سمجھا جائے تو انھوں نے اس وقت کیوں اس کرپٹ حکومت کا ساتھ دیا تھا۔ تب ان کی مخالفت بہت کارگر ہو سکتی تھی کیونکہ وہ ایک سینئر لیڈر تھے۔ مثال کے طور پر جب انھوں نے ٹیکس  اکٹھے کرنے پر زیادہ زور دیا تو اس کے نتیجے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے سوتے بند ہو  گئے۔ وزیر خزانہ ہونے کی حیثیت سے انھیں اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ ان کے اس قسم کے فیصلوں سے سرمایہ کاری پر کتنا بُرا اثر پڑے گا۔ حتیٰ کہ آج بھی جب سرمایہ کاری کے رکنے کی بات ہوتی  ہے تو اس مکھرجی کا نام بار بار آتا ہے۔ وہ راشٹر پتی بھون (ایوان صدر) کے پر تعیش ماحول میں قیام پذیر ہیں جب کہ قوم ان کی حماقتوں کی قیمت ادا کر رہی ہے۔ مکھرجی مسز گاندھی کی کابینہ کے ایک وزیر تھے جب موصوفہ نے اس وقت کے صدر گیانی ذیل سنگھ کو سرکاری کاغذات بھجوانا بند کر دیے تھے، کیونکہ صدر نے پنجاب کے مسئلے پر ان سے اختلاف کیا تھا۔ جو مسز گاندھی نے کیا وہ آئین کی صریح خلاف ورزی تھی۔ کاش کہ مکھرجی اس وقت اپنی آواز بلند کرتے۔ صدر کا منصب اس قدر واجب الاحترام ہے کہ اس کو مسخ نہیں کیا جانا چاہیے۔ تاہم اس کے باوجود سیاسی لیڈر ایسا کر گزرتے ہیں۔ اور اگر مکھرجی بھی ایسا کرتے ہیں تو یہ ایک افسوسناک بات ہی کہی جا سکتی ہے۔

ایک اور مثال مکھرجی کی اس وقت خاموش رہنے کی ہے جب 1975ء میں مسز گاندھی نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی تھی۔ مسز گاندھی نے ان اداروں کو تباہ کن نقصان پہنچایا جن کو ان کے والد جواہر لعل نہرو نے پروان چڑھایا تھا۔ مکھرجی اس وقت سنجے گاندھی کے بہت قریبی ساجھے دار تھے جو کہ ماورائے آئین اتھارٹی بنے ہوئے تھے۔ ایمرجنسی کا سب سے بڑا پہلو یہ تھا سیاست سے اخلاقیات کو نکال باہر کیا گیا۔ اس وقت خوف کی ایک ایسی فضا قائم ہو چکی تھی جس نے اس وقت کے صدر فخر الدین علی احمد کو ایمرجنسی کے اعلان پر کابینہ کی منظوری سے پہلے ہی دستخط کرنے پر مجبور کر دیا۔ میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ وزیر اعظم صدر کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ آئین کی تشکیل کرنے والوں نے پارلیمانی طرز حکومت کو صدارتی طرز حکومت پر ترجیح دی اور انھوں نے وہ اصول بھی مرتب کر دیے جن پر صدر کو عمل کرنا ہے۔ لیکن اس کی سالہا سال سے خلاف ورزی کی جاتی رہی ہے کیونکہ کانگریس نے صدر کی خواہشات کو کبھی اہمیت نہیں دی لیکن سیاسی تقریریں کر کے راشٹر پتی بھون کا مکین محض اس مسئلہ کو مزید خراب کر رہا ہے۔

صحیح اور غلط اور اخلاقی اور غیر اخلاقی کے مابین بہت باریک خط امتیاز ہوتا ہے۔ اداروں کو ہر حال میں اس باریک خط کا تحفظ کرنا چاہیے۔ کسی اونچی جگہ پر کھڑے ہو کر یہ کہہ دینا آسان ہے کہ ایسی ایسی چیز ملک کے لیے خطرناک ہے۔ اب صدر مکھرجی جو بھی کہہ رہے ہیں ممکن ہے وہ درست ہو مگر انھیں اپنے اس کردار پر غور کرنا چاہیے جس کا مظاہرہ انھوں نے کابینہ کے وزیر کی حیثیت سے کیا تھا۔ کیا وہ صرف قانونی طور پر ہی نہیں اخلاقی طور پر بھی درست تھے۔ گیند اب ان کے کورٹ میں ہے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔