- بلوچستان میں 24 تا 27 اپریل مزید بارشوں کی پیشگوئی، الرٹ جاری
- ازبکستان، پاکستان اور سعودی عرب کے مابین شراکت داری کا اہم معاہدہ
- پی آئی اے تنظیم نو میں سنگ میل حاصل، ایس ای سی پی میں انتظامات کی اسکیم منظور
- کراچی پورٹ کے بلک ٹرمینل اور 10برتھوں کی لیز سے آمدن کا آغاز
- اختلافی تحاریر میں اصلاح اور تجاویز بھی دیجیے
- عوام کو قومی اسمبلی میں پٹیشن دائر کرنیکی اجازت، پیپلز پارٹی بل لانے کیلیے تیار
- ریٹائرڈ کھلاڑیوں کو واپس کیوں لایا گیا؟ جواب آپکے سامنے ہے! سلمان بٹ کا طنز
- آئی ایم ایف کے وزیراعظم آفس افسروں کو 4 اضافی تنخواہوں، 24 ارب کی ضمنی گرانٹ پر اعتراضات
- وقت بدل رہا ہے۔۔۔ آپ بھی بدل جائیے!
- خواتین کی حیثیت بھی مرکزی ہے!
- 9 مئی کیسز؛ شیخ رشید کی بریت کی درخواستیں سماعت کیلیے منظور
- ’آزادی‘ یا ’ذمہ داری‘۔۔۔ یہ تعلق دو طرفہ ہے!
- ’’آپ کو ہمارے ہاں ضرور آنا ہے۔۔۔!‘‘
- رواں سال کپاس کی مقامی کاشت میں غیر معمولی کمی کا خدشہ
- مارچ میں کرنٹ اکاؤنٹ 619 ملین ڈالر کیساتھ سرپلس رہا
- کیویز سے اَپ سیٹ شکست؛ رمیز راجا بھی بول اٹھے
- آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ جون یا جولائی میں ہونیکا امکان ہے، وزیر خزانہ
- ایرانی صدر ابراہیم رئیسی لاہور پہنچ گئے، مزار اقبال پر حاضری
- دعائیہ تقریب پر مقدمہ؛ علیمہ خان کی درخواستِ ضمانت پر فیصلہ محفوظ
- سی او او کی تقرری کا معاملہ کھٹائی میں پڑنے لگا
براہ راست جمہوریت کی طرف ایک قدم
قومی قیادت کی کوششوں کے نتیجے میں ہم آہستہ آہستہ براہ راست جمہوریت کی طرف گامزن ہو چکے ہیں۔ یہ طرز حکومت ہے تو کافی پرانا لیکن اس کی گوناگوں خصوصیات زمانے کی نذر ہو گئیں۔ جس کی وجہ سے بالواسطہ جمہوریت کے طور طریقے اپنانے پڑے۔ یونانی ریاستوں میں براہ راست جمہوریت رائج تھی۔ یہ ایک زبردست نظارہ ہوا کرتا تھا، جمہور یعنی عوام چھوٹے چھوٹے میدانوں میں اپنے قائدین سے آمنے سامنے رابطہ کیا کرتے تھے۔ سوال و جواب، احتساب اور ضروریات سب کے اظہا ر کے لیے یہ پلیٹ فارم موثر کردار ادا کرتا تھا۔ جو لوگ عوام اور قیادت کے درمیان خلاء پیدا کر کے جمہوریت کی نفی کر تے تھے اُن کا کاروبار ٹھپ ہو گیا تھا۔ انتخاب کا طریقہ کار سیدھا سادا اور انتہائی جاندار تھا۔ جو عوام کے مسائل حل کر سکتا تھا وہ منتخب ہو جاتا۔
جو چالاکیوں سے عوام کو لبھانے کی کوشش کرتا اُس پر سے بھی پردہ اُٹھ جاتا مگر پھر آبادیاں بڑھ گئیں، شہر بن گئے، نظام بڑے اور میدان چھوٹے ہو گئے۔ ریاستی امور کو چلانے کے لیے بالواسطہ نظام کا سہارہ لینا پڑا جس میں منتخب قیادت دور دور سے پرچی کے ذریعے عوام کی قیادت کا بِیڑا اُٹھا لیتی ہے اور اُس کے بعد ایک خاص مدت تک خوف کے بغیر سیاسی طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ منتخب ہونے کا عمل بالواسطہ ہو چکا ہے۔ قیادت اور انتخاب کرنے والوں کے درمیان فاصلے بڑھ چکے ہیں۔ اگرچہ ترقی یافتہ ممالک نے اس نظام کی خامیاں دور کرنے کی کوشش کی ہیں۔ مگر وہ یونانی ماڈل جو ایک مثالی جمہوریت کی تعبیر مانا جا تا ہے اب بھی بہت دور ہے۔
ہم اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود اپنے تجربات سے اس آئیڈیل کو حاصل کرنے کی جستجو شروع کر چکے ہیں۔ ہمیں شاید خود بھی معلوم نہیں کہ ہماری یہ سعی جمہوری تاریخ میں کتنا بڑا انقلاب برپا کر سکتی ہے۔ براہ راست جمہوریت کی ایک مثال سندھ ثقافتی میلہ تھا جس کے بعد اب بسنت کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے براہ راست خطاب کرنے کی پرانی روایت کو دوبارہ سے زندہ کیا ہے۔ اگرچہ فی الحال وہ ٹوئٹر پر زیادہ انحصار کرتے ہیں اور مکمل طور پر عوام کے بیچ ہونے کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ سندھ ثقافتی میلے کے حیران کن رنگ براہ راست دکھائے گئے۔بختاور بھٹو نے ایک گانا بھی نذر کیا۔ بے نظیر بھٹو کے بچے جو اب آصف علی زرداری بطور باپ پال ر ہے ہیں، اپنے پیارے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک نجی محفل کی صورت میں سندھ کی بُھولی بِسری ثقافت کو نئے انداز سے زندہ کرتے ہوئے بھی نظر آئے۔ محترم الطاف حسین کے براہ راست خطاب اُسی ماڈل کا ایک عکس ہے جو زمانہ قدیم میں ر ائج تھا۔ جمہوری محققین کا پسندیدہ تھا مگر تبدیلیوں کی دھند میں گم ہو گیا تھا۔ آج کل ان خطابات میں کچھ تعطل آیا ہوا ہے جو دور ہو جانے کے بعد ویسا ہی ماحول پیدا کر دے گا جیسا آج سے چند ماہ پہلے تھا۔
اس ضمن میں حکو مت اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان بات چیت کے ماڈل کا ذکر بھی ہونا چاہیے۔ اگرچہ فی الحال کمیٹیاں اپنا کام کر رہی ہیں۔ اس بارے میں مثبت یا منفی کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہیے۔ فی الحال یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسائل کو براہ راست حل کرنے کے لیے یہ طریقہ کار انتہائی کارآمد ہے۔ پاکستان کے اُن کروڑوں ووٹروں کے لیے بھی اس ماڈل میں پر مسرت خبریں چھپی ہوئی ہیں۔ 2013ء کے الیکشن میں انھوں نے جماعتوں کو منتخب کر کے اسمبلی میں بھیجا۔ اِن میں سے کچھ جماعتیں لبرل اور کچھ نسبتاً روایتی نظریات رکھتی تھیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام س اور ف اُن نظریات کے قریب تر تھیں جو ضیاء الحق کے دور میں مشہور و معروف ہوئے۔ اور جن کی کوکھ سے دوسرے شعبوں کے ساتھ ساتھ صحافت میں بھی ایک ایسی نسل نے جنم لیا جو اس ملک کو سعودی عرب کا پرتو دیکھنا چاہتی ہے۔
مذاکرات کے عمل کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے کروڑوں ووٹروں کے لیے براہ راست جمہوریت کی روح کے مطابق رائے کے اظہار کے مو اقعے حاصل کرنا آسان ہو گیا ہے۔ مذاکرات کی کامیابی کے بعد تحریک طالبان پاکستان سیاسی طور پر ایک باقاعدہ جماعت کے طور پر رجسٹر کروائی جا سکتی ہے۔ جو اُن تمام خیالات اور نظریات کو خالص انداز سے پھیلانے کا مکمل ارادہ رکھتی ہو جو آج کل مختلف جماعتوں مثلا نواز لیگ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی وغیرہ میں بٹے ہوئے ہیں۔ جو کوئی طالبان کے نظریات کا اطلاق چاہتا ہے وہ رنگ رنگ کی جماعتوں کو ووٹ دینے کے بجائے ایک ہی پارٹی کو ووٹ دے کر اپنے جمہوری حق کی تسکین کر پائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سب جماعتیں مل کر ایک جمہوری محاذ بنالیں جس میں شاہد اللہ شاہد، پرویز رشید، عمران خان ایک ہی صف میں کھڑے نظر آئیں۔ یہ ایک زبردست قدم ہو گا اس ملک کی جمہوری روایات کو مضبوط بنانے کے لیے اور براہ راست جمہوریت کی منزل حاصل کرنے کے لیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔