رول آف لاء

جاوید چوہدری  جمعرات 13 فروری 2014
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

ایڈم پرل مین کو میوزک کا شوق وراثت میں ملا ‘ اس کے والد فل پرل مین یہودی تھے‘ یہ بچپن سے موسیقی کے جنون میں مبتلا تھے‘ ایڈم کے دادا کارل پرل مین کیلیفورنیا کے مشہور یورالوجسٹ تھے‘ یہ متعصب یہودی تھے‘ یہ پوری زندگی اسرائیل کے قیام اور دنیا پر یہودی قبضے کے خواب کاشت کرتے رہے‘ ایڈم کی دادی عیسائی تھی‘ وہ ایک عیسائی میگزین بھی نکالتی تھی‘ ایڈم کے والد کا بچپن اور جوانی کیلیفورنیا میں گزری‘ انھوں نے ایڈم کی والدہ جینیفر کے ساتھ شادی کر لی اور یوں یہ خاندان مزے سے زندگی گزارنے لگا‘ فل پرل مین گانے گاتا تھا اور جینیفر بائبل پڑھتی تھی‘ ایک دن جینیفر نے بائبل میں غدن کا کردار پڑھا تومیاں بیوی دونوں نے اپنے نام کے ساتھ Gideon (عربی میں غدن) لگا لیا‘ یہ خاندان اب غدن ہو گیا‘ ایڈم پرل مین یکم ستمبر 1978ء کو ان کے گھر پیدا ہوا‘ ایڈم کے والدین اس وقت تک پروٹسٹنٹ عیسائی ہو چکے تھے‘ ایڈم کو میوزک‘ عیسائیت اور یہودی خون ورثے میں ملا‘یہ اسکول میں پڑھتا رہا اور موسیقی بجاتا رہا‘ ایڈم پرل مین نے ساڑھے سولہ سال کی عمر میں اسلام کا مطالعہ شروع کر دیا۔

یہ 1995ء کا سن تھا‘ یہ اپنے چند مسلمان دوستوں کے ساتھ اورنج کائونٹی کے اسلامک سینٹر میں داخل ہوا‘ اس نے حاتم بنداکی کے الفاظ سنے اور یہ دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا‘ یہ روزانہ اسلامک سینٹر جاتا رہا‘ یہ اسلام کا مطالعہ کرتا رہا یہاں تک کہ اس نے سترہ سال کی عمر میں اسلام قبول کر لیا اور اس کا نام ایڈم پرل مین سے ایڈم یحییٰ غدن ہو گیا‘ اس نے موسیقی چھوڑ دی‘ داڑھی رکھی اور نماز روزے کی پابندی شروع کر دی‘ اس نے انٹرنیٹ پر اپنے قبول اسلام کا واقعہ لکھا تو اسے گرفتار کر لیا گیا‘ غدن کو سزا ہوئی اور اس سزا نے اسے پکا مسلمان بنا دیا‘ یہ 1998ء میں پاکستان آیا‘ پاکستان میں اس نے ایک افغان مہاجر لڑکی سے شادی کی‘ یہ 2001ء تک پاکستان میں رہا‘ اس دوران اس کا زیادہ تر وقت کراچی اور پشاور میں گزرا‘ یہ اپنے والدین کو بتاتا تھا ’’میں پاکستان میں صحافت کر رہا ہوں‘‘ لیکن یہ اس دور میں القاعدہ کا رکن تھا اور یہ اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے نہ صرف اسامہ بن لادن کے قریب پہنچ چکا تھا بلکہ یہ ان کے ایڈوائزر میں بھی شامل تھا‘ یہ القاعدہ کا میڈیا ایڈوائزر بھی تھا‘ اس نے القاعدہ کے لیے ٹیلی ویژن پروڈکشن اور سوشل میڈیا ایکٹوٹیز شروع کیں‘ نائین الیون کا واقعہ ہوا۔

القاعدہ نے ایک ویڈیو ٹیپ کے ذریعے اس واقعے کی ذمے داری قبول کی‘ یہ ویڈیو ٹیپ یحییٰ غدن نے تیار کی تھی‘ غدن امریکی نظام کو سمجھتا تھا‘ یہ یورپی میڈیا کا نباض بھی تھا‘ یہ مغربی نظام کی خرابیوں اور کمزوریوں سے بھی واقف تھا چنانچہ اس نے مضامین‘ ویڈیو اور آڈیو ٹیپس کے ذریعے امریکی نظام کو نشانہ بنانا شروع کر دیا‘ امریکی انتظامیہ اس پر تلملا اٹھی‘ نائین الیون کے بعد ایڈم یحییٰ غدن کا اپنے خاندان سے رابطہ کٹ گیا‘ القاعدہ نے بھی اسے ’’ عزام الامریکی‘‘ کا نیا نام دے دیا‘ غدن نے 2004ء میں ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے لاس اینجلس اور میلبورن کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی‘ امریکا نے اسی دور میں اسے موسٹ وانٹیڈ لوگوں کی فہرست میں بھی شامل کر دیا اور اسے پکڑنے والے کے لیے ملین ڈالر انعام کی رقم بھی رکھ دی۔

یہ دوسری طرف اسامہ بن لادن اور ڈاکٹر ایمن الظواہری کے انتہائی قریب ہو گیا‘ یہ ان کے ویڈیو پیغام بھی ریکارڈ کرتا تھا‘ یہ ان کے نام سے پریس ریلیز بھی جاری کرتا تھا اور یہ القاعدہ کے ترجمان کی حیثیت سے امریکی میڈیا کو براہ راست دھمکیاں بھی دیتا تھا‘ 2008ء میں اس کے مرنے کی اطلاعات بھی آئیں اور 2010ء میں اس کی گرفتاری کی خبریں بھی آتی رہیں لیکن یہ زندہ بھی تھا اور متحرک بھی۔ غدن نے اس دوران عربی میں اپنی ٹیب جاری کر کے امریکیوں کو حیران کر دیا‘ یہ اس ٹیپ میں شاندار عربی بول رہا تھا‘ القاعدہ کے ارکان کے مطابق ایڈم یحییٰ غدن انگریزی‘ عربی‘ پشتو اور اردو چاروں زبانوں کا ماہر ہے‘ یہ حلیے کے لحاظ سے مسلمان عالم اور پشتون دکھائی دیتا ہے‘ آپ اسے دیکھ کر‘ اس کے ساتھ گفتگو کر کے ہرگز اندازہ نہیں کر سکتے‘ یہ امریکی ہے اور اس کے ماں باپ امریکی بھی ہیں اور یہودی اور عیسائی بھی۔ یہ آپ کو نسلاً مسلمان دکھائی دے گا۔

ایڈم یحییٰ غدن پچھلے چار برسوں سے افغانستان اور پاکستان میں چھپا بیٹھا ہے‘ یہ خطرے کا شکار ہوتا ہے تو یہ افغانستان چلا جاتا ہے‘ وہاں حالات خراب ہوتے ہیں تو یہ شمالی وزیرستان‘ جنوبی وزیرستان اور بعض اوقات بنوں اور پشاور میں آ جاتا ہے‘ یہ مدارس‘ حجروں اور غاروں میں زندگی گزارتا ہے‘ امریکا اسے گرفتار یا قتل کرنا چاہتا ہے‘ سی آئی اے دس سال کی کوششوں کے بعد ایڈم یحییٰ غدن تک پہنچا‘ یہ پاکستان میں موجود اس کے ٹھکانوں تک بھی پہنچ گیا‘ ایڈم فروری کے ابتدائی دنوں میں ڈرون کے نشانے پر بھی آ گیا مگر امریکی انتظامیہ اس پر میزائل نہیں داغ سکی‘ ایڈم میزائل اور ڈرون حملے سے کیوں بچ گیا؟ اس کی وجہ بہت دلچسپ ہے۔امریکی صدر‘ پینٹا گان اور امریکی سی آئی اے امریکی قوانین کے ہاتھوں بے بس ہیں‘ امریکا کا کوئی ادارہ قانوناً اپنے کسی شہری کو ڈرون حملے میں قتل نہیں کر سکتا‘ سی آئی اے موسٹ وانٹیڈ امریکی شہری پر حملے سے قبل وزارت قانون کی اجازت کی پابند ہے۔

وزارت قانون عدالت کی اجازت کے بغیر یہ اجازت نہیں دے سکتی اور عدالتیں اس وقت تک ایسی اجازت نہیں دیتیں جب تک یہ دوسرے فریق کو نہ سن لیں چنانچہ ایڈم یحییٰ غدن پر قانوناً ڈرون حملہ نہیں ہو سکتا‘ سی آئی اے کے بعد پینٹا گان کے پاس دوسرا آپشن بچتا ہے‘ پینٹا گان فوجی دستے پاکستان بھجوا سکتا ہے‘ امریکا کے فوجی ہیلی کاپٹروں پر پاکستانی علاقے میں آئیں‘ اسامہ بن لادن جیسا آپریشن کریں‘ ایڈم یحییٰ کو فاٹا سے اٹھائیں اور افغانستان چلے جائیں لیکن اس میں دو خطرات ہیں‘ ایک خطرہ ایڈم یحییٰ ہے‘ یہ اگر اس آپریشن کے دوران مارا جا تا ہے اور اس کی ہلاکت کے بعد اگر اس کے والدین امریکا میں پینٹا گان کے خلاف مقدمہ دائر کر دیتے ہیں تو ڈیفنس سیکریٹری چک ہیگل مشکل میں پھنس جائیں گے‘ دوسرا خطرہ پاکستان ہے‘ ایڈم یحییٰ پاکستانی علاقے میں چھپا بیٹھا ہے‘ اسامہ بن لادن کے آپریشن کے دوران پاکستان کو بہت ہزیمت اٹھانا پڑی تھی اور دنیا نے بھی جی بھر کر ساتویں جوہری طاقت کا مذاق اڑایا لیکن کیونکہ امریکا کا ٹارگٹ بہت بڑا تھا اور امریکا اس ٹارگٹ کو اچیو کرنے میں بھی کامیاب ہو گیا تھا۔

چنانچہ پاکستان خاموش رہا‘ پینٹا گان کا خیال ہے اگر ہم نے اس بار ایڈم یحییٰ غدن جیسے چھوٹے ٹارگٹ کے لیے سرحد عبور کی تو پاکستان خاموش نہیں رہے گا اور اگر پاکستان کی طرف سے میزائل داغ دیا گیا یا امریکی ہیلی کاپٹروں کو نشانہ بنا دیا گیا تو امریکا اور پاکستان کے درمیان تعلقات خراب ہو جائیں گے اور یہ وقت اس کے لیے مناسب نہیں کیونکہ امریکا 2014ء میں خطے سے نکلنا چاہتا ہے اور یہ انخلاء پاکستان کے بغیر ممکن نہیں ہوگا چنانچہ پینٹا گان بھی مشکل میں آ گیا ہے تاہم امریکی صدر کے پاس ایسے اختیارات موجود ہیں‘ یہ خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ملک کے کسی بھی ادارے کو غدن کے خلاف کارروائی کا حکم دے سکتے ہیں‘ صدر کو یہ اختیارات انور العولقی کے کیس میں حاصل ہوئے تھے‘ انور العولقی یمنی امریکن تھا‘ اس کے والد 1970ء میں یمن سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکا آئے تھے‘ انور کے والد نصیر العولقی فل برائٹ اسکالر تھے‘ انھوں نے نیو میکسیکو کی اسٹیٹ یونیورسٹی سے ایگریکلچر اکنامکس میں ماسٹر کیا۔

یونیورسٹی آف نبراسکا سے ڈاکٹریٹ کی اور یہ 1975ء سے 1977ء تک یونیورسٹی آف مینی سوٹا میں پڑھاتے رہے‘ یہ بعد ازاں یمن واپس گئے اور یمن کے وزیر زراعت بن گئے‘ انور العولقی 1971ء میں نیو میکسیکو میں پیدا ہوا‘ یہ سات سال کی عمر میں والد کے ساتھ یمن چلا گیا‘یہ گیارہ سال وہاں رہا‘ اس نے وہاں مذہبی تعلیم بھی حاصل کی‘ 1991ء میں واپس امریکا آیا‘ کولوراڈو کالج میں داخلہ لیا‘ کولوراڈو یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ میں بی ایس سی کی‘ پھرسنیٹیا یونیورسٹی سے ایجوکیشن لیڈر شپ کی ڈگری لی‘ پھر جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کی ڈگری لی اور اس کے بعد امریکا کے مختلف اداروں میں کام کرنے لگا‘ اس نے اس کے ساتھ امریکا میں تبلیغ کا کام بھی شروع کر دیا‘ یہ ڈینور کی اسلامک سوسائٹی سے بطور امام وابستہ ہو گیا‘ اس نے امریکا کی طوائفوں کو سیدھا راستہ دکھانے کی کوشش شروع کی‘ پولیس کیس بنا اور یہ چند ماہ جیل میں بھی رہا‘ یہ بعد ازاں نائین الیون کے واقعے کے ذمے داروں میں پایا گیا‘ نائین الیون کے واقعے کا جرمنی کے شہر ہیمبرگ سے بھی تعلق تھا‘ ہیمبرگ کے ایک فلیٹ میں رمزی بن الشبیع مقیم رہا تھا‘اس فلیٹ سے جو ٹیلی فون نمبر ملے ان میں انور العولقی کا نمبر بھی شامل تھا اور یوں سی آئی اے انور کے پیچھے لگ گئی.

انور 2002ء میں امریکا سے فرار ہو کر لندن آگیا‘ یہ 2004ء تک لندن رہا‘ یہ پھر یمن چلا گیا اور یہ یمن کے مختلف شہروں میں چھپتا رہا‘ سی آئی اے اس کا پیچھا کرتی رہی یہاں تک کہ اسے 30 ستمبر 2011ء کو یمن کے صوبے الجوف میں ڈرون حملے میں مار دیا گیا‘ انور العولقی بھی امریکی شہری تھا‘ اس کی ہلاکت کے بعد صدر کو محسوس ہوا‘ میرے پاس انور العولقی جیسے لوگوں کو گرفتار یا مارنے کے لیے خصوصی اختیارات ہونے چاہئیں چنانچہ صدر نے آئین میں ترمیم کے ذریعے یہ خصوصی اختیارات حاصل کر لیے‘ صدر اوبامہ کے پاس اس وقت یہ اختیارات موجود ہیں لیکن یہ ان اختیارات کے استعمال سے گھبرا رہے ہیں کیونکہ یہ سمجھتے ہیں‘ اس معاملے میں اگرذرا سی غلطی ہو گئی تو ان کا مواخذہ ہو جائے گا‘ یہ عدالتی نظام کے شکنجے میں آ جائیں گے ‘ اوبامہ کے اس خوف کی وجہ سے ایڈم یحییٰ غدن روز امریکی ڈرونز کے نشانے پرآتا ہے لیکن کسی کو اس پر حملے کی جرات نہیں ہوتی۔

آپ فرق ملاحظہ کیجیے‘ امریکا نے پاکستان میں 364 ڈرون حملے کیے‘ ان حملوں میں تین ہزار پاکستانی شہید ہو گئے ‘ امریکا نے کسی ایک ڈرون حملے سے قبل ایک لمحے کے لیے نہیں سوچا لیکن پورا امریکا اپنے ایک باغی شہری کے لیے ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر بیٹھا ہے‘ یہ اسے مارنا چاہتے ہیں لیکن مار نہیں رہے‘ یہ ہے رول آف لاء اور اسے کہتے ہیں انصاف کا خوف۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔