بگ تھری ایشو۔۔۔۔ ذکاء اشرف نے قومی ہیرو بننے کا سنہری موقع گنوا دیا

میاں اصغر سلیمی  اتوار 16 فروری 2014
پاکستان میں کرکٹ کے آغاز سے لے کر اب تک پی سی بی کی سربراہی کا تاج پہننے والوں کی دوڑ لگی ہوئی ہے فوٹو: فائل

پاکستان میں کرکٹ کے آغاز سے لے کر اب تک پی سی بی کی سربراہی کا تاج پہننے والوں کی دوڑ لگی ہوئی ہے فوٹو: فائل

آئی سی سی میں پاکستان کی عزت بحال ہو گئی۔ بھارت، انگلینڈ اور آسٹریلیا کے بعد پاکستان کو بھی کرکٹ کے بڑوں میں شامل کر لیا گیا۔

پی سی بی میں مفاد پرستوں، خوشامدیوں اور درباریوں کے تمام راستے بند کر دیئے گئے، چیئرمین کا عہدہ بھی سیاسی بنیادوں پر نہیں بلکہ جمہوری تقاضوں کے مطابق پر کیا جائے گا۔ ایک یا دو، دو ٹیسٹ کھیلنے والے کرکٹرز اب 50 سے زیادہ میچز کھیلنے والے کرکٹرز کی قسمت کے فیصلے نہیں کریں گے، سابق کرکٹرز ذاتی لالچ کی بجائے قومی فریضہ جان کر کر کٹ کی خدمت کریں گے۔کسی وزیر، مشیر، جاگیردار اور صنعتکار کی بجائے اب غریب کے بچوں کو بھی آگے آنے کا موقع ملے گا لیکن افسوس صد افسوس یہ حقیقت نہیں بلکہ خواب ہے، ایسا خواب جو میرے جیسے اس ملک کے لاکھوں شائقین کرکٹ دیکھتے ہیں،وہ یہ تک بھول جاتے ہیں کہ پی سی بی اور اقربا پروری دریا کے وہ دو کنارے ہیںجو ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ نہ جانے ہم یہ کیوں فراموش کر دیتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ تو سونے کی وہ کان ہے جس میں داخل ہونے والے کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوتی ہیں۔کروڑوں اربوں کے فنڈز اس کی صوابدید پر ہوتے ہیں، غیر ملکی دوروں پر وی آئی پروٹوکول ملتا ہے تو لاکھوں، کروڑوں دلوں پر راج کرنے والے کرکٹرز اس کے آگے پیچھے پھرتے ہیں اور پھر کسی بھی ایرے غیرے کو لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ ، لگژی گاڑی سمیت متعدد دوسری سہولیات سے نوازنا تو چیئرمین کے دائیں ہاتھ کا کام ہے۔

اس لئے تو پاکستان میں کرکٹ کے آغاز سے لے کر اب تک پی سی بی کی سربراہی کا تاج پہننے والوں کی دوڑ لگی ہوئی ہے لیکن کہتے ہیں کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس یعنی جس کی حکومت آئی اس نے سیاسی رشوت کے طور پر کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی کرسی پر ایسے شخص کو بٹھا دیاجس کی ذات کی وجہ سے اسے سیاسی فائدہ ہوا ہو۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار2013ء میں پی سی بی کو جمہوری رنگ میں رنگنے کا آغاز ہوا توامید کی کرن نظر آنا شروع ہو گئی کہ اب بورڈ کے فیصلے آمرانہ نہیں بلکہ جمہوری انداز میں ہوں گے لیکن افسوس ذکاء اشرف نے آئین کی بنیاد ہی بددیانتی اور دھوکا دہی پر رکھ دی اور چیئرمین پی سی بی کی پرکشش نشست ہاتھ سے نکل جانے کے ڈر اور خوف سے لاہور اور کراچی سمیت 9 ریجنز پر ایڈہاک لگا کر 4نئے ریجنز بنا دیئے جس سے آئین کی شفافیت پر شروع میں ہی سوالیہ نشان لگ گیا۔

بعد ازاں متاثرہ ریجنز کے ساتھ جاری عدالتی محاذ آرائی کی وجہ سے ذکاء اشرف کو گھر کی راہ لینا پڑ گئی اور ان کی جگہ نجم سیٹھی نے پی سی بی کی نئی کمان سنبھال لی۔ عدالتی فیصلے کے بعد ذکاء اشرف 15 جنوری کو دوسری بار چیئرمین پی سی بی بنے تو ایک بار پھر مفاد پرستوں کے مخصوص ٹولے نے انہیں پوری طرح گھیرے میں لے لیا اور بگ تھری ایشو پر ان سے ایسا فیصلہ کروا دیا جس کا تدارک آئی سی سی کی اگلی میٹنگ میں نہ کیا گیا تو نہ جانے اس کا خمیازہ ہمیں کتنا بھگتنا پڑے۔ 8فروری کو سنگاپور میں ہونے والے آئی سی سی کے اجلاس میں شرکت سے ایک روز قبل ذکاء اشرف نے گورننگ بورڈ کے ساتھ میٹنگ کے بعد پریس کانفرنس کی،جس کے بعد راقم نے ذکاء اشرف کو گورننگ بورڈ کے چند ارکان کی موجودگی میں بگ تھری کی بجائے بگ فور کی تجویز دی۔ میرا یہ کہنا تھا کہ آپ کے بقول پی سی بی کے اصولی موقف کی وجہ سے بھارت، انگلینڈ اور آسٹریلیا بیک فٹ پر آ گئے ہیں تو آپ اس کا بھر پور فائدہ اٹھائیں، انہیں بتائیں کہ ہمیں آپ تینوں بورڈز کی حاکمیت قبول ہے لیکن ہماری بھی ایک شرط یہ ہے کہ پاکستان، سری لنکا اور جنوبی افریقہ میں سے ایک بورڈ ہر 2سال کے لیے روٹیشن پالیسی کے ذریعے کرکٹ کے بڑوں میں شامل ہوگا اور بگ تھری کی طرح چوتھے رکن بورڈکو بھی ویٹو پاور کے استعمال کا حق حاصل ہوگا۔

ظاہر ہے کہ10 میں سے 8ووٹ نہ ملنے کے سبب بگ تھری کا مسودہ منظور نہیں ہو سکے گا اور کرکٹ کے تین بڑوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی بگ فور کی تجویز ماننا پڑے گی۔ یہ تجویز آئی سی سی میں پیش کرنے سے پہلے پاکستان کو سری لنکا اور جنوبی افریقہ کے ساتھ ایک تحریری معاہدہ بھی کرنا چاہیے تاکہ کسی بورڈکے وعدے سے پھرنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ ذکاء اشرف نے اس وقت تو میرے خیالات سے اتفاق کیا لیکن افسوس بعد میں اپنے مشیروں کی باتوں میں آ کر آئی سی سی اجلاس میں شریک ہوئے اور سب کچھ ہار کر واپس آ گئے۔ ذکاء اشرف صاحب کاش آپ نے اس وقت دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہوتا تو آج آپ قومی ہیرو ہوتے،اگر پی سی بی کے پیٹرن انچیف آپ کو کرکٹ بورڈ کی سربراہی سے فارغ کرنے کی جسارت کرتے تو پوری قوم آپ کے ساتھ اسی طرح کھڑی ہوتی جس طرح عوام نے ڈکٹیٹر جنرل(ر) پرویز مشرف اور اپنے وقت کے مضبوط ترین صدر آصف علی زرداری کے خلاف سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کاساتھ دیا تھا۔

نجم سیٹھی صاحب، قدرت نے آپ کو بورڈ کا دوبارہ سربراہ بنا کر اپنی ماضی کی غلطیوں کو سدھارنے کا ایک اور سنہری موقع فراہم کیا ہے۔ گو آپ نے منجمنٹ کمیٹی کے پہلے اجلاس میں متعد د اہم فیصلے کئے تاہم ابھی اور بہت سے انقلابی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔آپ کو ہر گز یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے2 دھڑوں کی وجہ سے ملکی کھیلیں تباہی و بربادی کے آخری کنارے پر کھڑی ہیں۔ اولمپکس سمیت متعدد عالمی ایونٹس میں میڈلز حاصل کرنا تو درکنار اب تو ان میگا ایونٹس تک رسائی ملنے کو ہی غنیمت سمجھا جانے لگا ہے۔ان حالات میں صرف اور صرف ایک گیم کرکٹ ہی باقی رہ جاتی ہے جہاں سے نامساعد حالات کے باوجود اب بھی شائقین کو اچھی خبریں سننے کو مل جاتی ہیں اور کرکٹ ہی وہ کھیل ہے جو اس ملک کے20کروڑ عوام کو تسبیح کے دانوں کی طرح آپس میں جوڑے ہوئے ہے۔ آپ کو یہ بھی جان لینا چاہیے کہ پی سی بی میں گزشتہ ایک عشرہ سے ایسے افراد اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں کہ جن کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر بورڈ کے متعدد چیئرمین گھر کی راہ لے چکے ہیں لیکن کوئی ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکا۔

پی سی بی کے ان مفاد پرست مشیروں کی وجہ سے ملکی کرکٹ تباہی و بربادی کے اس دہانے پر پہنچ چکی ہے کہ جس کی ماضی میں کوئی نظیرنہیں ملتی۔ بگ تھری ایشو پر بھارت، آسٹریلیا اور انگلینڈ نے ہمیں آئوٹ کلاس کر کے رکھ دیا ہے، کرکٹرز ایک دوسرے پرکرپشن کے الزامات لگا رہے ہیں، سا نحہ لاہور کے بعد گزشتہ 5 برس سے ملکی گرائونڈز سونے پڑے ہیں، یہ پی سی بی کی ناکامی نہیں ہے تو اور کیا ہے، اگر کچھ اور نہیں تو پنجاب سپورٹس بورڈ کو ہی دیکھ لیں جہاں وزیر کھیل رانا مشہود احمد خان اور ڈائریکٹر جنرل سپورٹس بورڈ پنجاب عثمان انور کی بدولت ملکی اور انٹرنیشنل کھلاڑیوں کا میلہ لگا ہوا ہے اور جہاں اس ملک کے نوجوان گینز بک آف دی ورلڈ میں اپنا نام لکھوا کر ملک کی نیک نامی کا باعث بن رہے ہیں۔ جناب چیئرمین یاد رکھیے وقت کا پہیہ بڑا ظالم ہوتا ہے جو کسی کو معاف نہیں کرتا، لوگ آتے جاتے رہتے ہیں لیکن تاریخ ان شخصیات کو یاد رکھتی ہے جن کے پاس کارنامے ہوتے ہیں۔ قسمت نے ایک بار پھر آپ کے دروازے پر دستک دی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ آپ اس موقع سے کتنا اور کس حد تک فائدہ اٹھاتے ہیں۔

[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔