تھرپارکرمیں اہم شخصیات کےقدم اسپتال میں پڑتےہی دروازےبند، بچی باہردم توڑ گئی

ویب ڈیسک  پير 10 مارچ 2014
بچے غذائی قلت کا شکار ہوکر نمونیا، بخار، دست و قے، خون و وزن کی کمی اور ہیپا ٹائیٹس جیسے موذی امراض کاشکار ہورہے ہیں۔ فوٹو؛ایکسپریس نیوز

بچے غذائی قلت کا شکار ہوکر نمونیا، بخار، دست و قے، خون و وزن کی کمی اور ہیپا ٹائیٹس جیسے موذی امراض کاشکار ہورہے ہیں۔ فوٹو؛ایکسپریس نیوز

مٹھی: اہم شخصیات کی تھر پارکر آمد کے موقع سیکیورٹی حکام کی جانب سے اسپتال کے دروازے مریضوں کے لئے بند کردیئے گئے جس کے باعث 3 سالہ بچی باہر ہی دم توڑ گئی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیراعظم نواز شریف، بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ تھر میں قحط سالی اور دیگر بیماریوں کے باعث ہونے والی اموات کا جائزہ لینے کے لئے مٹھی کے اسپتال پہنچے تو سیکیورٹی حکام کی جانب سے اسپتال کے دروازے مریضوں کے لئے بند کرکے چیک اپ کےلئے باہر ہی او پی ڈی مرکز قائم کردیا گیا اور کسی مریض کو علاج کےلئے اندر داخل  ہونے کی اجازت نہ دی گئی جس کے باعث گوٹھ موڈور کی 3 سالہ بچی باہر ہی اپنے باپ کے ہاتھوں میں دم توڑ گئی۔ بچی کی موت کے بعد اسپتال انتظامیہ نے 3 سالہ بچی کی موت کا رجسٹر میں انداراج ہی نہیں کیا تاکہ اعلیٰ حکام تک پہنچنے والی تعداد میں اضافہ نہ ہوجائے۔

تھر کے ریگستان کی تپتی زمین مسلسل بھوک اگلتی رہی اور درجنوں ننھی کلیاں غذائی قلت کا شکار ہوکر موت کی آغوش میں جاتی رہیں لیکن حکمرانوں اور انتظامیہ کے کانوں میں جوں نہ رینگی۔ اپنے حال میں مست ان بااختیار لوگوں کو میڈیا نے خواب غفلت سے جگاتو دیا لیکن اب بھی صورت حال میں کسی بھی قسم کی بہتری نظر نہیں آرہی۔ بچے غذائی قلت کا شکار ہوکر نمونیا، بخار، دست و قے، خون و وزن کی کمی اور ہیپا ٹائیٹس جیسے موذی امراض کاشکار ہورہے ہیں، جب کہ حاملہ خواتین بھی خوراک نہ ملنے کے باعث آئرن کی کمی کا شکار ہیں۔ حیدر آباد میں زیر علاج مزید 4 بچے بھوک اور پیاس سے نڈھال ہوکر ابدی نیند جا سوئے ہیں جس کے بعد جاں بحق بچوں کی تعداد 128 سے ہوگئی ہے۔ ڈاکٹروں کےمطابق حاملہ خواتین اور نوزائدہ بچوں کو بیماریوں سے بچانے کے لیے ان خواتین کو وٹامن اور آئرن کی ادویات کی سخت ضرورت ہے۔

صحرائے تھر میں امدادی سرگرمیوں کا مرکز ضلعی ہیڈ کوارٹر مٹھی بنا ہوا ہے، جہاں سندھ حکومت، پاک فوج  اور رینجرز کے علاوہ مختلف سیاسی، مذہبی اور سماجی جماعتوں نے اپنے اپنے امدادی کیمپ لگا رکھے ہیں تاہم ضلع کے 2 ہزار 700 سے زائد دیہات میں صورتحال  بدتر ہے، جہاں اب تک نہ تو امداد پہنچی ہے اور نہ ہی میڈیکل ٹیمیں جس کے باعث یہاں کے مکینوں کی حالت بھوک و بیماری سے انتہائی خراب ہے۔ لوگ اپنے مال مویشیوں کے ہمراہ مٹھی اور اسلام نگر کی جانب نقل مکانی کررہے ہیں لیکن ہزاروں افراد اس سفر سے بھی قاصر ہیں اور وہ امداد کے سہارے اپنی سانسیں کاٹ رہے ہیں اور موت ان کا تعاقب کررہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔