ماریہ ملر، بس ڈرائیور اور تربیت

راؤ منظر حیات  جمعـء 11 اپريل 2014
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

کیا سیاست اور اعلی اخلاقی قدروں میں کوئی واجبی سا بھی تعلق ہے؟ کیا کسی ملک میں بلند کردار کے لوگوں سے محروم ہو کر زندہ رہا جا سکتا ہے؟ میں اس موضوع پر جتنا سوچتا ہوں اتنا ہی فہم کو بوجھل محسوس پاتا ہوں۔ کئی بار احساس ہوتا ہے کہ اس مشکل سوال کا جواب جانتا ہوں۔ مگر اکثر محسوس ہوتا ہے کہ مجھے سوال اور جواب دونوں کا کوئی ادراک نہیں ہے۔ اگر اسی سوال کو اعلیٰ بیورو کریسی اور اخلاقی توازن کے تناظر میں پرکھا جائے، تو اس کا جواب بھی ناممکن نظر آتا ہے۔اصل میں ان قیامت خیز سوالات کا جواب بہت آسان ہے۔ اس کا جواب منافقت سے پاک سچائی کے جوہر میں ہے۔ اگر جھوٹ ہمارا اوڑھنا بچھونا بن جائے۔ اگر ہم اپنی مقدس ترین کتاب کی آیات مبارکہ کو صرف تقریر میں وزن پیدا کرنے کے لیے استعمال کریں اور اُس کے مقصد کو نافذ نہ کریں، تو حشر وہی ہو گا جو اس وقت ہمارا ہو رہا ہے۔ گرمیٔ بازار میں لفظوں اور تقریروں کی حکومت ہے۔ باقی معاملات صریحاً بگاڑ کی طرف جا رہے ہیں۔

ونسٹن چرچل دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کا اہل ترین وزیر اعظم تھا۔ اس نے ایک جگہ تقریر کرتے ہوئے کہا تھا”کہ میں برطانیہ کو ہر بیرونی طاقت سے محفوظ رکھ سکتا ہوں، مگر میں برطانیہ کو برطانوی لوگوں سے محفوظ نہیں رکھ سکتا”۔  آج یہ فقرہ ہمارے حالات پر بھی پورا بیٹھتا ہے۔ پاکستان کو ہمارے سیاسی اکابرین اور درباری سرکاری ملازموں کے منفی رویوں سے بچانا ناممکن نظر آتا ہے۔ گمان ہوتا ہے کہ گزشتہ تیس سال میں ہم نے ملکی بیوروکریسی کا بھرکس نکالنے کے بعد اب اہم قومی اداروں کی طرف توجہ مرکوز کر لی ہے۔ تمام صاحبان فہم اس وقت رنجیدہ اور فکر مند ہیں۔ مگر ناپختہ بیانات اور ذاتیات پر مبنی تجزیہ زہر قاتل کا کام کر رہا ہے۔

چند دن پہلے ایک زمانہ شناس امریکی پروفیسر (Marvin G. Weinbaum) لاہور آئے ہوئے تھے۔ یہ پاکستان، افغانستان اور امریکا کے معاملات پر گزشتہ چالیس برس سے گہری نظر رکھتے ہیں۔ میں نے ان کا لیکچر بڑے انہماک سے سنا۔ پروفیسر کے نزدیک قومی سطح کے الیکشن محض جمہوریت کے ضابطہ(Procedure) کا حصہ ہیں۔ یہ ازخود جمہوریت نہیں ہیں۔ یہ بات انھوں نے پاکستان کے تناظر میں دلیل سے کی۔ وہ یونیورسٹی آف الی نائو(Illinois) میں تاحیات پروفیسر ہیں۔ یہ بات بہت غور طلب اور سنجیدہ ہے۔ پروفیسر کے نزدیک جمہوریت ایک رویہ کا نام ہے جس میں غریب اور کچلے ہوئے لوگوں کو نظام کا اہم حصہ بنایا جاتا ہے۔ اس میں اقلیتوں کو شامل کیا جاتا ہے۔ اس میں اپنے ذہن کے خلاف بات سننے کا حوصلہ کرنا پڑتا ہے۔ اس میں اداروں کو شخصی پسند اور ناپسند سے بالاتر ہو کر اصول کی بنیاد پر چلانا ہوتا ہے۔ یہ اصول صرف ایک ہے۔”پاکستان کا قومی مفاد” ذرا سوچیے! کیا واقعی ہم ایک جمہوری ملک ہیں۔ میں رویوں کو دیکھنے کے بعد اس نظام کو جمہوری نہیں کہہ سکتا۔ شائد آپ مجھ سے اختلاف کریں، جو آپ کا بنیادی حق ہے۔

ماریہ ملربرطانوی حکومت کی انتہائی فعال اور محنتی وزیر تھی۔ اُس کو وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کا حد درجہ اعتماد حاصل تھا۔ ملر کے متعلق لوگوں کا تاثر تھا کہ وہ سیاست کی دوڑ میں وزیراعظم ہائوس تک جا سکتی ہے۔ وزیر اعظم نے اس کو کلچر، میڈیا اور کھیلوں کا شعبہ دے رکھا تھا۔ وہ وزیر اعظم کی ٹیم کی وائس کپتان کی حیثیت رکھتی تھی۔ سیاست میں آنے سے دس سال پہلے اس نے اپنے ذاتی پیسوں اور بینک کے قرضے سے ومبلڈن میں ایک گھر خریدا۔ یہ اس کا اپنا گھر تھا۔ 2005ء میں وہ ہائوس آف کومنز کی ممبر بن گئی۔ ممبر کے طور پر حکومت نے اس کو استحقاق دے رکھا تھا کہ وہ جس گھر کو سیاسی سرگرمیاں کے لیے استعمال کرتی ہے،اس کے اخراجات حکومت برداشت کرے گی۔ اس کا یہ طریقہ کار وضع کیا گیا تھا کہ ممبر ہائوس آف کامنز میں لکھ کر دے گا کہ یہ گھر اس کے استعمال میں ہے اور یہ اسے سیاسی سرگرمیوں کے لیے استعمال کر رہی یا رہا ہے۔ ماریہ ملر نے ممبر بننے کے بعد 2005ء سے اپنے ومبلڈن والے گھر کے عوض برطانوی سرکار سے پیسے وصول کرنے شروع کر دیے۔

2009ء میں “ڈیلی ٹیلی گراف” اخبار نے خبر دی کہ کئی ارکان پارلیمنٹ برطانوی حکومت کی جانب سے دی گئی اس رعایت کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ برطانیہ میں اس خبر کے بعد ایک کہرام مچ گیا۔ عام لوگوں نے اپنے ٹیکس پر چلنے والے برطانوی حکومتی نظام پر سخت تنقید شروع کر دی۔ ان کے لیے یہ سوچ ہی ناقابل برداشت تھی کہ عوام کے ٹیکس کے دیے ہوئے پیسوں سے سیاست دان ناجائز فائدہ اٹھا سکتے ہیں! برطانوی حکومت شدید دبائو کا شکار ہو گئی۔ 2010ء میں ایک “آزاد اسٹینڈرڈ اتھارٹی” بنائی گئی۔ اُس کو اختیار دیا گیا کہ وہ اس تمام معاملہ کو پرکھے اور اس کے بعد اپنی سفارشات پیش کرے۔

ہر الیکشن کی طرح اس برطانوی الیکشن میں بھی ڈیوڈ کیمرون، گورڈن برائون اور نک کلیگ نے کئی عوامی وعدے کیے کہ وہ سیاست میں تبدیلی لے کر آئینگے اور کسی بھی طرح کی کرپشن اور بے ضابطگی کو برداشت نہیں کرینگے۔ اس طرح کے نعرے ہمارے ملک کے الیکشن میں بھی لگائے گئے مگر آج تک لوگوں کی تکلیف کو حقیقت میں کم کرنے کے ٹھوس قدم نہیں اٹھائے گئے۔ میں تو اب الیکشن میں سیاست دانوں کی طرف سے جذباتی نعروں کو ایک فریب یا جھوٹ سے زیادہ کچھ نہیں گردانتا۔ لیکن صاحبان! جس الیکشن کی میں عرض کر رہا ہوں وہ برطانیہ میں دو سال پہلے ہو رہا تھا۔ وہاں کے سیاسی حالات ہمارے سیاسی نظام کے اعتبار سے بہت پختہ اور ٹھوس روایات پر قائم ہیں۔

گھروں کے معاملے میں جعلی کلیمز کی تحقیقات کے نتیجہ میں کئی اَن ہونے فیصلے ہوئے۔ برطانوی پارلیمنٹ کے کئی ممبران، جیسے ایرک السلی، ایسٹ مارلے اور ڈیوڈ جیسٹر جیسے نامور سیاست دانوں کو جیل بھیج دیا گیا۔ دوسرے لفظوں میں ان کو ہمیشہ کے لیے سیاست سے باہر کر دیا گیا۔ 2012ء میں ماریہ ملر کی ذمے داری میں انتہائی اہم اضافہ کیا گیا۔ اس کو حکومت کی طرف سے برطانوی میڈیا کے متعلق حکومتی پالیسی کا انچارج بنا دیا گیا۔ یہ سرکاری سطح پر انتہائی حساس ذمے داری تھی۔ اس دوران ماریہ ملر کے متعلق ہائوس آف کامنز میں یہ شکایت آئی کہ وہ ومبلڈن میں جس گھر کے اخراجات وصول کرتی رہی ہے، دراصل وہ خود وہاں نہیں رہتی بلکہ وہاں اس کے والدین قیام پذیر ہیں۔ یہ شکایت فوری طور پر اس اتھارٹی کے حوالے کر دی گئی جو برطانوی پارلیمنٹ نے اسی طرح کی شکایات کا جائزہ لینے کے لیے بنائی تھی۔

کارتھی ہڈسن نے اس معاملہ کو چودہ مہینے تک انتہائی باریکی سے جانچا۔ ہڈسن نے کئی جگہ پر اس امر کا ذکر کیا کہ ماریہ اس کے سوالات کی ای میلز کے صیحح جواب نہیں دیتی۔ مگر ملر ہمیشہ یہ کہتی رہی کہ وہ نہ صرف مکمل جواب دے رہی ہے بلکہ وہ اس انکوائری کے سامنے بے بس ہے۔ ایک سال کی ریاضت کے بعد یہ رپورٹ ہائوس آف کامنز میں پیش کر دی گئی۔ ماریہ کی معاشی بے ضابطگی ثابت ہو گئی۔ اُس کے لیے دو اقدامات تجویز کیے گئے۔ پہلا یہ کہ وہ 5800 برطانوی پائونڈ حکومتی خزانے میں جمع کروائے اور دوسرا وہ اپنے طرز عمل پر برطانوی پارلیمنٹ میں معافی مانگے۔

5800 پائونڈ تقریباً آٹھ سے ساڑھے آٹھ لاکھ پاکستانی روپوں کے برابر بنتے ہیں۔ کمیٹی کو یہ بھی گلہ تھا کہ ماریہ ملر اس کمیٹی کے ساتھ وہ تعاون نہیں کرتی رہی جو واقعی اسے کرنا چاہیے تھا۔ ملر نے ہائوس آف کامنز میں جاکر اجلاس کے دوران معافی مانگی۔ یہ تیس سیکنڈ کا بیان تھا۔ اس کی معافی کے بعد معاملات اور بگڑ گئے۔ برطانوی پریس اور سیاستدانوں نے یہ محسوس کیا کہ ماریہ کا معافی مانگنے کا طرز عمل اور وتیرہ ٹھیک نہیں تھا۔ ایسے لگتا تھا کہ اسے معافی مانگنا بہت ناگوار گزر رہا تھا۔ اس کے لہجے میں رعونت تھی۔ اس کی معافی کو ناقابل قبول قرار دے دیا گیا۔

لیکن اس دوران ایک اور واقعہ ظہور پذیر ہوا جس نے اس ایشو کو مزید عوامی اہمیت کا حامل بنا دیا۔ “ڈیلی ٹیلیگراف”  کے سابقہ ایڈیٹر ٹونی گالیگر نے بیان دے دیا کہ جب ماریہ ملر کے خلاف انکوائری جاری تھی اور اس کا اخبار اس انکوائری کی خبروں کو روزانہ چھاپ رہا تھا۔ اس عرصے میں ماریہ کے زیر اثر ایک سرکاری ڈائریکٹر”کریگ اولیور” نے اسے فون کیا تھا۔ کریگ نے ایڈیٹر کو یہ کہا تھا کہ ماریہ کے گھر کے اخراجات کے سکینڈل کی خبروں کو اس وقت چھاپنا نامناسب ہے جب کہ وہ برطانوی پریس کے متعلق حکومتی پالیسی ترتیب دے رہی ہے اور اس پورے نظام کی انچارج ہے۔ اولیور نے اس کی فوری تردید کر دی۔ مگر ایڈیٹر نے اُس گفتگو کی ریکارڈ شدہ سی ڈی ریلیز کر دی۔ شدید عوامی رد عمل اور میڈیا میں سب کچھ شایع ہونے کے بعد چند روز پہلے ماریہ نے استعفیٰ دے دیا۔

ساجد جاوید کو اب یہ اہم ذمے داری سونپی گئی ہے اور انھیں وہ تمام محکمہ دیے گئے ہیں جو ماریہ ملر کے پاس تھے۔ ساجد جاوید کے والد ساٹھ کی دہائی میں پاکستان سے لندن ہجرت کر گئے تھے۔ جب انھوں نے زندگی کا سفر شروع کیا تو ان کی جیب میں صرف ایک پائونڈ تھا۔ وہ دن میں دو سے تین نوکریاں کرتے تھے۔ جس میں بس ڈرائیور کی نوکری بھی شامل تھی۔ ساجد کے پانچ بھائی ہیں۔ وہ انتہائی سفید پوشی کے عالم میں تعلیم حاصل کرتا رہا۔ مگر اب وہ ایک امتیازی حیثیت کا وزیر ہے۔ کیا پاکستان میں بس ڈرائیور کا بیٹا وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ یا وزیر بن سکتا ہے؟ میری دانست میں اس کا تصور بھی ناممکن معلوم ہوتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ماریہ ملر کو بے ضابطگی اور کرپشن میں ٹریننگ کی اشد ضرورت ہے! اسے اس کورس کے لیے فوراً پاکستان آ جانا چاہیے! یہاں اس کو آٹھ لاکھ کے بجائے آٹھ ارب روپے کی کرپشن کرنے کی تربیت دینے کے لیے اساتذہ کراچی، لاہور، اسلام آباد بلکہ ملک کے ہر کونے میں موجود ملیں گے! ماریہ ملر کو ہمارے ان استادوں کی تربیت کا فوری فائدہ اٹھانا چاہیے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔