کھڑی نیم کے نیچے

سعید پرویز  بدھ 16 اپريل 2014

جی نہیں لگ رہا، تھر کے مناظر دل دہلا رہے ہیں، مائی بھاگی کی سریلی آواز بھی تھر کے دم توڑتے بچوں اور بین کرتی ماؤں کے ساتھ گھل مل گئی ہے۔ بانہوں میں چوڑا پہنے، بسنتی، شربتی رنگوں کے کپڑے، گھونگھٹ کاڑے عورتیں، بین کر رہی ہیں۔ ریت کے آنسو رکنے میں نہیں آ رہے، دور دور تک پھیلا صحرا اور اس کے رنگ سوگ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ تھری ثقافت، مصوروں کا برش، کینوس تھری دوشیزاؤں کی آنکھوں کا کاجل سرکتے پلو سے جھلکتا حسن، ناچتے مور، خمیسو خان کا الغوزہ، محمد جمن کے گیت، عابدہ پروین کے الاپ، تانیں’’دھوم چرکڑا سایاں دا، تیری کتن والی جئے‘‘ یہ سارے رنگ یہ ساری آوازیں موت کے رقص میں شامل ہو کر عجب رنگ ہو گئی ہیں۔

تھرکی ثقافت کے رنگ محلوں میں سجے ہوئے ہیں اور تھر کے جھونپڑوں سے رونے کی صدائیں آ رہی ہیں۔ نیل کے ساحل پر کوئی کتا اگر بھوکا پیاسا مر گیا، تو خلیفہ عمرؓ جواب دہ ہو گا۔ آج کے حکمرانوں کا کیا بنے گا؟ یہاں تو انسان بھوکے پیاسے مر رہے ہیں۔ تھرکے صدر مقام کا نام مٹھی ہے۔ مگر تھر کے باشندے زہریلا پانی پیتے ہیں۔ جانور انسان اور ایک ہی تالاب۔ 65 سال بعد بھی پاکستان میں انسانوں کو صاف پانی میسر نہیں۔ ان 65 سالوں میں کون کون حکمران آئے اور عیش کر کے، ظلم کر کے، لوٹ مار کر کے، مرکھپ گئے، آج ان ہی ظالموں کی اولاد حکمران ہے اور ان کے وہی کرتوت ہیں جو ان کے بزرگوں کے تھے۔ پتہ نہیں کتنے الیکشنوں کے بعد اسمبلیاں ٹھیک ہوں گی۔ ہوں گی بھی یا نہیں، جو حالات ہیں ان سے کچھ اچھا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔پتہ نہیں کس شاعر کا شعر ہے، مگر حسب حال ہے:

وہ مجھ سے پوچھتے ہیں درد کدھر ہوتا ہے

ایک جا ہو تو بتاؤں کہ ادھر ہوتا ہے

اتنے برے حالات ہیں اور وزرا جھوٹ بولے جا رہے ہیں ذرا خوف خدا نہیں۔ نواز شریف، عمران خان کے گھر چلے گئے، اس واقعے نے دکھی عوام کو بہت سکون بخشا۔ امید کے جگنو جلنے بجھنے لگے۔ ملک ریاض ٹیلی ویژن پر کہہ رہے تھے ’’میں اپنے کل سرمائے کا 75 فیصد پاکستان کے عوام کے مسائل حل کرنے پر خرچ کر دوں گا‘‘۔ تھرکے علاقے میں ریاض ملک صاحب کے تین موبائل اسپتال فوری طور پر روانہ ہوئے جہاں وہ کام کر رہے ہیں۔ ریاض ملک صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارے لوگ چھ ماہ تک تھر میں رہیں گے، جہاں 1300 فٹ نیچے پینے کے قابل پانی موجود ہے اب پورے تھر میں پینے کا صاف پانی دستیاب ہو گا، ہم تھر میں مستقل اسپتال اور اسکول بھی قائم کریں گے‘‘۔ ریاض ملک جو کہہ رہے ہیں اگر وہ یہ کر گئے تو جیسے معجزات ہو جائیں گے۔ پاکستان کے غریب عوام کو حکمرانوں نے ایسے ایسے سبز باغ دکھائے ہیں۔ عوام نے اتنے دھوکے کھائے ہیں کہ اب کسی کا اور کسی بات کا یقین نہیں رہا۔ اللہ کرے ریاض ملک جو کہہ رہے ہیں وہ ہو بھی جائے۔

سنا ہے تھر سے نکل کر قحط سالی کا عفریت چولستان میں داخل ہو گیا ہے۔ ٹی وی اسکرین پر ایک ریڑھے میں سامان لدا ہوا تھا۔ اور کہا جا رہا تھا کہ چولستان سے نقل مکانی شروع ہو گئی ہے۔ ابھی پچھلے سال اپریل 2013ء میں بابا غلام فریدؒ کے مزار پر حاضری دی تھی،کوٹ مٹھن میں بابا کا ڈیرا ہے۔ پٹھانے خان کی آواز پورے علاقے میں راج کرتی نظر آئی ’’مینڈھا عشق وی توں مینڈا یار وی توں‘‘ اللہ میرے بابا کے علاقے کو آباد رکھے۔ یہ بابے روشنی کے مینارے ہیں، بابا غلام فرید کی کافیوں نے لوگوں کو جینے کے رنگ ڈھنگ سکھائے ہیں۔ زاہدہ پروین کیا غضب کی کافی گاتی تھیں :

تتی رو رو میں واٹھ نہاراں

کدی سانول موڑ مہاراں

تھر سے بات شروع ہوئی تھی اور چولستان جا پہنچی۔ تھر اور چولستان ایک ہی ہیں۔ سندھ اور سرائیکی ایک دوجے سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے رنگ روپ ایک جیسے ہیں۔ رہن سہن بھی ملتا جلتا ہے۔ اپریل چڑھ آیا ہے۔ سورج نکلتا ہے جیسے سوا نیزے پر آ گیا ہو۔ آگ برساتا ہے، لق و دق صحرا اور اوپر سورج۔ سوچ رہا ہوں کیا تھر اور چولستان کے لوگ ان ہی حالوں میں رہیں گے؟ پانی کی تلاش میں سرگرداں مویشی ان کے سانس پورے ہو جاتے ہیں۔ ان کی آہوں کا اثر نہیں ہوتا۔ ان کی خبر کوئی نہیں لیتا۔ ایک ماہ سے اوپر ہو گیا۔ روز ہی چار پانچ بچے مر رہے ہیں اور اموات کا یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا۔ حکومت سندھ نے اپنے وزیر کو معطل کیا تھا۔ پھر سنا کہ وزیر کو بحال کر دیا، چلو اچھا کیا۔ مگر تھر کے آفت زدگان کب بحال ہوں گے؟ تھر کے آنسو کب تھمیں گے؟ میں کس سے ان سوالوں کے جواب طلب کروں۔ مجھے تو دور دور کوئی جواب دینے والا نظر نہیں آرہا۔ کوئی بتائے کس سے پوچھوں، کوئی نہیں، کوئی نہیں۔

تھر کے بھوکے پیاسے لوگو! تھر کے بیمار بچو! اجڑی کوکھ والی ماؤں! لگتا ہے کربلا کا معرکہ ختم نہیں ہوا۔ سارے منظر، سارے سفر، صعوبتیں جاری ہیں۔ ویسے ہی دربار بھی سجے ہوئے ہیں اور معاشرے کے سارے ’’اونچے لوگ‘‘ دربار کے ساتھ ہیں۔ جبہ و دستار، محراب و منبر سارے کے سارے دربار کے ساتھ۔ اور دوسری طرف العطش العطش کی آوازیں آ رہی ہیں۔ میں کیا کروں فرات پر آج بھی پہرے ہیں، پانی پر قبضہ ہے، اناج بھی ان کے گوداموں میں ہے، خلق خدا کو بھوکا پیاسا مار کر جن کے سطوت شاہی کے جلال میں اور اضافہ ہوجاتا ہے اور رعایا کو سر اٹھانے کا خیال تک نہیں آتا۔تھر کی بھوک اور پیاس، خانہ بدوشی، تپتی ریت، اجڑی چراگاہیں اور اگر کبھی قدرت مہربان ہو جائے، مینہ برسے، صحرا جل تھل ہو جائے، ہریالی ابھر آئے، مویشی چرنے لگیں، مور ناچنے لگیں، اور کہیں سے آواز آنے لگے ’’کھڑی نیم کے نیچے میں تو ہے کلی‘‘

بس یہی تھر ہے، یہی تھر کی ثقافت ہے۔ اپنے دکھوں سمیت تھر! ویران، تو کبھی قدرت مہربان، حاکم نامہربان، تھری ثقافت آرٹ کے نمونے ایئرکنڈیشنڈ گیلریوں، پانچ ستارہ بلڈنگوں، بڑے ایوانوں میں سجے ہوئے ہیں، لوگ دیکھتے ہیں، خوش ہوتے ہیں، کوئی پیسے والا، منہ مانگے دام دے کر تھری ثقافت خرید کر گھر لے جاتا ہے، اپنے در و دیوار سجا لیتا ہے مہنگے کھانے اور پینے کے اہتمام کے ساتھ محلفیں جمتی ہیں، قہقہے لگتے ہیں اور دور بہت دور تھر کے ریگزاروں میں اعلیٰ ثقافت کے مالک خود کو زندگی کی دوڑ سے باندھے گھسٹ رہے ہوتے ہیں۔ تھر کی ثقافت یہی گھسٹنا ہے۔ یہ ایک کلاس ہے، اسے تبدیل نہیں ہونے دینا۔ اس کلاس کو بھوکا پیاسا رکھنا ہے۔ یہ کلاس بدل گئی تو تھر کی اعلیٰ ثقافت مر جائے گی۔ شاہکار ختم ہو جائیں گے، محل، سرائیں، آرٹ گیلریاں اجڑ جائیں گی، پینے پلانے کی محفلیں نہیں رہیں گی، بڑا نقصان ہو جائے گا۔

تھر کی ثقافت کو زندہ رکھنا ہے، تھری مرتے ہیں، بھلے مریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔