سیاسی جماعتوں میں عسکری ونگ

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  بدھ 16 اپريل 2014
advo786@yahoo.com

[email protected]

رمضان کا مہینہ تھا، عدالت چل رہی تھی جس میں پولیس سب انسپکٹر وانا کے چار دہشت گرد ملزموں کو پیش کر کے جج صاحب سے ان کے ریمانڈ کی استدعا کر رہا تھا، جج نے ملزمان سے پوچھا تمہارا کوئی وکیل ہے؟ انھوں نے کہا نہیں صاحب، ہم تو تین دن پہلے ہی مولک سے آیا ہے، جج نے سوال کیا تم نے کیا کیا ہے؟ ایک ملزم بولا صاحب! ہم تینوں بھائی مولک سے آیا تھا، سہراب گوٹھ پر گاڑی سے اتارا تو پولیس نے ہمیں پکڑ لیا، ہمارے پاس 10 ہزار روپے تھا وہ بھی چھین لیا ہے، ایک پستول تھا وہ بھی لے لیا ہے، جج نے ملزم سے دریافت کیا کہ تمہارے پاس پستول کا لائسنس ہے، ملزم نے کہا صاحب وہ کیا ہوتا ہے، اس دوران ملزم اپنی نمناک آنکھوں کے ساتھ اپنی داستان سناتے ہوئے رو پڑا اور کہنے لگا صاحب آج تیسرا دن ہے ہمیں پانی کے سوا کچھ کھانے پینے کو نہیں ملا، ہم لوگ فاقے سے ہیں۔

ملزموں کا لب و لہجہ بڑی حد تک ان کے بیان کی صداقت کی گواہی دے رہا تھا، عدالت کا ماحول بھی افسردہ ہو چکا تھا۔ پولیس سب انسپکٹر کے چہرے پر بھی ندامت و پشیمانی کے تاثرات تھے۔ جج نے پولیس اہلکار سے مخاطب ہوکر کہا کہ دہشت گرد ایسے ہوتے ہیں، تمہارے ڈی ایس پی نے پریس کانفرنس کر دی کہ وانا کے خطرناک دہشت گردوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان کو فوراً کھانا کھلائو اور پتہ چلائو کہ ان کے پیسے کس نے لیے ہیں اور کل پھر عدالت میں پیش کرو۔

پولیس میں جہاں فرض شناس اور ایماندار اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے افسران و اہلکار موجود ہیں وہیں ایسے افراد کی بھی بہت بڑی تعداد موجود ہے جو گناہ گار اور بے گناہوں میں فرق کی تمیز ہی نہیں رکھتے، جن میں دو بڑے عوامل دبائو اور مفادات شامل ہیں جو جن کا شکار کانسٹیبل سے لے کر محکمہ پولیس کے سربراہ تک نظر آتے ہیں۔ پولیس چیف کے سربراہ کہہ چکے ہیں کہ سیاسی جماعتیں دہشت گردوں کی سرپرستی چھوڑ دیں۔ ہم جرائم پر قابو پا لیں گے۔ انھوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ ہر سیاسی جماعت کے عسکری ونگ موجود ہیں یہی بات سپریم کورٹ میں بھی سامنے آئی تھی۔

پولیس میں خوشامد اور مفادات کا کلچر بری طرح پروان چڑھ چکا ہے، چھوٹے اہلکاروں کی کامیابی کا سہرا بڑے افسران اپنے سر باندھ لیتے ہیں، شہریوں کی جانب سے مقابلے میں ہلاک مجرموں کی ہلاکتوں کو پولیس مقابلہ ظاہر کر کے ترقی و انعامات حاصل کرتے ہیں اور کسی بے گناہ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کو شہریوں کی کارروائی قرار دے کر خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں ایسا متعدد بار ہوا ہے حکومتی سیاسی دبائو کی وجہ سے مجرموں کی رہائی اور خوشامد، اقربا پروری اور سیاسی پشت پناہی پر خود ساختہ کہانیوں پر انعامات و کرامات، ترقیوں و تعیناتیوں اور شولڈر پروموشن جیسے اقدامات نے عام پولیس اہلکاروں میں فرسٹریشن اور بد دل پیدا کر کے محکمہ کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

ہفتہ کے روز ایکسپریس میں ایس ایس پی فاروق اعوان کی ایک بازیاب بچے اور اس کی ماں کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے تصویر شایع ہوئی ہے ، کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا گیا کہ مغوی بچہ سعد کو اس کا باپ جہانگیر اس کی ماں ارم سے چھین کر لے گیا تھا اور اسے سوتیلی ماں کے حوالے کر دیا تھا۔ جہانگیر کی ارم کے ساتھ پانچویں شادی 2002ء میں ہوئی تھی۔ چپقلش کی وجہ سے بیوی میکے چلی گئی، عدالت میں مقدمہ زیر سماعت تھا، جہانگیر بچے سے ملاقات کے لیے آیا تو بچے کو زبردستی اپنے ساتھ لے گیا اور اسے اپنی تیسری بیوی کے حوالے کر دیا جس پر ارم نے بچے کے والد پر حبس بے جا کا مقدمہ دائر کر دیا تھا، پولیس تفتیش اور جہانگیر کی گرفتاری اور گھر کی تلاشی کے باوجود بچہ بازیاب نہیں ہو سکا، بعد ازاں 2012ء میں جہانگیر کا انتقال ہو گیا تھا اب ایس آئی یو پولیس نے معمہ حل کرتے ہوئے تیسری بیوی کی تحویل سے بچہ برآمد کرلیا۔

پولیس نے مغوی بچے کی تلاش و بازیابی کے لیے اشتہارات شایع کیے تھے اور حکومت سندھ نے مغوی بچے کی بازیابی اور تلاش میں مدد دینے والے کے لیے 10 لاکھ روپے نقد کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔ بچے نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایاکہ والد اس کا بہت خیال رکھتے تھے اور پانچویں جماعت میں پڑھ رہا ہے اس کی خواہش تھی کہ امی ابو ساتھ رہیں، بچے کی والدہ نے کہاکہ اس نے کافی جگہوں پر چکر کاٹے اور ان کے بیٹے کی بازیابی فاروق اعوان کی وجہ سے ہی عمل میں آئی۔

ارم کا جہانگیر سے پانچویں بیوی کی حیثیت سے نکاح کرنا اور بچے کا یہ کہنا کہ ابو میرا بڑا خیال رکھتے تھے اور وہ تعلیم بھی حاصل کر رہا ہے اس واقعے کی سنگینی اس سے مماثل دیگر واقعات سے کم ظاہر کرتا ہے ملک اور خاص طور پر کراچی شہر میں جاری کشت و خون اور جرائم سے کثیف فضا میں اس عائلی نوعیت کے جرم کی سنگینی انتہائی کم اور ثانوی سی نظر آتی ہے اور جرائم کی فہرست میں ترجیح کے لحاظ سے یہ ہزارویں نمبر پر ہو گا، پھر قتل، اغوا، تاوان، بھتہ گیری، ڈکیتی اور دہشتگردی کے دیگر ہزاروں واقعات و مقدمات میں ملوث مطلوب اور مفرور مجرموں کی گرفتاری پر اس بچے کی باپ کی تحویل سے برآمدگی کے لیے پولیس کے اشتہارات اور حکومت کی جانب سے 10 لاکھ کا انعام مقرر کیا جانا بڑا تعجب خیز محسوس ہوتاہے۔

بچے کی 8 سال بعد بازیابی پر ایس ایس پی کی جانب سے پریس کانفرنس کا انعقاد اور اس پریس کانفرنس میں بچے کی والدہ کے یہ الفاظ کہ ان کے بیٹے کی بازیابی فاروق اعوان کی وجہ سے ہی عمل میں آئی ہے اس جملے میں لفظ ’’ہی‘‘ بڑا معنی خیز نظر آتا ہے۔ 8 سال بعد بچے کے باپ کی تحویل سے بچے کی برآمدگی کوئی بہت بڑا کارنامہ ہے یا پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان؟ جس کی قیمت حکومت کو اشتہارات اور انعام کی صورت میں لاکھوں روپوں میں ادا کرنی پڑے؟ کیا یہ ایسی کارکردگی تھی جسے پولیس کا اعلیٰ افسر پریس کانفرنس کر کے عوام کے سامنے پیش کرے اور داد تحسین کا مستحق قرار پائے؟

کیا ایسے جرائم زدہ شہر میں جہاں ہر روز درجنوں بے گناہ زندگیاں تلف کی جا رہی ہوں، بینک لٹ رہے ہوں، بینکوں کے لاکرز اور جوہریوں کی دکانوں کی دیواریں توڑ کر ڈکیتیاں ہو رہی ہوں، جرائم پیشہ عناصر دندناتے پھر رہے ہوں، پولیس افسران نمائشی قسم کی غیر ضروری پریس کانفرنسیں اور اپنے خاندان کے ہمراہ غیر ممالک میں تعطیلات منا رہے ہوں، جب کہ پولیس کی پیشہ ورانہ کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ بار بار تنبیہ کے باوجود عدالتوں میں مقدمات کے چالان پیش نہیں ہوتے یا تاخیر سے پیش کیے جاتے ہیں۔ مقدمات کی تفتیش بروقت اور سلیقے سے نہیں کی جاتی ہیں، سمن و دیگر عدالتی احکامات کی عدم تعمیل میں یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ متعلقہ افسران موجود نہیں تھے۔ میٹنگز میں تھے، شہر کی ہنگامی صورت حال، نفری کم ہونے، وقت نہ ملنے اور دیگر محکمہ وارانہ مصروفیت کی وجہ سے احکامات کی تعمیل نہیں کی جا سکی۔

کسی بھی ادارے کے ملازمین کی کار کردگی ان کے ذہنی سکون، احساس تحفظ، بہتر حالات کار اور ترغیب (Motivation) سے مشروط ہوتی ہے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں مارے جانے والے پولیس اہلکاروں کے جنازوں پر سیکیورٹی کے پہرے میں کھڑے ہو کر بلند و بانگ پر عظم بیانات اور اعلانات سے پولیس کا مورال بلند کیا جا سکتا ہے نہ ہی انھیں موٹی ویٹ کیا جا سکتا ہے، حد تو یہ ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں مارے جانے والے پولیس اہلکاروں اور عوام کے لیے معاوضے کا اعلان کرنے یا نہ کرنے اور اس کی مالیت کے سلسلے میں بھی محکمہ پولیس اور حکومت دونوں امتیاز برتتی ہیں ان کی شرح میں بعض اوقات زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے، اس سلسلے میں باقاعدہ ایک پالیسی مرتب ہونی چاہیے۔ محکمہ پولیس میں سیاسی عمل دخل اور نوازا اور لاڈلہ گروپ کی نوازشات اور بندر بانٹ کی کارستانیوں کو ختم نہ کیا گیا تو جان و مال کی شدید تحفظات کے شکار اور ذہنی دبائو کے حامل پولیس اہلکار اجتماعی طور پر نفسیاتی عوارض کے شکار ہو کر محکمے کی کارکردگی مزید خرابی کا باعث بنیںگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔