- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبریں، امریکا نے اسرائیل سے جواب طلب کرلیا
- وزارتِ صنعت و پیداوار نے یوریا کھاد درآمد کرنے کی سفارش کردی
- ٹی20 ورلڈکپ؛ 8 بار کے اولمپک گولڈ میڈلسٹ یوسین بولٹ سفیر نامزد
- کہوٹہ؛ بس میں ڈکیتی کے دوران ڈاکو کی فائرنگ سے سرکاری اہلکار جاں بحق
- نوجوان نسل قوم کا سرمایہ
- اسلام آباد میں روٹی کی قیمت میں کمی کا نوٹیفکیشن معطل
- کیا رضوان آئرلینڈ کیخلاف سیریز میں اسکواڈ کا حصہ ہوں گے؟ بابر نے بتادیا
- ویمنز کوالیفائر؛ آئی سی سی نے ثنامیر کو ’’برانڈ ایمبیسڈر‘‘ مقرر کردیا
- پی او بی ٹرسٹ عالمی سطح پر ساڑھے 3لاکھ افراد کی بینائی ضائع ہونے سے بچا چکا ہے
- ایف بی آر نے ایک آئی ٹی کمپنی کی ٹیکس ہیرا پھیری کا سراغ لگا لیا
- سیاسی نظریات کی نشان دہی کرنے والا اے آئی الگوردم
- خاتون ڈاکٹرز سے علاج کرانے والی خواتین میں موت کا خطرہ کم ہوتا ہے، تحقیق
- برطانیہ میں ایک فلیٹ اپنے انوکھے ڈیزائن کی وجہ سے وائرل
- فیصل واوڈا نے عدالتی نظام پر اہم سوالات اٹھا دیئے
- پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط 29 اپریل تک ملنے کا امکان
- امریکی اکیڈمی آف نیورولوجی نے پاکستانی پروفیسر کو ایڈووکیٹ آف دی ایئر ایوارڈ سے نواز دیا
- کوہلو میں خراب سیکیورٹی کے باعث ری پولنگ نہیں ہوسکی
- 9 ماہ کے دوران 9.8 ارب ڈالر کا قرض ملا، وزارت اقتصادی امور ڈویژن
- نارووال: بارات میں موبائل فونز سمیت قیمتی تحائف کی بارش
3 نومبر کی ایمرجنسی میں زاہد حامد کا بھی کردار تھا، رپورٹ
اسلام آباد: ایف آئی اے نے 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی لگانے میں نواز شریف کابینہ کے اہم رکن زاہد حامد اورشوکت عزیز حکومت کے 2 درجن کے قریب سینئر حکام اور سیاسی رہنمائوں کے کردار کو محسوس کیا اور اس کا ابتدائی رپورٹ میں ذکرکرتے ہوئے نواز شریف سے تحقیقات کا دائرہ دیگرافراد تک وسیع کرنے کی اجازت مانگی تھی۔
ذرائع نے ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کوبتایا کہ حکومت نے 3 نومبر کی ایمرجنسی میں مشرف کا ساتھ دینے والوں کے خلاف تحقیقات کے لیے اجازت نہیں دی۔ ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے خالد قریشی، ڈائریکٹر حسین اصغر اور ڈائریکٹر مقصود الحسن پر مشتمل پینل نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ غداری کیس کی تحقیقات میں قانونی ضروریات پوری کرنے کے لیے مشرف کے مبینہ معاونین کی تحقیقات بھی ضروری ہیں۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے ٹیم 3 نومبر کی ایمرجنسی میں بلاواسطہ یا بالواسطہ کردار ادا کرنے والوں کے حوالے سے تحقیقات کرنا چاہتی تھی۔ ایف آئی اے ٹیم نے اپنی رپورٹ میں مشرف کی ایمرجنسی کو غیرقانونی قرار دیا، باقاعدہ مقدمہ درج کرنے کا کہا اور اس کے ساتھ ہی تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنے کی بھی اجازت مانگی۔
ایف آئی اے کی طرف سے تحقیقاتی ٹیم کو فراہم کردہ ریکارڈ کے مطابق شوکت عزیز کی کابینہ نے 3 نومبر کی صبح ایمرجنسی کی منظوری دی تھی، کابینہ کے اجلاس میں زاہد حامد اور دیگر وزرا موجود تھے۔ اسی روز شام کو مشرف نے ایمرجنسی نافذ کردی تھی۔ ایف آئی اے ٹیم نے گورنرز، وزرائے اعلیٰ، سیکریٹری داخلہ سمیت 2 درجن کے قریب اعلیٰ حکام کے بیانات ریکارڈ کیے تھے اور یہ بیانات رپورٹ کا حصہ ہیں۔ سرکاری ریکارڈ کے جائزے سے ایف آئی اے پینل کو معلوم ہوا کہ زاہد حامد مبینہ طور پر اعلامیے کا مسودہ تیار کرنے میں شامل تھے اور یہی مسودہ کابینہ کے اجلاس میں پیش کیا گیا۔ ایمرجنسی کے نفاذ میں زاہد حامد کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت ہونے کے باوجود پینل کو ہمت نہیں ہوئی کہ وہ انھیں بیان ریکارڈ کرانے کے لیے بلا سکیں۔
پینل نے اسٹبلشمنٹ ڈویژن کے فراہم کردہ لیٹر کے حوالے سے سابق وزیراعظم شوکت عزیز کو بھی کوئی ٹونس جاری نہیں کیا۔ ایف آئی اے انکوائری صرف رٹائرڈ یا کم درجے کے حکام تک محدود رہی۔ رپورٹ میں پرویز مشرف کا بیان شامل نہ ہونا بھی رپورٹ کے قابل بھروسہ ہونے پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ایف آئی اے ٹیم نے پرویز مشرف کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے ملاقات طے کی تھی مگر بعد میں ادھوری رپورٹ ہی وزارت داخلہ کو بھجوا دی۔ موقف جاننے کے لیے وفاقی وزیر زاہد حامد سے رابطے کی کوشش کی گئی مگر انھوں نے فون اٹینڈ نہیں کیا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔