3 نومبر کی ایمرجنسی میں زاہد حامد کا بھی کردار تھا، رپورٹ

عارف رانا  جمعرات 17 اپريل 2014
ایف آئی اے رپورٹ میں مشرف کا بیان شامل ہے نہ ٹیم کوتحقیقات کا دائرہ بڑھانے کی اجازت ملی۔ فوٹو: فائل

ایف آئی اے رپورٹ میں مشرف کا بیان شامل ہے نہ ٹیم کوتحقیقات کا دائرہ بڑھانے کی اجازت ملی۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: ایف آئی اے نے 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی لگانے میں نواز شریف کابینہ کے اہم رکن زاہد حامد اورشوکت عزیز حکومت کے 2 درجن کے قریب سینئر حکام اور سیاسی رہنمائوں کے کردار کو محسوس کیا اور اس کا ابتدائی رپورٹ میں ذکرکرتے ہوئے نواز شریف سے تحقیقات کا دائرہ دیگرافراد تک وسیع کرنے کی اجازت مانگی تھی۔

ذرائع نے ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کوبتایا کہ حکومت نے 3 نومبر کی ایمرجنسی میں مشرف کا ساتھ دینے والوں کے خلاف تحقیقات کے لیے اجازت نہیں دی۔ ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے خالد قریشی، ڈائریکٹر حسین اصغر اور ڈائریکٹر مقصود الحسن پر مشتمل پینل نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ غداری کیس کی تحقیقات میں قانونی ضروریات پوری کرنے کے لیے مشرف کے مبینہ معاونین کی تحقیقات بھی ضروری ہیں۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے ٹیم 3 نومبر کی ایمرجنسی میں بلاواسطہ یا بالواسطہ کردار ادا کرنے والوں کے حوالے سے تحقیقات کرنا چاہتی تھی۔ ایف آئی اے ٹیم نے اپنی رپورٹ میں مشرف کی ایمرجنسی کو غیرقانونی قرار دیا، باقاعدہ مقدمہ درج کرنے کا کہا اور اس کے ساتھ ہی تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنے کی بھی اجازت مانگی۔

ایف آئی اے کی طرف سے تحقیقاتی ٹیم کو فراہم کردہ ریکارڈ کے مطابق شوکت عزیز کی کابینہ نے 3 نومبر کی صبح ایمرجنسی کی منظوری دی تھی، کابینہ کے اجلاس میں زاہد حامد اور دیگر وزرا موجود تھے۔ اسی روز شام کو مشرف نے ایمرجنسی نافذ کردی تھی۔ ایف آئی اے ٹیم نے گورنرز، وزرائے اعلیٰ، سیکریٹری داخلہ سمیت 2 درجن کے قریب اعلیٰ حکام کے بیانات ریکارڈ کیے تھے اور یہ بیانات رپورٹ کا حصہ ہیں۔ سرکاری ریکارڈ کے جائزے سے ایف آئی اے پینل کو معلوم ہوا کہ زاہد حامد مبینہ طور پر اعلامیے کا مسودہ تیار کرنے میں شامل تھے اور یہی مسودہ کابینہ کے اجلاس میں پیش کیا گیا۔ ایمرجنسی کے نفاذ میں زاہد حامد کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت ہونے کے باوجود پینل کو ہمت نہیں ہوئی کہ وہ انھیں بیان ریکارڈ کرانے کے لیے بلا سکیں۔

پینل نے اسٹبلشمنٹ ڈویژن کے فراہم کردہ لیٹر کے حوالے سے سابق وزیراعظم شوکت عزیز کو بھی کوئی ٹونس جاری نہیں کیا۔ ایف آئی اے انکوائری صرف رٹائرڈ یا کم درجے کے حکام تک محدود رہی۔ رپورٹ میں پرویز مشرف کا بیان شامل نہ ہونا بھی رپورٹ کے قابل بھروسہ ہونے پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ایف آئی اے ٹیم نے پرویز مشرف کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے ملاقات طے کی تھی مگر بعد میں ادھوری رپورٹ ہی وزارت داخلہ کو بھجوا دی۔ موقف جاننے کے لیے وفاقی وزیر زاہد حامد سے رابطے کی کوشش کی گئی مگر انھوں نے فون اٹینڈ نہیں کیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔