نیاروس، نیا امریکا اور ہم ……

تشنہ بریلوی  جمعرات 17 اپريل 2014

دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔کیوں نہ بدلے ؟یہ سال 2014ہے ۔ ٹھیک سو سال قبل 1914 میںپہلی عالمگیر جنگ شروع ہوئی تھی جس نے چار بادشاہتوں کو ختم کیا ۔مارکسزم اور فاشزم کو جنم دیا اور دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ۔اب2014بھی بڑے امکانات کے ساتھ جلوہ گر ہوا ہے اور جو سب سے اہم صورت سامنے آرہی ہے وہ روس اور امریکا کے وقار اور اقتدار میں کشمکش ہے۔روس زور دکھا رہا ہے اور امریکا کچھ پیچھے ہٹ رہا ہے ۔مگر زبردست رسہ کشی جاری ہے ۔شاید اب واحد سپر پاور کا دور لَد چکا ہے اور ایٹم بم کا وجود بھی ختم ہوچکا ہے اس کی جگہ دہشت و وحشت نے لے لی ہے ساری دنیا دانتوںتلے انگلی دبائے تماشہ دیکھ رہی ہے۔

تماشہ گاہ عالم میں تماشہ ہم بھی دیکھیں گے

گرے گا پھڑپھڑاتا کس کا لاشہ ہم بھی دیکھیں گے

روس میں اس وقت صدر پوٹن مردِ آہن ہیں جو مضبوط اعصاب اور مضبوط جسم کے مالک ہیںاور کے بی جی کے سابق افسر کے طور پر جوڑ توڑ کے ماہر ہیں۔مگر داستان راسپوٹین سے شروع ہوتی ہے ۔وہ ایک ’’جعلی پیر‘‘ تھا جس نے سو سال پہلے معذور شہزادے کے ’’روحانی معالج‘‘ کی حیثیت سے زاراور زارینہ کو اپنا ’’مرید‘‘ بنایا اور حکومت پر قبضہ جمایا۔نتیجہ انقلاب در انقلاب رومانوف بادشاہت کا خاتمہ اور ‘ زار کے پورے خاندان کا اندوہناک قتل اور کمیونسٹ دور کا آغاز۔

دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر سوویت یونین کا رقبہ بہت بڑھ گیا، نیز مشرقی یورپ اوروسطی ایشیا کے ایک درجن سے زیادہ ممالک اس کے زیر نگیں آگئے مگر اقتصادی مشکلات اور گوربا چوف کی حماقتوںکی وجہ سے سوویت یونین ٹوٹ گیا۔گوربا چوف کے بعد یلسن بھی بہت کمزور ثابت ہوا۔لہذا جب پوٹن نے پندرہ سال پہلے اقتدار پر قبضہ کیا تو امریکا دنیا کی واحد سپر پاور بن چکاتھا اور روس اپنے زخم چاٹ رہاتھا۔

روس کو نپولین نے فتح کرنے کی کوشش کی اور وہ بری طرح ناکام رہا۔ سوا سو سال پہلے ہٹلر نے بھی روس پر بڑا حملہ کیا اور منہ کی کھائی۔پھر امریکا میں صدر جارج بش اور اس کی وزیر خارجہ کونڈو لیز ارائس نے منصوبہ بنایا کہ روس کے گرد ایک نکلیر شیلڈ قائم کی جائے ’’اسٹونیا‘‘ سے لے کر ’’بلگاریا‘‘ تک۔ اور بالآخر روس کو کمزور کرکے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے جائیں۔انہوں نے جارجیا کے صدر میخائل ساکاش ویلی کو روس کے خلاف کھڑا کیا لیکن جب روس نے جوابی کارروائی کرکے ابخازیہ اور جنوبی اوستیا پر قبضہ کرلیا تو امریکی کچھ نہ کرسکے ۔

امریکا ‘پولینڈچیک ری پبلک‘اور ہنگری میں جوہری میزائل نصب کرکے ان ممالک کو خطرے میں ڈال رہا ہے ۔ روس کے لیے غریب ترین یوکرین اور بیلا روس خاص طور پر بہت اہم ہیں۔چونکہ یہ دونوں ’’روس کی طرح‘‘مشرقی سلاو نسل سے تعلق رکھتے ہیں دونوں میں ایسٹرن آرتھو ڈاکس عیسائیت کو مانا جاتا ہے اور دونوں سیریلیک رسم الخط استعمال کرتے ہیں۔جبکہ خطے کا تیسرا بڑا ملک پولینڈ مغربی سلاو نسل سے تعلق رکھتا ہے۔

رومن کیتھولک ہے اور اس کا رسم الخط لاطینی ہے۔مزید یہ کہ یوکرین تو روس کے اتنا قریب تھا کہ اسٹالن کے بعد خرد چیف اور پھر بریزنیف دونوں یوکرین سے آئے تھے ۔اور اسی قربت کے نتیجے میں روس نے 1954میں کریمیا کا اپنا بے حد اہم علاقہ یوکرین کو تحفے میں پیش کردیاتھا اس وقت کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتاتھا کہ یوکرین ایک الگ ملک بن کر امریکا کے قریب آجائے گا ۔یہ وہی علاقہ ہے جہاںسیو اسٹو پول میں روسی بحری اڈہ ہے اور جہاں1953میںجنگ کریمیا برپا ہوئی تھی جس میں برطانیہ اور فرانس نے ترکی کا ساتھ دے کر زار کی طاقت کو کم کرنے کی کوشش کی تھی۔بحر اسود کی نگرانی یہیں سے ہوتی تھی اور باسفورس اور دریائے نیل کے ذریعے بحر روم کو بھی کنٹرول کیا جاتاتھا۔

اب ذرا امریکا پر نظر ڈالتے ہیں۔اور دیکھتے ہیں کہ 1945میں جاپان پر ایٹم بم گرانے والا دنیا کا چودھری اب کہاں کھڑا ہے ؟گزشتہ ستر سال کے دوران ساری دنیا پر امریکا چھایا رہا ہے۔مگر ویت نام اور ایران میں اس نے شکست کھائی ہے۔وہ دنیا کی مضبوط ترین اور امیر ترین طاقت ہے اور اپنے طرز زندگی ‘ اپنی فلموں ‘ اپنے تعلیمی اداروں اور اپنی صنعتی ترقی کی وجہ سے روس سے زیادہ پسندیدہ ملک بھی رہا ہے۔روسی یا چینی ’’گرین کارڈ‘‘ حاصل کرنے کے لیے کون بے قرار ہوگا جبکہ امریکا میں رہائش کے لیے کون تیا ر نہیں۔

لیکن اب شاید امریکا بھی تغیر کی زد میں ہے ۔کوریا ، ویت نام ‘انڈونیشیا ‘ افریقہ‘ عراق ‘ افغانستان وغیرہ میں قتل و غارت کی انتہا کرنے کے نتیجے میں امریکا نے خوکو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔وہ جارجیا اور یوکرین کی مدد کو نہیں آسکا صرف زبانی حمایت کرتارہا۔اُدھر چین بھی آگے بڑھ رہا ہے۔اس کے باوجود امریکا اب بھی بے حد طاقت ور اور دولت مند ہے ۔ساتھ ہی ساتھ وہ ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی اپنا کوئی حریف نہیں رکھتا ۔مجموعی طور پر روس اب بھی امریکا سے پیچھے ہے۔اگرچہ اس کی خوشحالی میں بہت اضافہ ہوا ہے۔

نہایت مناسب ہوگا اگر روس اور امریکا مفاہمت کے لیے تیار ہوجائیں اور دہشت گردی اور غربت کے خاتمے کے لیے سر گرم ہوجائیں۔اب کوئی بھی ہٹلر اور اسٹالن بننے کی کوشش نہ کرے۔چین، ہندوستان، پاکستان اور دوسرے ممالک اس عالمی اشتراک کا حصہ بنیں تاکہ اکیسویں صدی امن وسکون کے ساتھ عالمی خوشحالی کے گلستان میں داخل ہوسکے ۔

ہے زمانے بھر میں یارو دہشت و وحشت کا راج

اے خدا ہم کو عطا کر دانش و حکمت کا راج

ان حالات میں کیا کرنا چاہیے ؟پاکستان ویسے ہی مشکلات میں گھرا ہوا ہے ۔ہمارے ارد گرد زبردست تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں۔ ہندوستان میں نیا وزیر اعظم (شاید نریندر مودی)آنے والا ہے۔افغانستان میں نیا صدر (شاید عبداللہ عبداللہ)۔ ایران روٹھا ہوا ہے۔سعودی عرب کے کچھ نئے مطالبات ہیں۔روس افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کرے گا۔افسوس صد افسوس کہ ہمارے رہنما ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے

جگا سکو تو جگائو کہ ناخدا دیکھے

طواف موج بلا بادباں سے دور نہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔