آئی پی ایل؛ پاکستانیوں کے بعد اب مسلم کرکٹرز کو بھی باہر کیا جانے لگا

اسپورٹس ڈیسک  جمعـء 18 اپريل 2014
پہلے سیزن میں23 پلیئرز نے حصہ لیا، رواں ایڈیشن میں صرف 10مسلمان ایکشن میں ہیں، شکیب الحسن واحد غیر ملکی۔ فوٹو: فائل

پہلے سیزن میں23 پلیئرز نے حصہ لیا، رواں ایڈیشن میں صرف 10مسلمان ایکشن میں ہیں، شکیب الحسن واحد غیر ملکی۔ فوٹو: فائل

ابوظبی: آئی پی ایل سے پاکستانیوں کے بعد اب مسلم  کرکٹرز کو بھی باہر کیا جانے لگا، بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق کولکتہ کی ٹیم میں بھارتی آل رائونڈر یوسف پٹھان اور بنگلہ دیش کے شکیب الحسن شامل ہیں۔

البتہ دیگر سائیڈز میں ایسے مزید نام سننے کو نہیں ملتے، پیسہ کمانے کی مشین کہلانے والی اس لیگ میں مسلم کھلاڑیوں کی نمائندگی ہر نئے سیزن کے ساتھ تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے۔2008 میں لیگ کا آغاز ہوا تو اسے ایک گلوبل فیملی کا نام دیا گیا تھا لیکن ہر موسم کے ساتھ یہ لیگ مختلف وجوہات کے سبب مسلم پلیئرزکی پہنچ سے باہر ہوتی گئی، پہلے سیزن کی8 ٹیموں میں مختلف ممالک کے 23 مسلم کرکٹرز موجود تھے،2014 میں تمام ٹیموں کے مجموعی کھلاڑیوں کی تعداد 177 لیکن ان میں مسلمان صرف 10 اور واحد غیر ملکی شکیب الحسن ہیں،2013 میں یہ تعداد 19 تھی۔  پہلے سیزن میں لیگ میں سب سے زیادہ 6 مسلم کھلاڑیوں کو شامل کرنے والی ٹیم راجستھان رائلز کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ یہ ایک حساس مسئلہ ہے، ہماری ٹیم نے کسی بھی کھلاڑی کو اس کے مذہب کی بنیاد پر کبھی منتخب نہیں کیا۔

شروع سے ہی ٹیم کی ضرورتوں اور اخراجات کو کنٹرول کرنے کی کوشش جاری ہے،اس کا نقصان کسی ایک مذہبی برادری کو نہیں بلکہ تمام کھلاڑیوں کو اٹھانا پڑا‘راجستھان کی ٹیم میں اب واحد مسلم کھلاڑی لیفٹ آرم اسپنر اقبال عبداللہ ہی ہیں۔ صرف سیاسی یا اسٹریٹجک وجوہات کی وجہ سے ہی لیگ سے مسلم کھلاڑی باہر نہیں ہوئے،اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے بھی اچانک سین سے غائب ہو گئے، کامران خان اس کی ایک مثال ہیں،دوسرے سیزن میں اتر پردیش کے اعظم گڑھ کے ایک گاؤں سے آنے والے کامران کو لیا گیا تھا، وہ اپنے مختلف ایکشن اور آف اسٹمپ کی پرفیکٹ یارکرکی وجہ سے اچانک اسٹار بن گئے، پھر چوٹ کی وجہ سے تیسرے سیزن میں لیگ سے باہر ہونے کے بعد انھیں پوچھنے والا کوئی نہیں رہا،ایک سال پہلے تک وہ اپنے کھیتوں میں کام کر رہے تھے،گذشتہ سال انھوں نے سری لنکا کے کولٹس کرکٹ کلب کی نمائندگی کا اعزاز پایا لیکن واپس آنے کے بعد انھیں منتخب کرنے والا کوئی نہیں تھا۔

البتہ لیگ میں مقبوضہ جموں کشمیر کے اسپنر پرویز رسول کو ضرور موقع ملا، وہ گذشتہ سال سے سن رائزرز حیدرآباد کے ساتھ ہیں، اننت ناگ کے رہنے والے پرویز رسول نے کہا کہ آئی پی ایل میرے لیے بڑی ایجوکیشن رہی اور پہچان بھی ہے،اب مجھے لوگ سڑک پر پہچانتے ہیں،اس سے میری زندگی پر بہت فرق آیا۔ دوسری جانب نومبر 2008 میں ممبئی پر حملے کے بعد سے کسی بھی پاکستانی کھلاڑی کو لیگ کی کسی ٹیم میں جگہ نہیں ملی، پہلے سیزن میں شاہد آفریدی (دکن چارجرز)، محمد آصف اور شعیب ملک (دہلی ڈیرڈیولز)، محمد حفیظ، شعیب اختر، عمر گل اور سلمان بٹ (کولکتہ نائٹ رائیڈرز)، کامران اکمل، یونس خان اور سہیل تنویر (راجستھان رائلز) لیگ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے لیگ نے پاکستانی کھلاڑیوں سے دوری اختیار کرلی جو ہنوز جاری ہے۔

ماضی میں کولکتہ نائٹ رائیڈرز کی ٹیم مینجمنٹ کا حصہ رہنے والے ایک اہلکار نے پاکستانی کھلاڑیوں کے بارے میں ایک سوال پرکہا کہ ’’سچ بتائوں تو وہ آئی پی ایل کی بڑی کشش تھے، یہ بھی صحیح ہے کہ ممبئی میں حملے کے باوجود بھارتی حکومت  نے پاکستانی کھلاڑیوں کو ویزے جاری کیے تھے لیکن ٹیمیں چاہتے ہوئے بھی انھیں پھر سے اپنے ساتھ نہیں رکھ سکیں،انھیں خطرہ تھا کہ پاکستانی پلیئرز کی شرکت والے میچز میں بعض گروپس کی جانب سے رکاوٹ ڈالی جا سکتی ہے، کوئی بھی بڑا نقصان اٹھانے کو تیار نہیں تھا‘‘۔ پاکستانی کھلاڑیوں کو اس وقت نظر انداز کیا گیا جب انھوں نے 2009 میں آئی سی سی ورلڈ ٹی 20 جیتا تھا۔اگرچہ 2012ء میں پنجاب کنگز الیون نے سابق پیسر اظہر محمود کو اپنی ٹیم میں لیا لیکن انھیں برطانوی شہری کی حیثیت سے منتخب کیاگیا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔