تناؤ عارضی ثابت، فوج اور حکومت پھر ایک صفحے پر آگئی

احمد منصور  جمعـء 18 اپريل 2014
اتفاق اچھا شگون ہے، فوجی عہدیدار، بالغ نظری کا مظاہرہ کیا گیا، فوجی حلقوں سے باخبر شخصیت. فوٹو؛ایکسپریس نیوز

اتفاق اچھا شگون ہے، فوجی عہدیدار، بالغ نظری کا مظاہرہ کیا گیا، فوجی حلقوں سے باخبر شخصیت. فوٹو؛ایکسپریس نیوز

اسلام آباد: فوج پر تنقید سمیت اہم امور پراختلاف رائے کے نتیجے میں تنائو کی کیفیت عارضی ثابت ہوئی، وسیع تر قومی مفاد سول ملٹری اختلافات پر غالب آ گیا، فوج اور حکومت ایک بار پھر ایک صفحے پر آگئے ہیں۔

ذمہ دار ذرائع سے حاصل ہونیوالی اطلاعات کے مطابق سیاسی و عسکری قیادت جس میں بلاشبہ وزیراعظم نواز شریف اور پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کو ہی مرکزیت حاصل ہے ، نے اتفاق کیا ہے کہ تمام معاملات کو ملکی بقا، سلامتی کی نظر سے دیکھتے ہوئے ہی آگے بڑھنا ہے، کوئی بھی ایسی بات جس سے ملکی بقا، سلامتی کو خطرہ لاحق ہو جائے، اسے ہر صورت طے کرنا ہے اور خرابی کو ٹھیک کرنا ہے مزید خراب نہیں کرنا ۔ جیسے مشرف کیس سے جڑے حکومتی وزراء سمیت مختلف حلقوں کی طرف سے دیئے گئے سخت بیانات کو بادی النظر میں فوج پر تنقید سمجھا گیا جس کے نتیجے میںجنم لینے والی بے چینی اور تحفظات کا سفر پاک فوج کے افسروں ، جوانوں سے ہوتا ہوا عسکری قیادت تک پہنچا تو بات سول ملٹری تعلقات میں تنائو تک پہنچ گئی۔

اسی حوالے سے جب ایک باخبر فوجی عہدیدار سے رابطہ کیا گیا تو ان کا جواب تھا ’’ اہم ایشوز پر مشاورتی عمل کے دوران فریقین کی رائے ایک جیسی نہیں ہوتی، اس عمل کے دوران بعض مواقع پر اختلاف رائے اختلافات کی شکل بھی اختیار کر جاتا ہے مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ فریقین میں کوئی میچ پڑ گیا ہے‘‘ وزیراعظم کی زیر صدارت گزشتہ روز ہونیوالے قومی سلامتی کمیٹی کے اہم اجلاس کے فیصلوں کو عسکری قیادت کس نظر سے دیکھ رہی ہے، اس سوال کے جواب میں فوجی عہدیدار کا کہنا تھا ’’ اس طرح کی میٹنگز میں ملکی دفاع کے معاملے پر پایا جانیوالا اتفاق ایک اچھا شگون ہے‘‘ فوجی حلقوں کی رائے سے باخبر ایک اہم شخصیت نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا’’ سسٹم کو سب مان رہے ہیں۔

اختلافات کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی مارشل لاء آ رہا ہے، اگر رائے میں کوئی فرق ہو یا کسی معاملے پر اختلاف رائے ہو بھی جائے تو اس کا فوری طور پر یہ مطلب نہیں نکال لیا جانا چاہیے کہ سسٹم کو کوئی خطرہ ہو گیا ہے‘‘ اس شخصیت کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ فوج جمہوری نظام کے تسلسل پر یقین رکھتی ہے اور اس حوالے سے اپنا کردار نبھانے میں پرعزم بھی ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ سول ملٹری تعلقات میں بہتری کا کریڈٹ کسے جاتا ہے تو ان کا کہنا تھا ’’دونوں اطراف سے بالغ نظری، معاملہ فہمی اور ملکی مفاد کو مقدم رکھنے کا مظاہرہ کیا گیا ہے‘‘۔ وزراء کے بیانات ، جن سے فوج پر تنقید کا تاثر ملا، اس کا کیا ہو گا؟ اس سوال پر فوجی عہدیدار نے امید ظاہر کی ’’ اب جب معاملات درست انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں تو پھر ایسی باتوں کا خدشہ ظاہر کرنا ایک فضول بات ہو گی‘‘۔ انھوں نے اشارہ دیا کہ کچھ دنوں سے اداروں کے احترام میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہو گا جسے فوجی حلقے بھی مثبت نظر سے دیکھ رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔