ننھے فرشتوں پر جھپٹتے شیطان

 ہفتہ 19 اپريل 2014
بچوں سے زیادتی کے واقعات ہمارے سماج پر کلنک کا ٹیکا ہیں. فوٹو: فائل

بچوں سے زیادتی کے واقعات ہمارے سماج پر کلنک کا ٹیکا ہیں. فوٹو: فائل

سید بابر علی، کراچی

بچے معصومیت اور پاکیزگی کی علامت ہیں، چناں چہ انھیں پھول سے تشبیہہ دی جاتی ہے اور ’’ننھے فرشتے‘‘ کہا جاتا ہے۔

شرم اور افسوس کے الفاظ اس حقیقت کے اظہار کے لیے بہت چھوٹے ہیں کہ ہمارے ہاں یہ پھول بے دردی سے مسلے جارہے ہیں اور ان ننھے فرشتوں پر شیطان جھپٹ کر ان کی معصومیت چھین رہے ہیں۔ یہ الم انگیز اور شرم ناک واقعات ’’بچوں سے زیادتی‘‘ کا عنوان پاتے اور ہمارے سماج کے چہرے پر سیاہی مل جاتے ہیں۔

زیادتی کا شکار بچے اور ان کے اہل خانہ ساری زندگی کرب کا شکار رہتے ہیں۔ ایک دہائی قبل تک پاکستانی معاشرے میں بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے واقعات کی شرح بہت کم تھی، لیکن اس شرح میں ہر گزرتے سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 2013 میں 3002 بچوں کے ساتھ زیادتی کی گئی، جو کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں 7.67 فی صد زاید ہے۔ 2012 میں 2788 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ 2010 اور 2011 میں بچوں سے زیادتی کے بالترتیب 2255 اور2303 واقعات کی رپورٹ درج ہوئی۔ 2012 میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے 2788 واقعات کی رپورٹ درج کرائی گئی، متاثرہ بچوں میں 799 لڑکے اور 1989 لڑکیاں شامل تھیں۔ ان میں سے تقریباً چھے فی صد بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’’انیشیئیٹر ہیومن ڈیولپمنٹ ‘‘ کے صدر رانا آصف حبیب کا کہنا ہے،’’زیادہ تر 6 سے 14 سال کی عمر کے بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جن میں سے زیادہ تعداد بچیوں کی ہوتی ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ پاکستان بھر میں 28 سے 30 ہزار دکانیں ایسی ہیں جہاں زیادتی کا نشانہ بننے والوں کی موبائل ویڈیوز کی خرید وفروخت ہوتی ہے۔ لاہور، پشاور اور کراچی کے کچھ کاروباری مراکز اس گھناؤنے کاروبار کا گڑھ ہیں۔‘‘

اُن کا کہنا ہے ’’سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ ’پاکستان پینل کوڈ‘ میں ’چائلڈ پورنو گرافی‘ کے لیے کوئی قانون ہی موجود نہیں ہے اور نہ ہی متاثرہ بچہ خود سے رپورٹ درج کرواسکتا ہے، کیوں کہ کچھ مائیں ایسی بھی ہیں جو اپنی بچیوں کو خود غلط کام پر مجبور کرتی ہیں لیکن قانون نہ ہونے کی وجہ سے یہ بچیاں رپورٹ درج نہیں کرواسکتیں۔‘‘

رانا آف حبیب نے بتایا کہ کراچی میں ناظم آباد نمبر دو، جہانگیر پارک، عیسیٰ نگری، کیماڑی پر واقع غائب شاہ کا مزار، عالم شاہ کا مزار، عبداﷲ شاہ غازی کے مزار کی پارکنگ، ابراہیم حیدری، گودھرا کیمپ، سرجانی ٹاؤن، مچھر کالونی، سرجانی ٹاؤن، گڈاپ ٹاؤن میں بچوں کے ساتھ زیادتی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔

اُن کا کہنا ہے،’’کراچی کی سڑکوں پر نہ صرف بچوں کے ساتھ زیادتی بلکہ اُن کی باقاعدہ خرید و فروخت بھی کی جاتی ہے۔ صدر کے علاقے میں کچھ گروپ اس وقت سب سے زیادہ متحرک ہیں، جب کہ ’’خیابان بدر‘‘،’’توحید کمرشل اسٹریٹ‘‘،’’لی مارکیٹ‘‘، ’’گلستان جوہر‘‘ میں یہ کام بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے۔ آپ میری اس بات کی تصدیق ان اداروں سے بھی کر سکتے ہیں جو یہاں ’’ایڈز کنٹرول ‘‘ پروگرام چلارہے ہیں۔‘‘

رانا آصف کا کہنا ہے ’’ کراچی کے علاقے سرجانی ٹاؤن سے نو عمر لڑکوںکو ’میل پروسٹی ٹیوشن‘ کے لیے ایران اور صدر کے علاقے سے کوئٹہ اور دالبندین بھیجا جاتا ہے۔ وہاں دس ہزار ماہانہ کے عوض اِن بچوں کا استحصال کیا جارہا ہے۔‘‘

’’چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی بل ‘‘ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں اُن کا کہنا ہے’’2011 میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کی روک تھام کے لیے پیش کیے گئے اس بل کو منظوری کے بعد 60 دن میں نافذ ہونا تھا، لیکن یہ تاحال نافذ نہیں ہوسکا ہے، جب کہ بچوں کے حقوق کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی سطح پر کوئی وزارت ہی موجود نہیں ہے۔ زیادتی میں ملوث افراد کو سزا دینے کے عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ قانون میں موجود خامیاں ہیں جنہیں دور کرنے کے لیے ’’پاکستان پینل کوڈ ‘‘ میں ترمیم اشد ضروری ہے۔

زیادتی کے واقعات میں رپورٹ درج ہونے کا انحصار ایم ایل او (میڈیکولیگل آفیسر) کی رپورٹ پر ہوتا ہے۔ دو کروڑ آبادی والے اس شہر میں صرف 84 مرد اور 4 خاتون ایم ایل اوز ہیں۔ خاتون ایم ایل اوز بھی ’’آن کال‘‘ ہیں۔ زیادہ تر شواہد ایم ایل اوز کے انتظار میں ہی ضایع ہوجاتے ہیں۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جس میں ملزمان قانونی خامیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بری ہوگئے اور آزاد گھوم رہے ہیں۔ دوسری جانب ہم رشوت کے عنصر کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتے، کیوں کہ ’’زیادتی‘‘ کی رپورٹ تبدیل کرنے کے ریٹ دو لاکھ روپے ہیں ، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بااثر ملزمان بچ نکلنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔

رانا آصف نے بتایا،’’حال ہی میں ڈیفنس پولیس اسٹیشن کی حدود میں ایک محنت کش کے دس سالہ بچے ’’ع‘‘ سے علاقے کی ایک بااثر شخصیت نے زیادتی کی۔ والدین رپورٹ درج کرانے گئے تو ایس ایچ او نے اُلٹا انہیں ہی رات بھر اندر رکھا اور واقعے کے 7/8 گھنٹے بعد بچے کا میڈیکل کروایا۔ اتنی دیر میں کافی شواہد بھی ضایع ہوچکے تھے۔ ملزم ضمانت قبل از گرفتاری کروا کے رہا ہوگیا اور اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے ایم ایل او سے رپورٹ تک تبدیل کروادی۔ متاثرہ بچہ اِس واقعے کے بعد بھی ایک ہفتے تک ’’نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ ‘‘ میں زیرعلاج رہا۔ بچے کا محنت کش باپ آج بھی انصاف کے حصول کے لیے عدالتوں کے دھکے کھا رہا ہے۔

ایسے ہی ایک دوسرے کیس میں بوٹ بیسن تھانے کی حدود میں ماموں بھانجے نے خنجر کے زور پر چھے سالہ معصوم بچی ’’ک‘‘ کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔ پولیس کی بروقت کارروائی اور ایم ایل او کی رپورٹ کی مدد سے ملزمان آج جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ رانا آصف کہتے ہیں،’’ان دو مثالوں سے آپ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ بروقت طبی معائنہ اور غیرجانب داری سے کی گئی تفتیش نہ صرف ملزمان کو سزا دلوا سکتی ہے بل کہ دوسرے بھی عبرت حاصل کرتے ہوئے کسی ایسے اقدام سے باز رہ سکتے ہیں، بچوں کے ساتھ زیادتی میں کمی اُسی صورت ہوسکتی ہے جب جرم کے مرتکب افراد کو عبرت ناک سزا دی جائے۔‘‘

بچوں کے لیے ہر وہ جگہ غیرمحفوظ ہے جہاں وہ تنہا ہوں۔ اعدادوشمار سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ گھروں میں ہونے والے واقعات میں زیادہ تر ’’ماموں‘‘، ’’چچا‘‘،’’قاری صاحب‘‘،’’اسکول وین کے ڈرائیور‘‘ اور قریبی عزیز ملوث ہوتے ہیں۔ بچوں کو جیلوں، چھوٹے ہوٹلوں، بس اڈوں، فٹ پاتھوں، کھیتوں، میکینک کی دکانوں اور کام کی جگہ پر بھی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم ’’ساحل‘‘ کے مطابق گذشتہ سال پنجاب میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے 2003 ، سندھ میں 583، خیبر پختون خوا میں 139، اسلام آباد میں 134 ، بلوچستان میں 106، آزاد جموںو کشمیر میں 35 اور گلگت بلتستان میں 2 کیس درج کرائے گئے۔

رپورٹ کے مطابق زیادتی کا شکار بچوں کے کیس درج کرانے کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے مجموعی طور پر سال 2013 میں 3002بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ یعنی روزانہ اوسطاً 8 بچوں کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ یہ اعداد و شمار گذشتہ سال کی نسبت 7.67 فی صد زاید ہیں۔

گذشتہ سال بچوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی شرح میں بھی اضافہ ہوا۔ اجتماعی زیادتی کے1225 کیس درج کرائے گئے جب کہ 148 بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا۔ صنفی لحاظ سے دیکھا جائے تو اس سال لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ 2013 میں2017 لڑکیوں اور 985 کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ تاہم لڑکوں کے ساتھ زیادتی کی شرح بھی گذشتہ سال کی نسبت 23 فیصد زیادہ رہی۔

’’ساحل‘‘ کے مطابق گیارہ سے پندرہ سال کی عمر کے بچوں کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا گیا۔ مجموعی طور پر 2013 میں ہراساں کرنے اور زیادتی کے 6130واقعات ہوئے، جن میں ملوث1474 افراد جان پہچان والے اور 1067 اجنبی تھے۔

بچوں کے لیے کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 77.69فی صد واقعات بند جگہوں (گھر، اسکول، مدرسے وغیرہ) اور 22.31 فی صد کیسز کھلی جگہوں پر رونما ہوئے۔53.76 فی صد بچوں سے ایک بار اور17.96 فی صد سے ایک سے زاید مرتبہ زیادتی کی گئی۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کی شرح دیہی علاقوں میں 57.46 فی صد اور شہری علاقوں میں 42.54 فی صد رہی۔

بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کا کہنا ہے کہ زیادتی کا نشانہ بننے والے بچوں کی تعداد سامنے آنے والے اعدادوشمار سے کہیں زیادہ ہے، کیوں کہ زیادہ تر کیسز میں والدین بدنامی کے خوف سے رپورٹ درج نہیں کراتے۔

٭ زیادتی کے پیچھے کارفرما عوامل
آخر وہ کیا محرکات یا جذبات ہوتے ہیں جن سے مغلوب ہو کر انسان خواتین یا بچوں کے ساتھ زیادتی جیسی شرم ناک حرکت کر بیٹھتا ہے؟
اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس طرح کے واقعات میں جرم کا ارتکاب کرنے والے ان افراد کو اپنا نشانہ بناتے ہیں جنہیں وہ پہلے سے اچھی طرح جانتے ہیں۔ زیادتی کے انفرادی عوامل میں بھی کچھ محرکات کار فرما ہوتے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:

٭شراب نوشی یا منشیات کا استعمال
منشیات کے زیراثر کوئی فرد یہ گھناؤنا فعل کرجاتا ہے، کیوں کہ منشیات خصوصاً ’’شراب‘‘ اور ’’کوکین‘‘ انسان پر ’’psychopharmacological‘‘ (جذبات پر اثر انداز ہونے والی ادویات) اثرات مرتب ہوتے ہیں، جو انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم کردیتے ہیں۔

٭خاندانی عوامل
خصوصاً بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے زیادہ تر واقعات میں اس بات کے شواہد نہیں ملے ہیں کہ اس درندگی میں ملوث افراد نے یہ طرز عمل اپنے بڑوں سے سیکھا ہے۔ تاہم زیادتی کا نشانہ بننے والے لڑکوں پر حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ ہر پانچ میں سے ایک لڑکے نے آگے جا کر بچوں سے زیادتی کی۔

٭قانون اور پالیسیاں
خواتین اور بچوں پر تشدد کے خلاف مختلف ممالک کے قوانین اور پالیسیاں مختلف ہیں۔ کچھ ممالک میں قانونی طریقۂ کار بہت زیادہ پیچیدہ اور طویل ہے۔ 2002 میں پنچایت کے فیصلے پر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بننے والی مختاراں مائی کے ملزمان کی عدم شواہد پر رہائی، پاکستانی قانون میں موجود خامیوں کی روشن مثال ہے۔ پاکستان میں زیادتی کا شکار خواتین اور بچوں کو فوری انصاف کی فراہمی کے لیے مزید سخت پالیسیوں اور قانون سازی کی ضرورت ہے۔

٭عالمی رجحانات اور معاشی عوامل
معاشی عدم استحکام، بے روزگاری اور فری ٹریڈ کے بڑھتے ہوئے عالمی رجحان کی وجہ سے بچوں، خواتین اور لڑکیوں کو ایک جنس کے طور پر مکروہ مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی شرح بڑھ رہی ہے، جب کہ بے روزگاری اور غربت کی وجہ سے دنیا کے بیش تر ممالک میں لڑکیوں اور بچوں کی خرید وفروخت میں دن بہ اضافہ ہورہا ہے، جنہیں غیرممالک میں کام دلانے کا جھانسا دے کر ’’جسم فروش‘‘ کے طور پر کا م لیا جاتا ہے۔

بچوں کے تحفظ کے لیے نہ صرف حکومت اور اس کے اداروں کو اقدامات کرنے ہوں گے بل کہ معاشرے کو بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بچوں سے زیادتی کے واقعات کی بڑھتی ہوئی شرح بتارہی ہے کہ ہمارے سماج میں درندوں کی تعداد اور ہمت بڑھتی جارہی ہے۔ افسوس ناک امر یہ بھی ہے یہ خوف ناک اور سنگین معاملہ حکم رانوں کی طرف سے جس سنجیدگی اور توجہ کا متقاضی ہے، اسے وہ اہمیت نہیں دی جارہی۔

خرم منصور قاضی، لاہور

اگر بچے میں یہ علامتیں نظر آئیں۔۔۔
نونہالوں کا تحفظ ممکن بنانے کے لیے کچھ تدابیر

بچوں کو پالنا اور حوادث زمانہ سے بچائے رکھنا ہمیشہ ہی سے والدین کے لیے ایک کٹھن کام رہا ہے، لیکن موجودہ دور نے اس ذمے داری کو مشکل تر بنادیا ہے، کیوں کہ بچوں کی معصومیت اور پاکیزگی کو جتنے خطرات آج لاحق ہیں اتنے شاید اس سے پہلے کبھی نہ تھے۔ بچوں سے زیادتی کی وبا اس قدر پھیل چکی ہے کہ مغربی ممالک میں بچوں کو ڈانٹنے کے خلاف بھی قانون سازی کی گئی ہے اور اس کے علاوہ والدین اور بچوں کی آگہی کے لیے باقاعدہ تنظیمیں بنائی گئی ہیں۔

ہمارے مخصوص سماجی، نظریاتی اور معاشرتی تقاضوں کے پیش نظر یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر کُھلے عام بات نہیں کی جاتی اور نہ ہی بچوں اور والدین کی آگہی کے لیے پروگرام وضع کیے گئے ہیں۔ کسی بھی بچے کا استحصال نہ صرف اس کی اپنی ذات کے لیے بلکہ اس کے پورے خاندان کے لیے ایک بھیانک خواب کی مانند ہوتا ہے۔ اس کا افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ اکثر بچے سے ہونے والی زیادتی سے والدین لاعلم رہتے ہیں اور بعض اوقات ایسا کرنے والے بھی اس بچے کے قریبی رشتے دار، احباب، استاد یا ایسے ملازمین ہوتے ہیں جن پر ان معصوم بچوں کو اعتبار ہوتا ہے۔ والدین اگر اپنے بچے میں ذیل میں دی گئی علامات میں سے کوئی ایک علامت بھی محسوس کریں تو چوکنے ہوجائیں:

٭ بعض اوقات بچے کی حرکات اور گفتگو اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ اس کے ساتھ کچھ غلط ہو رہا ہے۔ مثلاً اگر وہ جنس کے متعلق اپنی عمر سے بڑی باتیں یا حرکتیں کر رہا ہو یا دوسرے بچوں کے ساتھ اس قسم کے کھیل کھیلنے کی کوشش کرے، جو اس کی عمر سے مطابقت نہیں رکھتے۔

٭اگر بچہ بہت ڈرا سہما رہتا ہو یا مخصوص لوگوں سے ملنے یا کسی جگہ جانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرے تو نرمی سے صورت حال کو سمجھیے۔

٭اگر بچے کے مزاج میں تشدد یا لڑائی کا تناسب خلاف عادت بڑھ جائے یا وہ اپنا غصہ بلاوجہ چیزوں کو توڑ پھوڑ کر نکالے تو یہ بے وجہ نہیں ہوسکتا۔

٭بچے کے اندرونی اعضاء میں کسی غیرمعمولی سرخی یا زخم کا نشان پایا جائے اور اس کے لباس وغیرہ پرکوئی دھبا پایا جائے تو ان کو بالکل بھی نظر انداز مت کیجیے۔

٭اگر کوئی شناسا، رشتے دار یا ملازم بچے سے بلاوجہ التفات کا مظاہرہ کرے، گاہے بگاہے تحفے تحائف یا چاکلیٹ وغیرہ دے تو والدین اس کی وجہ جاننے کی کوشش کریں۔

حفاظتی تدابیر:

٭آپ اپنے بچوں کو ذہن نشین کرائیںکہ آپ ہی ان کے بہترین دوست اور رازداں ہیں۔ انہیں اتنا اعتماد اور یقین دیجیے کہ وہ آپ سے کوئی بھی بات نہ چھپائیں۔
٭جیسے ہی بچہ کچھ سمجھ داری کی عمر کو پہنچے تو اسے جسمانی اعضاء کی نزاکت اور پرائیویسی کے متعلق ضرور سمجھائیں۔
٭گھر کا فون نمبر، پتا اور ایمرجینسی نمبرز بچے کو زبانی یاد کروائیں اور وقتاً فوقتاً اس سے سنتے بھی رہیں۔ اسے پتا ہونا چاہیے کہ مشکل حالات میں اسے کس سے مدد مانگنی ہے۔
٭کوئی بھی نیا ملازم یا آیا رکھنے سے پہلے اس کے پس منظر کے بارے میں پوری تحقیقات کریں۔
٭بچوں کو گھر پر یا کار میں تنہا کبھی نہ چھوڑیں۔
٭ پرائمری اور ہائی اسکول کے بچوں کو اپنے ذاتی تحفظ کے بارے میں پوری معلومات دیں۔ ان سے بچوں کے استحصال کے متعلق گفتگو کر کے بنیادی حفاظت کے اصول اچھی طرح سمجھائیں۔
٭بچوں اور بچیوں کے دوستوں کے بارے میں پوری معلومات رکھیے اور وقتاً فوقتاً آگاہی حاصل کرتے رہیں۔
٭بچوں کے دوست اور ان کے والدین کے فون نمبر اور پتے اپنے پاس رکھیں۔
٭بچوں اور بچیوں کے دوستوں سے خود بھی ملیے اور ان کی سرگرمیوں کا جائزہ ضرور لیں۔
٭اگر آپ کا نوجوان بچہ یا بچی خلاف معمول زیادہ وقت گھر سے باہر گزارتا ہے تو اس کے بارے میں پوری تحقیق کریں۔
٭نوجوان بچوں کے انٹرنیٹ اور موبائل فون کے استعمال پر گہری نظر رکھیں۔ اپنے بچوں کو انٹرنیٹ سیفٹی کے متعلق پوری طرح گائیڈ کریں اور ان ویب سائٹس کو چیک کرتے رہیے جنہیں آپ کے بچے دیکھتے ہیں۔
٭کمپیوٹر گھر کے ایسے حصے میں رکھیں جہاں وقتاً فوقتاً آپ کی نظر بھی پڑتی رہے۔
٭ اگر آپ گھر میں چھوٹے بچوں کو کسی ملازم کی نگرانی میں چھوڑتے ہیں یا کسی نرسری وغیرہ میں تو کبھی کبھار اچانک ان جگہوں کا دورہ کیجیے، تاکہ کسی بھی خلاف معمول بات سے بروقت آ گہی ہوسکے۔

مقبول گوہر،اسلام آباد

سب سے بڑی وجہ معاشرتی بگاڑ

ماہر دماغی امراض ڈاکٹر منیر سلیچ نے کہا کہ بچوں سے زیادتی کے واقعات کی بڑی وجہ معاشرتی بگاڑ ہے۔ ان الم ناک واقعات میں زیادہ تر بچے کے خاندان کے قریبی لوگ ملوث ہوتے ہیں۔ بہت سے واقعات بدنامی اور دشمنی کے خوف سے چھپالیے جاتے ہیں۔ ان واقعات میں اضافہ کچھ اس لیے بھی زیادہ محسوس ہوتا ہے کہ اطلاع ملنے پر میڈیا فوراً پہنچ جاتا ہے اور پھر مسلسل اس خبر کو کوریج دی جاتی ہے، محسوس ہوتا ہے کہ مجرموں کی ماڈلنگ ہو رہی ہے۔ برائی کی تشہیر ہوتی ہے تو یہ اور پھیلتی ہے، اسلام میں اسی لیے برائی کی تشہیر سے منع کیا گیا ہے۔ سب سے اہم وجہ معاشرے میں جزا و سزا کا فقدان ہے، جس پر ہم توجہ نہیں دیتے۔ میڈیا خبر تو بڑی شدومد کے ساتھ اٹھاتا ہے لیکن یہ نہیں دکھا پاتا کہ ایسے مجرموں کی کچھ درگت بھی بنی یا نہیں۔

بچوں سے زیادتی کی ایک بہت اہم وجہ پورنوگرافی تک آسان رسائی ہے۔ حکومت نے پابندی تو لگائی مگر کچھ ’’ماہرین‘‘ نے اسے غیرموثر بنا دیا۔ حکومت کے پاس ایسے ماہرین ہی موجود نہیں جو ایسی سائٹس یک سر بند کر سکیں جب کہ اسرائیل کی مثال موجود ہے، جس نے ان سائٹس پر مکمل قابو پایا ہے۔ منشیات کی سہل دست یابی بھی ایک اہم عامل ہے۔ ایک اور وجہ بچوں کا آسان شکار ہونا بھی ہے، بچے جلد ورغلائے جاسکتے ہیں، ان میں قوت مزاحمت بھی کم ہوتی ہے۔ بچوں کو گھروں میں اکیلا چھوڑنا بھی ایک سبب ہے، ان میں شعور کی کمی ہوتی ہے، جس سے وہ اچھائی، برائی میں تمیز نہیں کرسکتے۔ کچھ بچے لالچ میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں، خصوصاً ایسے بچے، جن کے جیب خرچ پر توجہ نہیں دی جاتی۔ کچھ واقعات ایسے بھی سامنے آتے ہیں کہ مجرم انتقامی جذبے کے تحت یہ مکروہ عمل کرتا ہے۔ نفسیاتی سائنس کی زبان میں اس مرض کو ’’پیڈوفیلیا‘‘ کہا جاتا ہے، اس کے مریض بچوں ہی سے جنسی زیادتی کرتے ہیں۔ یہ قابلِ علاج بیماری ہے۔

رانا نسیم، لاہور

کیا ہیں وجوہات

ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ’’ساحل‘‘ مس منیزے
بچوں سے زیادتی کے واقعات کی روک تھام کے لیے کام کرنے والی این جی او ساحل کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر مس منیزے نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بچوں سے زیادتی صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا بھر کا مسئلہ ہے۔ پاکستان میں اس مکروہ فعل کی تین بڑی وجوہات ہیں، تعلیم و شعور کی کمی، بچوں اور والدین کی اپنے حقوق سے لاعلمی اور غربت جس کے باعث بچے مختلف سطح پر زیادتی کا شکار ہو رہے ہیں۔ اسکول، ورکشاپ حتیٰ کہ گھروں میں بھی بچے اخلاقی یا جسمانی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔ جہاں بڑوں کو مکمل اختیار ہو اور بچوں کو یہ سمجھایا جائے کہ بڑے جو بھی کہیں اسے ہر صورت مان لیا جائے تو پھر وہاں زیادتی کے کیسز تو ہوں گے۔

اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹس اور براہ راست معلومات کے مطابق پاکستان میں سالانہ 3 ہزار سے زاید بچے زیادتی کا شکار ہو رہے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ شرح کہیں زیادہ ہے، کیوں کہ تمام کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ بچوں سے زیادتی کے کیسز کی روک تھام کے لیے کام تو ہورہا ہے، لیکن حکومتی اور عوامی سطح پر مزید ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہم 16 سال سے کام کر رہے ہیں اور اس دوران ہم نے موجودہ قوانین کے تحت ہی متعدد کیس لڑے اور جیتے ہیں، پھر چائلڈ پروٹیکشن بیورو جیسے سرکاری ادارے بھی قائم کیے گئے ہیں، مگر قوانین کو مزید بہتر اور سخت بنانے کی ضرورت ہے۔ عوامی سطح پر مسئلہ کے حل کے لیے آگاہی ضروری ہے۔

چائلڈ پروٹیکشن آفیسر ماس اویئرنس وسیم عباس:
حکومت پنجاب کے ادارے ’’چائلڈ پروٹیکشن بیورو‘‘ کے چائلڈ پروٹیکشن آفیسرماس اویئرنس وسیم عباس کا کہنا ہے کہ بچے کو صرف کھیل کود کے لیے ہی نہیں بلکہ والدین کے نامناسب رویے اور غربت کی وجہ سے بھی گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے، اسے ورکشاپ یا فیکٹریوں میں کام کرنا پڑتا ہے، تو ایسے حالات میں وہ زیادتی کا بھی شکار ہوجاتا ہے۔ مختلف مجبوریوں کی وجہ سے اسے یہ ظلم برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے معاشرہ بھی اپنا مثبت کردار ادا نہیں کر رہا۔ معاشی و معاشرتی مسائل بچوں کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ بچوں سے زیادتی کے کیسز کی شرح کا حتمی اندازہ لگانا ناممکن ہے، کیوں کہ ہمارے ہاں تاحال تمام کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ بچوں کے تحفظ کے سلسلے میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ انتہائی مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ یعنی حکومتی اور پرائیویٹ ادارے (این جی اوز وغیرہ) مل کر کام کریں تو زیادہ بہتر نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

ڈاکٹر صابر حسین (ماہر نفسیات)
گفتگو: ندیم سبحان ،کراچی

زندگی کرب میں ڈھل جاتی ہے … زیادتی کا شکار ہونے والے بچوں پر نفسیاتی اثرات
معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر صابر حسین کے مطابق زیادتی کا شکار ہونے والے بچے کئی طرح کے نفسیاتی اور جسمانی مسائل سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ یہ کیفیت ’’پوسٹ ٹرامیٹک سنڈروم‘‘ کہلاتی ہے۔ اس کیفیت میں بچے ڈپریشن اور ذہنی اضطراب میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ا ن کے اندر خوف اور عدم تحفظ کا احساس اور بداعتمادی پیدا ہوجاتی ہے۔ انھیں ڈراؤنے خواب نظر آنے لگتے ہیں، اور گھروالوں کے ساتھ ان کا رویہ تبدیل ہونے لگتا ہے۔ چھوٹے بچے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو جسمانی تشدد کے طور پر لیتے ہیں۔ اگر یہ تشدد قریبی رشتے دار یا گھر کے ملازم وغیرہ کی جانب سے ہو تو بچے اپنے والدین اور بڑے بہن بھائیوں پر اعتماد کھوبیٹھتے ہیں اور ان سے متنفر ہوجاتے ہیں۔

چوں کہ ان کے ننھے ذہنوں میں والدین اور بہن بھائیوں کا تصور ایک محافظ جیسا ہوتا ہے، چناں چہ قریبی رشتے دار کی جانب سے زیادتی کی صورت میں یہ تصور بری طرح مجروح ہوتا ہے۔ اس کے برعکس کسی باہر کے فرد کی درندگی کا شکار ہونے کے بعد بچہ گھروالوں سے زیادہ قریب ہوجاتا ہے۔ ہر دو صورتوں میں اس کی شخصیت تباہ ہوجاتی ہے۔ زیادتی کے سانحے سے گزرنے والے چھوٹے بچوں کی مینٹل میچوریٹی بری طرح متاثر ہوتی ہے، کیوںکہ ان کی ذہنی سطح اتنی بلند نہیں ہوتی کہ وہ اس سانحے سے جُڑی تمام چیزوں کو سمجھ سکیں، اور جب تک وہ سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں تو یہ سانحہ اور اس کے اثرات ان کے لاشعور میں پختہ ہوچکے ہوتے ہیں۔

ایسے بچے اکثر اس بارے میں کسی کو بتانے سے کتراتے ہیں، کیوں کہ انھیں اپنے دوستوں اور اہل خانہ کی طرف سے مسترد کیے جانے کا خوف ہوتا ہے۔ وہ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ان کے گھر والے انھیں ہی موردالزام ٹھہرائیں گے۔ چناں چہ وہ بہ تدریج تنہائی اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ قدرے بڑی عمر کے بچے جو اس فعل کو سمجھ سکتے ہیں، دیگر نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہونے کے علاوہ وہ بعد میں خود بھی ہم جنس پرست بن سکتے ہیں۔

لڑکیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی انھیں جسمانی طور پر سخت نقصان سے دوچار کرسکتی ہے۔ ان کا تولیدی نظام متاثر ہوسکتا ہے۔ نتیجتاً وہ مستقبل میں ماں بننے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوسکتی ہیں۔ زیادتی کا شکار ہونے والی بچیاں مایوسی، تنہائی، بے خوابی کے ساتھ ساتھ خوداذیتی کی عادت بھی اپنالیتی ہیں۔ وہ خود کشی کے بارے میں سوچتی اور بعض اوقات اس کا ارتکاب بھی کرڈالتی ہیں۔ وہ متشدد بھی ہوجاتی ہیں۔

اگر کسی بچے کے ساتھ زیادتی کے واقعے کا چرچا ہوجاتا ہے تو اسے گلی محلے کے علاوہ اسکول میں بھی ہم جماعتوں کے طنز و تضحیک کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ یہ صورت حال اسے مزید اذیت پہنچاتی ہے، نتیجتاً تعلیم اور اسکول کی سرگرمیوں میں اس کی دل چسپی ختم ہوجاتی ہے اور اس کے نفسیاتی بگاڑ میں بھی شدت آجاتی ہے۔

ڈاکٹر صابر حسین کا کہنا ہے کہ زیادتی کا نشانہ بننے والے بچوں کو اپنے چاہنے والوں خاص کر گھر والوں کی توجہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اس صدمے سے باہر آسکیں۔ والدین کی عدم توجہ اور اس حادثے کو نظرانداز کرنے والا رویہ بچوں کے لیے مزید نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ہمارے منفی معاشرتی رویوں کی وجہ سے والدین اس حادثے کے بعد بچوں کو ماہرنفسیات کے پاس لانے سے کتراتے ہیں۔ نفسیاتی علاج کے ذریعے بڑی حد تک ان بچوں کے ذہنوں پر مرتب ہونے والے منفی اثرات سے انھیں نجات دلائی جاسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔