سیاست دوراں… عجب کھیل

سید اسد اللہ  جمعـء 18 اپريل 2014

قارئین! آج اس موضوع کا انتخاب کرنے کا مقصد حالیہ دنوں میں سیاسی حلقوں کی جانب سے ایک ہلچل مچی ہوئی ہے۔ ایسی صورت حال میں اس موضوع پر بات نہ کرنا عوامی مسائل اور ملکی حالات سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہوگا۔ ایک سیاست کے طالب علم سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی وہ بحیثیت ایک سیاسی طالب علم ہونے کے ملکی یا غیر ملکی سیاسی حالات پر نظر نہ رکھے اور کوئی اظہار رائے نہ کرے۔ یوں بھی آزادی اظہار رائے ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ صرف سیاست پر ہی نہیں ملکی وعوامی ہر قسم کے مسائل پر اظہار رائے کرسکتا ہے۔ بالخصوص حالیہ دور سیاست میں اور بھی ضروری ہے۔ عوامی حلقوں میں تو حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کے حامی و مخالف آرا لوگ ہوتے ہیں۔ اسی لیے تو کہا گیا ہے کہ جہاں دو برتن ہوتے ہیں وہاں کھنکھناہٹ ضرور ہوتی ہے۔

اور حزب اقتدار ہو یا حزب اختلاف کا ہونا سیاست کا (ملکی ہو یا غیر ملکی) حسن کہلاتا ہے۔ جیسے کہ رنگوں کا سات رنگوں میں ہونا ہی دھنک کی خوبصورتی ہے اسی طرح سیاست کے بھی مختلف رنگ، ڈھنگ، اتار چڑھاؤ ہی سیاست کے وجود کا احساس دلاتے ہیں۔ لیکن آج کل ہمارے ملک میں جو سیاست ہو رہی ہے وہ دہشت گردی کے واقعات کے اردگرد گھوم رہی ہے کیونکہ موجودہ دور میں ’’دہشت گردی‘‘ کا خاتمہ ہی سب سے اہم مسئلہ ہے جس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ دہشت گردی کے مسئلے ہی نے دیگر عوامی مسائل کو پس پردہ دھکیل دیا ہے۔ ملک میں خوشگوار ماحول پیدا ہونے کی بجائے ایک خوف ودہشت کا ماحول پیدا کردیا گیا ہے۔ گوکہ حکومتی مذاکراتی ٹیم اور طالبان مذاکرات کا قیام عمل میں آگیا ہے ۔ مذاکرات، مذاکرات کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے لیکن ناخوشگوار واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں ۔ تمام اہم مسائل کا حل ’’مذاکرات‘‘ ہی میں مضمر سمجھا جاتا ہے۔

مذاکرات کا شور تو مچایا جا رہا ہے لیکن مذاکرات کا اصل ایجنڈا تک پیش نہیں کیا جارہا۔ حکومتی مذاکراتی ٹیم اس تاخیر کا ذمے دار طالبان مذاکراتی ٹیم کو ٹھہراتی رہی تو دوسری طرف طالبان مذاکراتی ٹیم حکومتی مذاکراتی ٹیم کو ذمے دار ٹھہراتی ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ اتنے اہم مسئلے پر صورتحال اتنی غیر واضح کیوں ہے۔ اسی لیے کئی سیاسی حلقوں کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے کہ یہ مذاکراتی ٹیمیں سیاست نہیں کر رہی ہیں بلکہ ’’ٹوئنٹی ٹوئنٹی‘‘ میچ کھیل رہی ہیں۔ دونوں ٹیمیں اپنی اپنی اننگز کھیل چکی ہوتی ہیں۔ لیکن نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ میچ کا کوئی فیصلہ نہ ہوسکا۔ میچ ’’ٹائی‘‘ ہوگیا ہے یعنی نتیجہ صفر ہی رہا۔ واہ! کس قدر طاقتور اور مضبوط ٹیمیں میدان میں اتری ہیں کہ کوئی کسی کو شکست نہیں دے پا رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں یہ چہ میگوئیاں بھی ہو رہی ہیں کہ ’’میچ‘‘ فکس ہوتے ہیں۔

کوئی ٹیم اپنی شکست ماننے پر آمادہ نہیں ہوتی۔ ایسی صورتحال کیوں پیدا ہوتی ہے اس کا حل ڈھونڈنا بھی مشکل نظر نہیں آتا۔ یا تو امپائر نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو غیر جانبدار نہیں ہے۔ اب جب تک کوئی ’’نیوٹرل‘‘ امپائر نہیں مقرر کیا جاتا یہ مسئلہ کسی طرح حل نہیں ہوسکتا۔ بہرحال جو کچھ بھی کہا اور سنا جا رہا ہے وہ ایک حقیقت ہے لیکن کوئی ٹی وی ڈرامہ نہیں ہے بلکہ حکومت اور طالبان مذاکراتی ٹیموں میں مذاکرات کا ماحول گرم کرنے کی دوبارہ کوشش کی جا رہی ہے۔

جب انجن گرم ہوجائے گا تو گاڑی چلنے لگے گی۔ مگر یہاں تو انجن ہی ناکارہ نظر آرہا ہے وہ تو خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے نہ ہاں میں ہاں ملاتا ہے اور نہ ہی ’’نفی‘‘ میں سر ہلاتا ہے۔ نہ ’’ہاں‘‘ میں زبان چلاتا ہے۔آپ سمجھ گئے ہوں گے میرا اشارہ کس کی طرف ہے۔ ارے اتنی جلدی سمجھ گئے آپ؟ میں ’’نثار‘‘ ہو جاؤں آپ کی ذہانت پر۔ ہاں! آپ کا جواب درست ہے۔ انعام آپ کا ہوا۔ ارے ہاں! انعام کی بات آئی ہے تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہماری صوبہ سندھ کی کابینہ میں بھی ایک وزیر ہوتے ہیں جس کا نام ہی ’’انعام‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔ ان کے تبصرے اور بیانات تو ایسے دل لبھانے والے ہوتے ہیں کہ عوام کو خوف آتا ہے۔ وہ کیوں؟ اس لیے کہ وہ اپنی باتوں اور بیانات اور تبصروں کے ’’طنز‘‘ کے تیر بھی چلاتے ہیں۔

میرے خود تین عم زاد ریٹائرڈ فوجی ہیں اور تھے۔ میں ان کو کرنل، بریگیڈیئر اور میجر جنرل کے نام سے پکارتا ہوں مثلاً کہیے بریگیڈیئر صاحب کیا حال ہیں۔ آپ کی اب بھی چستی و پھرتی دیکھ کر مجھے احساس ہوجاتا ہے کہ میرے سامنے ایک رشتے دار بھائی نہیں ’’فوجی‘‘ کھڑا ہے۔ فوج ملک و قوم کے دفاع کا ادارہ ہے۔ کیوں ماں باپ اپنی صحت مند اور چست اولاد کو فوج میں داخل ہونے کی ترغیب دیتے ہیں ۔ نوجوان خود بھی فوج میں جانے کا جذبہ، شوق ذوق اور خواہش رکھتے ہیں۔

یہاں بھی ایک مثال درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میرے ایک عم زاد جوکہ بریگیڈیئر تھے (اب انتقال کرچکے ہیں) ان کے نواسے سے میں نے ایک معصومانہ سوال کیا کیونکہ وہ بھی ایک معصوم تھا۔ بیٹا! تم بڑے ہوکر کیا بنو گے؟ اس نے برجستہ جواب دیا کہ میں نانا کی طرح فوجی بنوں گا اور دشمن پر اس طرح فائر کروں گا۔ یہاں ایک سوال اور پوچھنا چاہوں گا (ناقدوں) سے کہ سرحدوں پر جب جنگ چھڑ جاتی ہے تو ایسے موقع پر (ریٹائرڈ) فوجیوں کو کیوں بلایا جاتا ہے۔ ان کو بیکار یا ناکارہ کیوں تصور نہیں کیا جاتا۔

سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ آخر فوج کو سول حکومت میں ملوث کرنے کا کون ذمے دار ہوتا ہے۔ جواب یقینا یہی ہوگا کہ ’’سیاسی لوگ‘‘۔ اس لیے ضروری ہے اور ہم سب کا قومی فریضہ ہے کہ فوج کے مورال کو بلند رکھیں نہ کہ ان کے حوصلے پست کردیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے وقت سے بچائے (آمین) ہمارا ملک دو ٹکڑے کیوں ہوا۔ فوج کے خلاف سویلین حکومت نے بغاوت کی تھی اور ملک دشمن فوج کو ہماری سرزمین پر قبضہ کرنے کی کھلے عام دعوت دی ۔ یوں ثابت ہوگیا کہ کسی بھی ملک کی فوج ہو وہ اس کی محافظ ہوتی ہے اور اپنی جانوں کی قربانی دے کر اپنے ملک کا تحفظ کرتی ہیں۔

لہٰذا فوج کا احترام کرنا اور ان کی عزت و وقار بلند کرنا ہمارا فریضہ ہے۔ افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ سویلین حکومت کے دور میں فوجی اور فوج کے خلاف زہر اگلا جائے۔ چہ معنی دارد؟ برا نہ منائیے جمہوریت کی خوبی ہی یہی ہے کہ اختلاف اور حمایت دونوں اس کے جزو لازم قرار دیے گئے ہیں۔ اپنی گفتگو اسی نکتے پر ختم کرتا ہوں کہ صرف کمپنی کی مشہوری کے لیے پبلسٹی نہ کریں۔ بلکہ صحیح مال فروخت کریں گے تو پبلک پسند کرے گی اور آپ کی پروڈکٹ کو فروغ حاصل ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔