مسکرانا منع ہے!

سدرہ ایاز  ہفتہ 19 اپريل 2014
اگر کوئی کسی کو مہذیب انداز میں برا بھلا کہے تو چلے گا بس عوامی انداز میں ’’مسکرا‘‘ کر نہیں کہہ سکتے۔

اگر کوئی کسی کو مہذیب انداز میں برا بھلا کہے تو چلے گا بس عوامی انداز میں ’’مسکرا‘‘ کر نہیں کہہ سکتے۔

میں بھاگتے ہوئے یونیورسٹی کی کینٹین میں داخل ہوئی، آج ریسرچ ورک کے سلسلے میں ہمیں سروے کرنا تھا ایک تو پہلے ہی دیر ہوچکی تھی اوپر سے مجھے معلوم تھا کہ میری جان سے عزیز دوست حرا بھی منہ پھلائے بیٹھی تھی، بچاری نے مجھے صبح سے کئی کالز کر چکی تھی اور میں ہر دفعہ اسے تھوڑی دیر میں آنے کا دلاسہ دیتے ہوئے پورے 2 گھنٹے لیٹ تھی۔ قصہ مختصر میں کینٹین میں داخل ہوتے ہی حرا کی طرف بڑھی وہ ہماری مخصوص نشست پر بیٹھی تھی، قریب جاتے ہی میں نے اس کے کندھوں کے گرد ہاتھوں سے گھیرا بنا کر گانے لگی ’’ روٹھے ہو تم تم کو کیسے مناؤں پیا‘‘ اور ہسنتے ہوئے میں نے اسے کہا کہ یارحرا اب تو مسکرا دو۔ یہ کہنے کی دیر تھی کہ کینٹین میں بیٹھے ہمارے کلاس فیلو فہد نے باآواز بلند کہا کہ مسکرانا منع ہے۔

ظاہر ہے مجھے اس کا ہمارے بیچ میں بولنا برا لگا میں نے فورا پلٹ کر اسے سختی سے پوچھا کیوں؟ کس نے کہا  کہ مسکرانا منع ہے؟ کیا اسمبلی میں کوئی نیا قانون پاس ہوا ہے یا ہمارے سیاستدانوں سے اب مسکرانے پر بھی ٹیکس لینا شروع کردیا ہے، فہد ہنستا ہوا ہماری ٹیبل پر آکر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ واقعی تمیں نہیں پتا کہ مسکرانا منع ہے۔

میرے گھورتے ہوئے انداز کو دیکھتے ہوئے وہ خود ہی کہنے لگا کہ یار فارس شفیع کو جانتی ہو؟

میں نے لاپرواہی سے جواب دیا فارس شفیع اتنا ’’عوامی‘‘ بندہ ہے اسے کون نہیں جانتا، یہاں میں بتاتی چلوں کہ گذشتہ سال فارس شفیع کا ایک عوامی گانا منظر عام پر آیا تھا، ایک منٹ یہاں عوامی سے مراد ایسا ویسا کچھ نہیں ہے یہ نہ ہو کہ آپ آگے پرھنے کے بجائے میرے لفظ پکڑ کر مجھے حسین القابات سے نوازنے لگیں۔ لہذا صرف آپ کی سہولت کے لئے میں سب کو عوامی پن میرا مطلب ہے اس گانے کے بول سنانا چاہتی ہوں۔

باتوں میں بات کہاں سے کہاں تک نکل گئی تو ہم بات کررہے تھے مسکرانے کی،  فہد ہمیں مسکراہٹ پر پابندی کے بارے میں بتا رہا تھا، فہد نے فورا کہا فارس کی مسکراہٹ ہی پر تو پابندی لگی ہے۔

میں نے جوبا پوچھا کیوں ؟

فہد نے جوابا کہا کہ مان لو کہ آج ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں بلند و بانگ دعوے اور جھوٹے وعدے کرنے والوں کے گریبان کو نہیں پکڑتا لیکن اگر کوئی بچارا اس سسٹم کی کی سچائیوں کو بے نقاب کرنے کے لئے صرف مزاحیہ انداز میں بھی آواز اٹھائے تو اس کی مسکراہٹ اس سے چھین لی جاتی ہے، فہد نے مجھے فارس شفیع کی نئی ویڈو کے بارے میں بتانے لگا کہ فارس نے کس طرح اپنے نئی گانے میں حکومتی سسٹم کو لعن طعن کی ہے۔

ویڈیو کے بارے میں سنتے ہی میرا تجسس بڑھنے لگا اور میں نے فورا ہی اپنا لیب ٹاپ کھولا اور گانے کی ویڈیو سرچ کی۔ لیکن مایوسی کے بعد مجھے صرف اسے کی آڈیو ہی سن سکی جسے سننے کے بعد میرے خیالات ہی بدل گئے۔

Link Embed

مانا کہ اس گانے کے بول درست نہیں ہیں بلکہ یوں کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ اس گانے میں کافی حد تک نازیبا الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جو 18 سال سے کم عمر سامعین کے لئے مضر صحت ہیں۔  لیکن اس بات کے باوجود میں فارس کے بول کی سچائی سے انکاری نہیں ہوں، کیا کبھی امن قائم نہیں ہوگا؟ یہ سوال تو ہر خاص و عام شخص کی زبان پر موجود ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ وہ اس سوال کو پوچھنے سے ڈرتے  ہیں کہ کہیں وہ بھی کسی اندھی گولی کا نشانہ نہ بن جائیں۔

میرے خیال میں ہر انسان کو آزادی اظہار رائے کا حق حاصل ہے، اب یہ سامنے والے شخص پر انحصار کرتا ہے کہ وہ اس کی بات سے متقق ہو ہا نہیں لیکن حقیقت پر سے پردہ اٹھانے پر ہمارے اعلی عہدیدواروں کو اس قدر تکلیف ہوئی کہ انہوں نے 24 گھنٹے کے اندر فارس کے گانے ’مسکرا‘ کی ویڈیو نہ صرف اس کے فیس بک پیچ بلکہ دیگر ویڈیو اولوڈنگ ویب سائٹ پر سے بھی مکمل طور پر ختم کروا دی۔

میں جانتی ہوں کہ یہاں بہت سے لوگ میری بات سے اختلاف کریں گے لیکن یہ ہم ہی لوگ ہیں جو پہلے سے دل خود کر اس سسٹم کو مختلف القابات سے نوازتے ہیں، اس کے خلاف احتجاج کرتے ہیں، مذاق اڑتے ہیں، شوشل میڈیا پر اس بارے میں بحث کرتے ہیں پھر گانوں میں حقیقت کو بیان کرنے میں کیا قباحب ہے؟ میرے خیال میں گانے بنانے میں بھی قباحب نہیں ہے آپ کو شاید نہیں یقینا صرف الفاظ کے چناؤ پر اختلاف ہوگا، کیوںکہ اس طرح کے گانے تو پہلے بھی بن چکے ہیں، چلیں شاید ان ویڈیوز کو دیکھ کر آپ کی یادین تازہ ہوجائیں۔

Link embed Kholo BC

Vip culture

Taro Maro

یادیں تو یقینا تازہ ہوگئی ہونگی اور تمام پڑھنے والوں نے یقینا یہ سارے گانے بھی سنے ہونگے، یعنی مسئلہ گانوں کا نہیں ہے۔ اگر کوئی کسی کو مہذیب انداز میں برا بھلا کہے تو چلے گا بس عوامی انداز میں مسکرا کر نہیں کہہ سکتے، لیکن ہم یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ اس طرح کی ویڈیو سے بین الاقوامی میڈیا پر بھی پاکستان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اوپر سے ہمارے نوجوانوں کے الفاظ رہی سہی کسر بھی پوری کردیتے ہیں۔ صرف ویڈیوز پر پابندی لگانے سے کچھ نہیں بدلے گا ۔ اب بھی وقت ہے اگر ہماری حکومت اپنا محل کھڑے کرنے کے بجائے ملک میں امن و امان کی صورتحال اور دیگر مسائل کے حل کی جانب توجہ دے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

سدرہ ایاز

سدرہ ایاز

آپ ایکسپریس نیوز میں بطور سب ایڈیٹر کام کررہی ہیں۔ خبروں کے علاوہ موسیقی اور شاعری میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ آپ ان سے @SidraAyaz رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔