سپریم کورٹ، چیئرمین نیب کی تقرری کیخلاف عمران خان کی درخواست خارج

نمائندہ ایکسپریس  ہفتہ 19 اپريل 2014
صدرمملکت ربراسٹمپ نہیں،آصف زرداری تووزیراعظم سے بھی زیادہ بااختیارتھے، جسٹس سرمدجلال عثمانی کے ریمارکس۔ فوٹو: فائل

صدرمملکت ربراسٹمپ نہیں،آصف زرداری تووزیراعظم سے بھی زیادہ بااختیارتھے، جسٹس سرمدجلال عثمانی کے ریمارکس۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب چوہدری قمرزمان کی تقرری کے خلاف دائر درخواستیں خارج کردیں ۔جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے تقرری کے خلاف اورحق میں وکلاکے دلائل سننے کے بعدایک مختصر حکم کے ذریعے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان،اوردرخواست گزاراخترنقوی کی آئینی پٹیشنزخارج کیں، تفصیلی فیصلہ بعدمیں جاری کیاجائے گا۔

گزشتہ روز قائد حزب اختلاف خورشیداحمدشاہ کے وکیل اعتزازاحسن نے تقرری کے حق میںاپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ صدرمملکت کاعہدہ علامتی ہے وہ اپنے فرائض منصبی کی بجا آوری میں وزیراعظم کی ایڈوائس کے پابندہیں،انکے پاس کوئی صوابدیدی اختیارنہیںہے۔اعتزازنے کہاکہ صدرکے عہدے کاتقاضابھی یہی ہے کہ وہ غیر جانبدار رہیں اور ایڈوائس پرکام کریں،قائم مقام وزیراعظم کی تقرری کے لیے آئین نے جوطریقہ کاردیاہے چیئرمیں نیب کی تقرری کیلیے بالکل وہی طریقہ اپنایاگیاہے،دونوں تقرریوں میں قائدایوان اور قائدحزب اختلاف کامشورہ بنیادی شرط ہے اور صدر مشورے پرعمل کے پابندہیں ملکہ برطانیہ تووزیراعظم کی ایڈوائس کے بغیراپنی سالگرہ نہیں مناسکتی۔جسٹس امیرہانی مسلم نے کہااس ضمن میں کوئی دورائے نہیں کہ پارلیمانی طرزحکومت میں صدر کا عہدہ علامتی ہوتاہے اوروہ وزیراعظم کی ایڈوائس کے پابندہوتے ہیں۔

قائدحزب اختلاف کے وکیل نے موقف اپنایاکہ زیرغوردرخواستیںقابل پزیرائی نہیں ہیں کیونکہ عمران خان نے ذاتی حیثیت میں پٹیشن دائرکی ہیں کسی سیاسی جماعت کی طرف سے نہیں۔اعتزاحسن نے کہا اگر چیئرمیں نیب پرتوہین عدالت یاکرپشن سکنڈل میں ملوث ہونیکا الزام ہے تواس بنیادپرانکے خلاف فیصلہ نہیں دیا جاسکتا۔اعتزازاحسن نے کہااگرعمران خان کونیب آرڈننس کی شق چھ پراعتراض ہے تووہ خودپارلمنٹرین ہے ،اس بارے پارلیمنٹ سے رجوع کریں۔حکومت کے وکیل خواجہ حارث نے بھی درخواست گزاروں کے اعتراضات مستردکرتے ہوئے کہانیب قانون میں چیئرمین کی تقرری کیلیے مشاوت کامقصدقائدحزب اختلاف کو اعتماد لینا ہے، مشاورت زبانی بھی ہوسکتی ہے اورخط وکتابت کے ذریعے بھی،صدربراہ راست شامل نہ بھی ہوتب بھی مشاورت قانون کے مطابق ہے اس عمل میں صدرکاکوئی صوابدیدی اختیارنہیں۔

جسٹس ناصرالملک نے سوال اٹھایاکہ کیاقائدایوان وزیراعظم کے علاوہ بھی کوئی ہوسکتے ہیںاس پرخواجہ حارث نے کہایہ ضروری نہیں کہ وزیراعظم ہی قائدایوان ہوںگے،انھوں نے کہا اگر چیئرمین نیب پرتوہین عدالت اور کرپشن میں ملوث ہونے کا الزام ثابت ہوجاتاہے توپھرانھیں برطرف کیاجاسکتاہے لیکن محض الزام پران کی تقرری کالعدم نہیں ہوسکتی،جسٹس سرمد جلال نے کہاچیئرمین نیب کے خلاف عدالت کی آبزرویشن ہے، آیازنیازی کی تقرری میں کردارکابھی الزام ہے اورتوہین عدالت کاشوکاذنوٹس بھی جاری ہواہے مشاورت کے دوران ان حقائق کودیکھناضروری نہیں تھا؟خواجہ حارث نے کہاالزام ثابت ہوتوانھیں برطرف کیا جاسکتا ہے، جب دادرسی موجود ہے توپھرعدالت کواس مباحثے میں جانے کی کیاضرورت ہے۔

قمرزمان چوہدری کے وکیل قمرافضل نے کہا وہ اپنے عہدے کاتحفظ نہیں چاہتے یہ کام وفاقی حکومت اورپارلیمنٹ کاہے جس نے ان کی تقرری کی ہے لیکن ان الزمات کاجواب دیناچاہتے ہیں جس نے ان کے بیالیس سالہ کیریئرکوداغ دارکردیاہے۔انھوں نے کہاان کے موکل کی کوئی بیٹی ممبر صوبائی اسمبلی نہیں جس پرناصرالملک نے کہایہ ذاتی نوعیت کامعاملہ ہے اورہم نے درخواست گزارکواس پربولنے سے روکاتھا،حامدخانے جواب الجواب میں کہاکہ مشاورت کے عمل میں صدرکوباہررکھاگیا،صدرآصف علی زرداری نے چیئرمین نیب کی تقرری میں علامتی کردار ادا نہیں کیا بلکہ باقاعدہ مشارت کے عمل میں شامل رہے اس پرجسٹس ناصرالملک نے کہاآصف علی زرداری تووزیراعظم سے بھی اوپرتھے یہ کوئی وزنی دلیل نہیں۔ان کاکہناتھاکہ قمرزمان پرمحض الزمات نہیں بلکہ سپریم کورٹ نے حقائق کی بنیادپرنتائج اخذیے کیے، جسٹس ناصرالملک نے کہاہمارے سامنے تقرری کی قانونی حثیت زیرسماعت ہے کسی کی ذات یاان کاکام نہیں۔عدالت نے دلائل سننے کے بعدچیئرمین نیب قمرالزمان چوہدری کی تقرری کیخلاف دائردرخواستیں خارج کردیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔