انتہا پسندوں کے ہاتھوں یرغمال مشرق وسطیٰ امن مذاکرات

عبدالقیوم فہمید  اتوار 20 اپريل 2014
اسرائیل کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھنے کے بعد مشرق وسطیٰ میں کسی مثبت پیش رفت کی امید موہوم ہی ہوسکتی ہے۔  فوٹو : فائل

اسرائیل کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھنے کے بعد مشرق وسطیٰ میں کسی مثبت پیش رفت کی امید موہوم ہی ہوسکتی ہے۔ فوٹو : فائل

مسئلہ فلسطین’’فلیش پوائنٹ‘‘ کی حیثیت سے پچھلے چھ عشروں سے عالمی سیاسی اور ابلاغی توجہ کا مرکز رہا ہے، لیکن مرکزیت حاصل کرنے کے علی الرغم فلسطینی آج بھی آزادی جیسے بنیادی انسانی حق سے محروم ہیں۔

مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے آج تک ہونے والی مذاکراتی مساعی کا مؤرخ فلسطین اور اسرائیل کو اولین حیثیت دے گا تو لازماً اسے امریکا کو تیسری اہم حیثیت ضرور دینا ہوگی۔ فلسطین، اسرائیل امن مذاکرات کی تاریخ کو قریباً 20 برس ہو چلے ہیں۔ سنہ 1994ء میں ناروے کے شہر اوسلو میں فریقین کے مابین پہلا امن معاہدہ کرنے پر یاسرعرفات (مرحوم) اور اسرائیلی وزیراعظم’’ازحاق رابین‘‘ کو امریکا نے تیار کیا۔ مذاکرات کی بیس سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جس میں فریقین نے لچک کا مظاہرہ کیا۔

اسرائیلی وجود سے قطعی انکاری یاسرعرفات نے عمرکے آخری ایام میں صیہونی ریاست تسلیم کرلی، اس کے بدلے میں تل ابیب نے فلسطینیوں کو کیا دیا؟ وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ امریکا نے فلسطینیوں کو آزادی کے سبزباغ دکھائے اورانہیں عارضی طور پر مقبوضہ غرب اُردن اور غزہ کی پٹی کا کنٹرول سونپ کران پر احسان عظیم کیا۔ 1998ء میں امریکی صدر بل کلنٹن کے ایماء پرفلسطین، اسرائیل امن مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا جو وقفے وقفے سے دو سال تک جاری رہنے کے بعد بغیر کسی پیش رفت کے ختم ہوگیا۔ تب اسرائیل کی باگ ڈور ’’ارئیل شیرون‘‘ کے ہاتھ میں تھی۔ شیرون نے مفاہمتی پالیسی کے بجائے فلسطینی لیڈر یاسرعرفات کے ساتھ مخاصمانہ اور معاندانہ روش اختیار کی۔

2008ء میں خود کو لبرل اور روشن خیال سمجھنے والے ایہود اولمرٹ نے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی معاونت سے امن کا عمل دوبارہ شرو ع کیا۔ کنڈو لیزا رائس نے رام اللہ اور تل ابیب کے چکر لگائے اور یہ دعویٰ کرنے لگیں کہ ان کے اقدامات سے مشرق وسطیٰ کی تاریخ اور تقدیر بدل رہی ہے۔ تقدیر خیرکیا بدلی البتہ یہ واضح ہوگیا کہ اب کی باربھی امریکا اسرائیل کے ساتھ مل کرفلسطینیوں کے ساتھ ہاتھ کرگیا۔ خلاف وعدہ اسرائیل نے یہودی بستیوں کی تعمیر جاری رکھی۔2008ء کے بعد 2014ء کے وسط تک کا عرصہ زیادہ تر جنگ وجدل میں گزرا۔ گوکہ امریکا اوربعض عرب ممالک نے مصالحتی اور مفاہمتی کوششوں کے نام پرفریقین کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کی۔ فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل کے ساتھ ہرقسم کا فوجی اور اقتصادی تعاون قبول کر لیا۔ صرف بات چیت کا عمل تعطل کا شکار رہا، باقی معاملات جوں کے تو برقرار رہے۔ حتیٰ کہ مغربی کنارے میں صدر محمود عباس کے سکیورٹی اداروں نے اسرائیلیوں کے لیے در دِ سر بننے والے مزاحمت کاروں کے خلاف کریک ڈاؤن کرکے صیہونی فوج کو ’’ریلیف‘‘ بھی فراہم کیا۔

ستمبر2011ء میں سابق امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن نے محمود عباس اور اسرائیل کے مابین دوستی کے لیے طبع آزمائی کی۔ نصف سال تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد مسز ہیلری یہ کہہ کر وطن واپس لوٹ گئیں کہ مذاکرات کی کامیابی کے لیے جس جذبے، جرات اور صبر کی ضرورت ہے اس سے محمود عباس اور نیتن یاھو دونوں محروم ہیں۔

2011ء کے مذاکرات سے مایوسی کے بعد باراک حسین اوباما نے جولائی 2013ء کو جان کیری کو مشرق وسطیٰ میں ’’آمدن، نشستند، خوردند اور برخواستند‘‘ کے لیے اپنے اوزار تیز کرنے کا حکم دیا۔ جان کیری نے اپنی جان لڑا کر ابو مازن اور نیتن یاھو کو بات چیت کے لیے تیار کیا۔ اسرائیل نے شرط رکھی کہ فلسطینی اتھارٹی آزاد ریاست کے لیے عالمی اداروں سے رجوع کرے گی اور نہ ہی کسی عالمی معاہدے یا کنونشن کا حصہ بنے گی۔ اس گارنٹی کے جواب میں فلسطینیوں نے اسرائیل سے شرط رکھی کہ وہ مقبوضہ عرب علاقوں میں یہودی کالونیوں کی توسیع کا کام بند کرے گا اور امن کے بدلے میں سنہ 1994ء سے قبل حراست میں لیے گئے فلسطینیوں کو رہا کرے گا۔ اسرائیل نے امریکا اور محمود عباس کی شرائط کو زبانی طور پر مان لیا اور جذبہ خیر سگالی کے تحت چار مراحل میں 104 فلسطینیوں کو رہا کرنے پر رضامند ہوگیا۔ حالات کو دیکھتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے مذاکرات کے لیے نو ماہ یعنی 29 اپریل تک کی تاریخ مقرر کی۔ مذاکرات کے تازہ سلسلے میں نو ماہ کے دوران دونوں فریق ہر پندرہ روز بعد مذاکرات کرتے رہے۔

پس چلمن کیا ہوتا رہا اس کا احوال شائد پھر کسی وقت سامنے آئے لیکن میڈیا پرآنے والی خبریں افواہوں اور قیاس آرائیوں کے سوا کچھ نہ تھیں ۔ تاہم بعض اسرائیلی اخبارات اور دیگر ذرائع سے اندر سے لیک ہونے والی خبروں میں یہ بات مشترک رہی کہ اسرائیل کے انتہا پسند لیڈر فلسطینیوں کے مطالبات نہیں مان رہے۔ فلسطینیوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل 1967ء کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں قبضے میں لیے گئے تمام علاقے خالی کرے اور جنگ سے پہلے والی پوزیشن پر واپس چلاجائے اور بیت المقدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنانے کی اجازت دے۔ البتہ اس بار فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے 70 لاکھ فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کا مطالبہ زیادہ شدت کے ساتھ نہیں اٹھایا گیا بلکہ صدر محمود عباس اور الفتح کے رہ نماؤں کے بیانات سے لگ رہا ہے کہ انہوں نے اس اہم مطالبے سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔

چونکہ بات چیت میں اسرائیل نے یہودی کالونیوں کی تعمیر روکنے اور ایک سو چار فلسطینیوں کی رہائی کا وعدہ کیا تھا، لیکن مذاکراتی عمل کے دوران حسب معمول اسرائیل اپنے عہد و پیمان کو ایفا نہیں کرسکا۔ مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق مذاکراتی عمل کے نو ماہ کے دوران اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے، مقبوضہ بیت المقدس اور وادی اردن میں 6000 ہزار نئے مکانات تعمیر کرنے کی منظوری دی، ریاستی دہشت گردی میں 60 فلسطینیوں کو شہید ،300 کو زخمی اور 100 بچوں اور 20 خواتین سمیت 500 سے زائد فلسطینیوں کو حراست میں لے کر جیلوں میں ڈالا گیا۔ وعدے کے تحت اسرائیل ایک سو چار فلسطینیوں کی جیلوں سے رہائی کا پابند تھا لیکن تین مراحل میں 78 قیدیوں کو رہا کیا جبکہ باقی 26 کی رہائی سے انکار کردیا۔ یوں امریکی ثالثی میں فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ مذاکرات کے نام پر خوب مذاق کیا گیا۔اسرائیلی ہٹ دھرمی کے رد عمل میں فلسطینی اتھارٹی نے مذاکرات کی ڈیڈ لائن میں توسیع سے انکا ر کرتے ہوئے 15 عالمی اداروں، معاہدوں اور کنونشز میں شمولیت کا اعلان کردیا۔

اسرائیل کے غیرلچک دار رویے کے باعث ثالثی کا کردار ادا کرنے والے امریکا کو بھی سخت مایوسی ہوئی اور جان کیری کو وہی بات کہنا پڑی جو چھ سال قبل ان کی پیشرو کنڈو لیزا رائس کہہ گئی تھی کہ ’’فریقین میں بات چیت آگے بڑھانے کا حوصلہ نہیں ہے‘‘۔

دبئی سے نشریات پیش کرنے والے عرب ٹی وی’’العربیہ‘‘ نے اپنے ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ فریقین میں امن بات چیت کی ڈیڈ لائن میں توسیع کا فیصلہ ہوگیا ہے تاہم فی الوقت یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ یہ توسیع کتنی مدت کے لیے ہے۔ ان سطور کی اشاعت تک اس کی تفصیلات سامنے آجائیں گی ۔ تازہ پیش رفت کے مطابق اسرائیل نے ایک بار پھر مقبوضہ عرب شہروں میں یہودی بستیوں کی تعمیر کا عمل منجمد کرنے اور غیرمعمولی تعداد میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا ہے، جبکہ فلسطینی اتھارٹی اس کے جواب میں پندرہ عالمی اداروں میں شمولیت کا فیصلہ واپس لے لے گی۔

اسرائیل کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھنے کے بعد کسی مثبت پیش رفت کی امید موہوم ہی ہوسکتی ہے۔ فلسطین کے ساتھ امن مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی کا مقدمہ لکھتے ہوئے ہمیں اسرائیل کی مقتدر قوتوں کے مزاج کو نہیں بھولنا چاہیے۔ سنہ 2008ء میں لیبر پارٹی کے ایہود اولمرٹ نے براہ راست مذاکرات شروع کیے جن میں دونوں فریق بہت سے معاملات پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ مثلا اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس اور مغربی کنارے سے دستبرداری کا اشارہ دے دیا تھا۔ اس کے باوجود مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکے اور معطل ہوگئے تھے۔ اب چونکہ اسرائیل میں حکومت لیکوڈ کے بنجمن نیتن یاھو اور ’’جیوش ہوم‘‘ کے آوی گیڈور لایٔبرمین جیسے انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں ہے، جو فلسطینیوں کو الگ ریاست کے لیے ایک انچ زمین دینے کے لیے رضامند نہیں ہیں۔ اس لیے یہ امید رکھنا کہ موجودہ مذاکرات فلسطینیوں کو ان کی امنگوں کے مطابق آزادی اور دیگر تمام حقوق مل پائیں گے محض خام خیال ہی ہوسکتا ہے۔

امریکی اخبار’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے اپنے ایک تازہ اداریے میں لکھا ہے کہ اسرائیل کی موجودہ حکومت انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں ہے، جنہوں نے امن مذاکرات کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اس لیے ایک بار نہیں بلکہ موجودہ حکومت کے دور میں باربار بھی مذاکراتی عمل کی تاریخ میں توسیع کی جائے گی تو بیل منڈھے چڑھنے والی نہیں۔

اخبار’’گلف نیوز‘‘ کے مطابق ماضی میں عرب ممالک کی جانب سے بھی مشرق وسطیٰ امن مذاکرات کی پرجوش حمایت کی جاتی رہی ہے لیکن پچھلے نو مہینوں میں جو کچھ ہوا اس میں عرب ممالک کی طرف سے صرف تماشائی کا کردار ہی دیکھنے کو ملا ہے۔ شائد اس کی وجہ وہی ماضی کے ناکام تجربات ہیں کیونکہ تنازعہ کے حل کے لیے جب بھی کوئی سنجیدہ کوشش ہوئی تو اسرائیل نے اس کا جواب ہمیشہ منفی انداز میں دیا ہے۔ اس لیے لمحہ موجود میں عرب ممالک کی خاموشی دراصل مایوسی کا نتیجہ ہے۔ اس بار تو ایسے لگ رہا ہے کہ فلسطین، اسرائیل تنازعہ عربوں اور مسلمانوں کا نہیں بلکہ امریکیوں کا معاملہ ہے۔

فلسطینی امریکیوں کی سوچ پراثر انداز
چونکہ فلسطین کے معاملے میں اسرائیل کی طرح امریکا بھی برابر کا بدنام رہا ہے، لیکن امریکی حکومتوں کو اپنے عوام کی جانب سے سخت تنقید کا بھی سامنا رہا ہے۔ مثلًا اسرائیل کے لیے امریکا کی فوجی اور غیر فوجی امداد بہت سے امریکی حلقوں کے لیے باعث تشویش رہی ہے۔ اس کے باوجود اب تک امریکا نے اپنی اسرائیل نوازی پر مبنی حکمت عملی نہیں بدلی۔ سوشل میڈیا کے مضبوط ہونے کے بعد اب امریکا میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بھی اسرائیل کی امن مخالف سرگرمیوں کو جس شد ومد کے ساتھ تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ اس امر کی غمازی کر رہا ہے کہ امریکا میں اسرائیل کے حوالے سے اب گراس روٹ لیول کی سطح پر غیرمعمولی تغیر پیدا ہو رہا ہے۔ اس تغیر اور تبدیلی کے کئی اسباب و محرکات ہیں۔

سب سے بڑا محرک امریکا اور یورپ میں موجود فلسطینی باشندے ہیں، جنہوں نے وہاں پر چھوٹی چھوٹی انجمنیں بنا رکھی ہیں، جو فلسطینیوں کے حقیقی مسائل سے وہاں کے عوام کو آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں فلسطین آنے کی دعوت دیتے اور زمینی حقیقت سے آگاہی کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی عوام میں اسرائیل کے لیے ہمدردی کے بجائے نفرت اور فلسطینیوں کے لیے ہمدردی کے جذبات بڑھ رہے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق امریکا میں تین لاکھ فلسطینی اور تیس لاکھ کے قریب وہ عرب باشندے کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں جو اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کی سوچ پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ اس حقیقت کو اب اسرائیلی ذرائع ابلاغ بھی تسلیم کرنے لگے ہیں کہ فلسطینی صر ف امریکا ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا بالخصوص یورپین باشندوں کی سوچ بھی تبدیل کر رہے ہیں۔ یہ فلسطینیوں کی اسی محنت کا نتیجہ ہے کہ رواں سال جنوری میں یورپی یونین نے متنازعہ فلسطینی شہروں میں لگائے گئے اسرائیلی کارخانوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا ہے۔ متنازعہ مصنوعات اگر یورپی منڈیوں تک پہنچ جاتی ہیں تو ان پر’’خریدو فروخت ممنوع‘‘کا ٹیگ لگا دیا جاتا ہے۔ اگر یہ پابندی ایک سال تک برار رہتی ہے تو اسرائیل کو آٹھ ارب ڈالر کا نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔