تکبراور تعصب: لازوال انگریزی ناول کا اردو ترجمہ

محمد سلیم الرحمٰن  اتوار 20 اپريل 2014
جین اوسٹن کے ناول‘ لڑکپن کی ناپختہ تحریریں‘ حالات زندگی‘ ان دنوں ایک ’’صنعت‘‘ کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ فوٹو : فائل

جین اوسٹن کے ناول‘ لڑکپن کی ناپختہ تحریریں‘ حالات زندگی‘ ان دنوں ایک ’’صنعت‘‘ کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ فوٹو : فائل

مصنفہ نے عام‘ بے رنگ‘ ہنگاموں اور ہلچل سے خالی زندگی گزاری۔ صرف اکتالیس برس کی عمر پائی۔ جو حضرات اس غلط فہمی میں مبتلارہتے ہیں کہ اچھا ادب تخلیق کرنے کے لئے بڑی تہلکہ خیز زندگی گزارنی چاہئے‘ طرح طرح کے تجربوں سے مستفید ہوناچاہیے، وہ جین اوسٹن یا مشہور امریکی شاعرہ’ایملی ڈکنسن‘ کی زندگی پر نظر ڈال لیں تو اپنی رائے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو جائیں۔

جین اوسٹن کی زندگی کے دوران میں انقلاب فرانس برپا ہوا‘ نپولین کی وجہ سے یورپ بھر میں بلکہ مصر تک جدال و قتال کا میدان گرم رہا۔ ان اضطراب آمیز برسوں کی جھلک بھی اس کے ناولوں میں نظر نہیں آتی۔ جین اوسٹن نے زندگی کے ان معاملات سے سروکار رکھا جو تمام روایتی معاشروں میں ہمیشہ کشمکش کی ایک زیریں رو کے طور پر‘ برانگیختہ رہتے ہیں۔ والدین کو یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ بیٹیوں کے لئے کوئی اچھا‘ کھاتا پیتا بر ہاتھ آ جائے‘ لڑکیاں خواب دیکھتی ہیں کہ انہیں اپنی پسند کا‘ چاہنے والا اور چاہے جانے کے قابل‘ شوہر نصیب ہو‘ زندگی آرام سے گزرے‘ تصادم کے بغیر اچھا فکشن وجود میں نہیں آتا۔ تصادم اوسٹن کے سب سے مشہور ناول ’’تکبر اور تعصب‘‘ میں بھی موجود ہے لیکن کبھی تشدد یا خوں ریزی کی صورت اختیار نہیں کرتا۔ صرف یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ جو بن بیاہے جوان دستیاب ہیں اور جنہیں دام میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے انہیں کوئی حریف خاندان نہ لے اڑے۔ فرق اتنا ہے کہ ناول میں جس زمانے کا ذکر ہے اس وقت انگلستان میں مردوں عورتوں کو ملنے جلنے کی تھوڑی بہت آزادی تھی۔ اس کی وجہ سے اس طرح کی جستجو اور ڈورے ڈالنے کا رنگ چوکھا ہو جاتا تھا۔ ہمارے معاشرے میں عورتوں کو مردوں سے ملنے یا اپنی پسند سے شادی کرنے کی اجازت بالکل نہ تھی۔ آج بھی صورت حال کم کم بدلی ہے۔ بہر حال‘ یہ موضوع ایسا ہے جو ہمیں ’’تکبر اور تعصب‘‘ سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔

کہا جاتا ہے کہ اب جین اوسٹن ادبی شہرت کے لحاظ سے شیکسپیئر سے آگے نہ سہی‘ زیادہ پیچھے بھی نہیں رہی۔ اس کے ناول‘ لڑکپن کی ناپختہ تحریریں‘ حالات زندگی‘ ان دنوں ایک ’’صنعت‘‘ کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ یہ سب کروڑوں اربوں پاؤنڈ کا کھیل ہے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ جب اس نے ناول لکھے تو وہ اس کے نام سے نہیں چھپے۔ ان پر لکھا ہوتا تھا ’’ایک خاتون کے قلم سے‘‘ وجہ یہ ہے کہ عورتوں کا ناول لکھنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ ممکن ہے بعض قدامت پسند گھرانوں میں لڑکیوں کو ناول پڑھنے سے بھی روکا جاتا ہو۔ جہاں عورتوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت بھی کہیں بڑی مشکل سے بیسویں صدی میں ملی (یہ آزاد خیال مغرب کے صنفی تعصبات کا حال ہے!) وہاں انہیں بطور مصنف یا مصور یا شاعر کیسے گوارا کیا جا سکتا تھا۔ فلابیر کے ناول ’’ مادام بواری‘‘ کی ہیروئن کے بگڑنے کی بڑی وجہ جاننے والوں نے یہ فرض کی تھی کہ وہ عشقیہ ناول بہت پڑھتی تھی۔

’’تکبر اور تعصب‘‘کا ترجمہ شاہد حمید نے کیا ہے۔ یہ ترجمہ پہلے شائع ہو چکا ہے۔ زیر نظر اس کی دوسری اشاعت ہے۔ شاہد حمید سے زیادہ پر خلوص‘ دیانت دار اور محنتی مترجم فی زمانہ اردو دنیا میں کوئی اور نظر نہ آئے گا۔ اس سے پہلے وہ دنیا کے دو بڑے ناولوں کو بھی اردو میں ترجمہ کر چکے ہیں جو عظیم ہی نہیں صحیح معنی میں ضخیم بھی ہیں۔ ایک تو تالستائی کا ’’جنگ اور امن‘‘ اور دوسرے دوستوئیفسکی کا ’’کاراما زوف برادران‘‘ دونوں تراجم میں قارئین کی سہولت کے لئے صدہا صفحات پر مشتمل حواشی ہیں جو مترجم کی ناقابل تردید لیاقت اور محنت کا ثبوت ہیں۔ میری رائے میں ’’تکبر اور تعصب‘‘ کا ترجمہ زیادہ شگفتہ اور خواندنی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اصل متن‘ اپنی تمام باریکیوں اور لطافتوں کے ساتھ‘ ان کے سامنے تھا۔ اس طرح درپیش چیلنج تو دو چند ہو جاتا ہے مگر یہ اطمینان رہتا ہے کہ اصل متن سے انصاف کا موقع مل گیا ہے۔ تالستائی اور دوستوئیفسکی کے ضمن میں انھیںترجموں پر تکیہ کرنا پڑا۔ مصیبت یہ تھی کہ ان مختلف تراجم میں اختلاف متن بہت تھا۔ کسی جملہ کا ترجمہ ایک مترجم کس طرح کرتا تھا تو دوسرا مترجم کسی اور طرح۔ اس گڑبڑ کی وجہ سے سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اصل میں کیاکہا گیا ہو گا۔

سوال آخر میں یہ رہ جاتا ہے کہ ’’تکبر اور تعصب‘‘ کا مزاج ہے کیا؟ کسی ناول کو محض ناقدین کا زور قلم دوام نہیں بخش سکتا۔ خود ناول میں اتنی جان ہونی چاہئے کہ بدلتے زمانوں کی یلغار بھی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ اوسٹن کے ناول کوا یک سطح پر قصباتی ماحول میں رہنے سہنے اور متوسط طبقے کے افراد پر ایسا طنز ملیح سمجھا جا سکتا ہے جس میں مزاح بھی موجود ہے اور بشری کمزوریوں کے لئے ہمدردی بھی۔ یہ سمجھنا کہ روایتی انداز میں بسر کی ہوئی زندگی‘جس میں افراد ہر طرف سے سماجی‘ خاندانی اور معاشی پابندیوں میں جکڑے ہوئے ہوں‘ تشویش اور ابہام سے خالی ہو گی‘ بالکل ہی مہمل معلوم ہوتا ہے۔ اگر ایلزبتھ اور ڈارسی کے تعلقات ہی کا بغور جائزہ لیا جائے تو مصنفہ کچھ یہ کہتی معلوم ہوتی ہے کہ انسانی فطرت ناقابل فہم اور سیال ہے ا ور ان دونوں میں سے ہر کوئی نہ اپنے آپ سے پوری طرح آگاہ ہوتا ہے نہ دوسرے سے ۔اس ناول کو ایک سطح پر اس مصرعے کی تفسیر سمجھنا چاہئے: ’’شاد بایدزیستن ناشاد بایدزیستن‘‘ چوں کہ انسان روز اول سے اپنی اپنی زندگیوں میں قید و بند کے نئے سلسلے بننے اور انھیں سلسلوں کو از سر نو ادھیڑنے کے مشغلوں میں الجھے رہتے ہیں اس لئے اس بظاہر سادہ مگر بباطن پرکار ناول کی دل آویزی کبھی ختم نہ ہو سکے گی۔n

(ان دونوں کتابوں کو القا پبلی کیشنز لاہور نے شائع کیا ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔