مستقل مزاجی ضروری ہے

شایان تمثیل  اتوار 20 اپريل 2014
waqar.ahmed@express.com.pk

[email protected]

اکثر لوگ رابطہ کرکے سوال کرتے ہیں کہ مشقیں جاری رکھیں یا ترک کردیں؟ جب کہ وہ ان مشقوں سے خاطر خواہ فوائد بھی حاصل کررہے ہیں۔ مشقوں کی بدولت احساس کمتری اور خوف پر غالب پاچکے ہیں۔ کتنے لوگ ایسے ہیں جو پابندی سے گھنٹہ گھنٹہ بھر اکھاڑے میں ورزش کرتے ہیں، صبح سویرے ٹہلنے کو نکلتے ہیں اور میلوں کا چکر کاٹ کر گھر لوٹتے ہیں، سوئمنگ کرتے ہیں، دوڑتے ہیں، بھاگتے میں مگدر ہلاتے ہیں، سر کے بل کھڑے ہوتے ہیں، ڈنڈ پیلتے ہیں اور نجانے جسمانی صحت اور تن سازی کے لیے کیا کیا کرتے ہیں اور پھر عمر بھر اس عہد کو نباہتے ہیں لیکن مشق تنفس نور یا اسی قبیل کی دیگر مشقوں کے طلبا پر حیرت ہوتی ہے کہ وہ روحانی صحت اور ذہنی ترقی کے لیے بیس پچیس منٹ تک کردار سازی اور تعمیر و تنظیم شخصیت کی مجوزہ مشقیں نہیں کرسکتے۔

یہ عجیب سی بات ہے، حالانکہ جسم پر ذہن کو واضح برتری حاصل ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ جسمانی صحت ذہنی صحت میں اضافے کا سبب ہے، تاہم آدمی لولا لنگڑا بھی ہو مگر ذہنی طور پر صحت مند ہو تو ان جسمانی معذوریوں پر غالب آسکتا ہے۔ تیمور لنگڑا تھا لیکن اس کی ذہنی اور دماغی صلاحیتوں سے کسے انکار ہے۔ رودکی اندھا تھا، فارسی شعرا کا باوا آدم قرار پایا۔ حکیم ابن مقنع چیچک رو اور بھینگا تھا، اس نے اپنی کیمیا سازی سے مصنوعی چاند بنایا تھا، یہ چاند شہر نخشب کے ایک کنویں سے طلوع ہوتا اور ماحول کو پرنور بنا دیتا۔ رنجیت سنگھ کانا تھا، فاتح پنجاب ٹھہرا۔ گاندھی اور قائداعظم جسمانی طور پر کتنے نحیف و نزار تھے مگر ان کی ذہنی توانائیاں!

یقیناً آدمی جسمانی طور پر علیل ہو تو اس کی قوت فکر، قوت فیصلہ اور خود اعتمادی میں محسوس کمی ہوجاتی ہے۔ مثل مشہور ہے کہ ’’رائے علیل علیل‘‘ (بیمار کی رائے بھی بیمار ہوا کرتی ہے)۔ تاہم بنیادی اہمیت ذہنی اور نفسیاتی صحت مندی کو حاصل ہے یعنی من درستی، تن درستی پر فائق ہے۔ ان مشقوں کا کوئی بھی طالب علم ہو، میں نہیں سمجھ سکا کہ جن مشقوں سے ان کے دل و دماغ کو اتنا فائدہ پہنچتا ہے یا پہنچ چکا ہے، وہ ان مشقوں کو ترک کرسکتے ہیں؟ روزانہ بیس پچیس منٹ کی یہ مشقیں برابر کرلی جائیں تو جان و جسم اور ذہن و بدن دونوں کے لیے حیات بخش ہیں۔ جو حضرات ان مشقوں میں ناکام رہتے ہیں (اور ان کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے) ان کو بھی ہمت نہ ہارنی چاہیے اور ہر ناکامی کے بعد پھر یہ مشقیں شروع کردینی چاہئیں۔ انجام کار کامیابی نصیب ہوگی۔

ان تمام مشقوں میں بنیادی کھیل ارتکاز توجہ کا ہے۔ اگر آپ ایک نقطے پر تمام تر توجہ مرکوز کردینے میں کامیاب ہوگئے تو یوں سمجھیے کہ نصف دنیا فتح کرلی، بلکہ پوری دنیا۔ بے شک یہ صحیح ہے کہ ایک نقطے پر توجہ کو مرکوز کردینا کوئی آسان کام نہیں، ذہن سیماب صفت ہے، ایک مرکز پر اس کا قیام آسان نہیں ہے، تاہم بتدریج تربیت اور مسلسل کوشش سے آدمی ان مشقوں میں کامیابی حاصل کرلیتا ہے۔ارتکاز توجہ کی مشقوں کا ظاہری پہلو تو یہ ہے کہ آپ کسی ایک نقطے یا شے پر نظروں کے ساتھ اپنی مکمل توجہ مرکوز کردیں اور نظر کی طرح خیال کو بھی ایک لمحے وہاں سے نہ ہٹنے دیں، توجہ کو بھی وہیں جمائے رکھیں اور باطنی ارتکاز یہ ہے کہ کسی ایک تصور پر خیال کی پوری قوت لگادیں اور اس تصور کو استحکام کے ساتھ دماغ میں قائم رکھیں۔

تصور شیخ کی ابتدا یہیں سے ہوتی ہے، صوفیا مرید کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ اپنے دماغ میں پیر و مرشد کا تصور قائم کرے اور اس تصور کو حاصل فکر و نظر بنالے، اس کی سوچ، اس کی توجہ ، اس کی ذہنی توانائی اور دماغی قوت کا ہدف صرف ایک یعنی اپنے شیخ کا تصور۔ بہرحال لب لباب یہی ہے کہ کسی بھی عمل میں کامیاب ہونے کے لیے مستقل مزاجی شرط اولیں کی حیثیت رکھتی ہے۔موضوع ابھی اختتام پذیر نہیں ہوا لیکن کچھ خبریں اپنی اہمیت کے لحاظ سے توجہ کی متقاضی ہیں۔ گزشتہ ہفتے تواتر کے ساتھ ایسے واقعات و سانحات پیش آئے جن کا محرک جعلی عامل یا ان کے مشورے تھے۔ ہم اس سے پہلے بھی جعلی پیروں اور عاملین کے ہتھکنڈوں پر روشنی ڈال چکے ہیں اور اس وقت تک لکھتے رہیں گے جب تک جعلی عاملوں کے ہاتھوں لٹنے کے واقعات مکمل طور پر ختم نہیں ہوجاتے۔

گزشتہ ہفتے اطلاع ملی کہ ملتان میں ایک نوجوان نے دفینے کے لالچ میں زیر زمین طویل سرنگ کھودی جہاں پھنس کر وہ ’زندگی‘ جیسے انمول خزانے سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اس کم عقل نوجوان کو بہکانے والا اور خزانے کا لالچ دینے والا ایک جعلی پیر ہی تھا جس کے اکسانے پر وہ یہ غلط کر بیٹھا۔ جعلی عاملوں کے بہکانے کا سب سے لرزہ خیز واقعہ ایبٹ آباد میں پیش آیا جہاں عاقبت نااندیش سفاک شخص نے اپنی ہی بہن کے تین لخت جگر ذبح کر ڈالے۔ ابتدائی تحقیقات پر ملزم نے بتایا کہ اس کے پیر نے اسے مشورہ دیا تھا کہ اپنے حالات بہتر کرنے کے لیے اپنے بھانجوں کو قتل کردو۔

ایک عام ذہن انسانی بھی اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا کہ کسی معصوم کا قتل آپ کے مالی حالات بدل سکتا ہے لیکن جعلی عاملوں، پیروں فقیروں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ذہنی مریض نہ صرف ان باتوں کو سچ گردانتے ہیں بلکہ عمل کی راہوں پر بھی چل پڑتے ہیں۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے، حالات بہتر ہونا تو درکنار اب وہ شخص جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے، تقدیر اس کی زندگی کا فیصلہ کس طرح کرے گی یہ نہ اس شخص کا جعلی پیر بتا سکتا ہے نہ ہی فی الحال ہم اس پر تبصرہ کریں گے لیکن جعلی عاملوں کے چنگل میں پھنسے لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے یہ واقعہ مشعل راہ ثابت ہوسکتا ہے اگر وہ اپنے دماغ کے بند دریچے کھول کر غور کریں۔

ہمارے معاشرے میں تعلیم و شعور کی کمی کے باعث ایسے واقعات تقریباً ہر دوسرے روز رونما ہوتے ہیں۔ نوسرباز وال چاکنگ اور پمفلٹ کے ذریعے اپنی بھرپور اشتہاری مہم چلاتے ہیں اور اپنے گھنائونے کاروبار کو ترقی دیتے ہیں، سادہ لوح عوام جعلی عاملوں، پیروں، حکیموں، ڈاکٹروں اور جادوگروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور نہ صرف اپنی جمع پونجی بلکہ اپنی جان سے بھی جاتے ہیں۔ انسانیت کے یہ دشمن بڑے دھڑلے سے اپنے ٹھکانے، آستانے، دواخانے اور دکانیں چلاتے ہیں۔

کیا قانون کے رکھوالے ان مکروہ دھندا کرنیوالوں سے ناواقف ہیں؟ کیا انھیں شہر کراچی اور دیگر شہروں میں وال چاکنگ کے یہ کھلے اشتہار نظر نہیں آتے؟ سادہ لوح افراد کو لوٹنے والے افراد کا نیٹ ورک بڑا ہی مضبوط اور فعال ہے، معاشرے کے ایسے رستے ناسوروں کے خلاف ایک آپریشن کی ضرورت ہے۔ نہ صرف شہر سے ان تمام وال چاکنگ کا خاتمہ کیا جائے بلکہ ان تمام لوگوں کے خلاف موثر کارروائی بھی کی جائے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے اور ملتان کے لالچی نوجوان اور ایبٹ آباد کے سفاک ماموں جیسا کردار آپ کے اپنے گھر میں آبسے۔

 

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔