بلدیاتی قوانین: مسئلہ کیا ہے…

سید منظور عباس  اتوار 20 اپريل 2014

اس میں کوئی شک نہیں کہ بلدیاتی ادارے شہری ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور عوام کے مسائل مقامی سطح پر حل ہوتے ہیں مگر ہمارے ملک میں بلدیاتی تاریخ آمر کے ساتھ وابستہ ہے جس نے اپنی غیر آئینی حکومت کو دوام دینے کے لیے بلدیاتی اداروں کا سہارا لیا، جس کے باعث عوامی ترقی کے بجائے انفرادی سطح پر نام نہاد منتخب نمایندوں نے اس ملک کے جمہوری اداروں کو ترقی دینے کے بجائے اپنی جیبیں بھرنی شروع کیں، یہ سلسلہ ایوب آمریت سے شروع ہونے کے بعد ہر بلدیاتی دور میں جاری رہا۔

ایوب نے بنیادی جمہوریت کے نام پر اپنے حواریوں کی ایک فوج پیدا کی جس نے اسے صدر بننے کا موقع فراہم کیا۔ اس ملک میں محدود جمہوریت متعارف کرواتے ہوئے محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دینے کے بعد اس ملک کے جمہوری اداروں کو کاری ضرب لگائی۔  شہید بھٹو کی شکل میں سیکولر سوچ کو پذیرائی ملی مگر اسے تھوڑی مدت کے بعد نشان عبرت بنادیا گیا جس کے بعد آنے والے ادوار میں سیکولر قوتیں مذہبی طاقتوں سے تعاون کرتی نظر آتی ہیں۔ ضیا  دور میں قائم ہونے والے بلدیاتی نظام نے نئی لیڈر شپ متعارف کرائی جو انفرادی سطح پر طاقت کا منبع تھی۔

اس لیڈر شپ کے ذریعے غیر جماعتی جمہوریت متعارف ہوئی اور حقیقی جمہوری لیڈروں کو قید میں ڈال دیا۔ اس دور میں پیدا ہونے والی لیڈرشپ نے آنے والے ادوار میں اہم کردار ادا کیا مگر وہ غیر جمہوری رویوں سے جان نہ چھڑوا سکی کیونکہ اس دوران طاقت پارلیمنٹ نہیں بلکہ افراد کے پاس تھی جس کی وجہ سے سیکولر طاقتوں کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ ضیا کے بعد مشرف نے بلدیاتی انتخاب کروائے جن میں صوبوں کو نظرانداز کرتے ہوئے طاقت وفاق کے سپرد کی گئی جو عوام اور جمہوریت کی جگہ مشرف کی طاقت کا باعث تھی صوبے کمزور ہونے کی وجہ سے اس میں عصبیت پیدا ہوئی اور وفاق خطرے میں محسوس ہونے لگا۔

مشرف کے بعد پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں بلدیاتی اداروں کی طرف توجہ نہیں دی گئی کیونکہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹ کو مضبوط بنانا چاہتی تھی ۔ مشرف کی زیر قیادت ملک میں جمہوری ادارے کمزور ہوئے تھے جن کی مضبوطی اہم تقاضا تھی جب کہ موجودہ دور کے شروع ہوتے ہی بلدیاتی انتخابات کے لیے شور مچا اور ملک ایک بار پھر بلدیاتی جمہوریت کی طرف رواں ہے۔

اس دوران یہ بات کھل کر واضح ہوگئی کہ پاکستان میں جمہوری اقدار کا کون مخالف ہے اور کون حمایتی کیونکہ جب صوبوں نے اپنے بلدیاتی قوانین بنانے شروع کیے تو سب سے پہلے جماعتی اور غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن کا سوال سامنے آیا جس پر تمام صوبوں میں دو رائے موجود تھیں۔ اگر سیاسی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو سیاسی جماعتوں کی مضبوطی کے بغیر سیاسی عمل کا استحکام ناممکن ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ سیاسی پارٹیوں کو گاؤں کی سطح پر منظم کیا جائے اس کے لیے جماعتی بنیادوں پر ہر سطح پر الیکشن ضروری ہیں اور اسی طریقے سے بلدیاتی نظام آیا جس پر تمام صوبوں میں دو رائے موجود تھیں۔

پاکستان میں بلدیاتی اداروں کی تاریخ جمہوریت دشمن اقدار کی حامل رہی ہے بلکہ بلدیاتی اداروں پر اٹھنے والے اخراجات زیادہ ہونے کی وجہ سے انھیں خودانحصار ہونے کی بجائے مرکز یا صوبے کی امداد پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ بلدیاتی اداروں میں براجمان مخصوص گروپ اپنی مرضی کے مطابق حالات کو ٹرن دینے کی کوشش میں شہری امن کے لیے ہونے والی تمام حکومتی کوششوں کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اگر مشرف کے بلدیاتی نظام کا جائزہ لیا جائے تو ناظم کو ساتھ رکھنیکے لیے حکومت نے ان کے اوپر احتساب کو ختم کردیا تھا جس کی وجہ سے اس دور میں بڑی بڑی کرپشن اور بلدیاتی فنڈز کو غلط استعمال کیا گیا۔

پیپلز پارٹی کی تاریخ گواہ ہے کہ اس نے اپنے دور اقتدار میں ہمیشہ اداروں کی ترقی اور خودمختاری کے لیے کوشش کی ہے۔ متوقع بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کوشش ہے کہ اس کے دور حکومت میں ایسا بلدیاتی نظام پیش کیا جائے جو مستقبل میں ملک میں جمہوریت کی مضبوطی، جمہوری اقدار کی بحالی اور بلدیاتی اداروں کو عوام دوست بنانے کے لیے مستقبل کی راہیں متعین کرے مگر وہ تمام مقتدر طبقات جو بلدیاتی نظام کو ذاتی ترقی کا مخصوص عزائم کی تکمیل کا ذریعہ بنائے ہوئے تھے۔ ان کو ایسا نظام کسی صورت پسند نہیں اس لیے وہ  اس نظام کے نفاذ کو روکنے یا اس میں من مانی تبدیلیاں کروانے کی کوشش میں تمام ذرائع بروئے کار لا رہے ہیں۔

ان دنوں بلدیاتی نظام میں جن تبدیلیوں کا پراپیگنڈہ زوروں پر ہے ان میں دو تبدیلیاں گورنر سندھ عشرت العباد کے دستخط سے وجود میں آئیں مگر اس وقت کوئی شور نہیں مچا جب صوبائی اسمبلی نے اس کی منظوری دی تو اس عمل کے خلاف شور عروج پر پہنچ گیا یقینی طور پر اس دو رخی پالیسی کی وجوہات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آج تک اپوزیشن نے بلدیاتی قوانین کے متن کو زیر بحث لاتے ہوئے اس میں کسی خامی کی نشاندہی نہیں کی اصولی طور پر ذمے دار اپوزیشن کا فرض ہے کہ وہ کسی بھی منظور ہونے والے قانون میں عوام دشمن اقدام کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کو شق وار زیر بحث لائے اور ان خامیوں کو عوام کے سامنے رکھے تاکہ لوگوں کے معلومات کے حق کو تسلیم کیا جائے۔

صرف حلقہ بندیوں پر شور مچا ہوا ہے تو اس بارے میں ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا گزشتہ بلدیاتی انتخابات سے پہلے حلقہ بندیوں پر نظر ثانی نہیں ہوئی تھی اس وقت تو ساتھ کھڑے ہوکر اپنی مرضی کی حلقہ بندیاں ترتیب دی گئیں ماضی میں کسی دوسرے گروپ کی غیر موجودگی کی وجہ سے یہ عمل خاموشی سے عمل میں آیا مگر آج یہی عمل شور کا باعث بن رہا ہے جب کہ ملکی حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہر سیاسی جماعت کو مفاہمت کی پالیسی کو اپناتے ہوئے ملکی ترقی کے لیے ہم آواز ہونا چاہیے۔ لفظی جنگ اور فیس سیونگ کے قطع نظر آگے بڑھنے کے لیے بہت ہمت کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لیے ذاتی مفادات کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے جو ہماری اپوزیشن کے بس سے باہر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔