بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں!

عمر قاضی  اتوار 20 اپريل 2014
umerkazi555@yahoo.com

[email protected]

جب جادو جیسا نثر لکھنے والے ادیب گیبریئل گارشیا مارکیز کے ابدی الوداع کی خبر ’’بریکنگ نیوز‘‘ بن کر ٹی وی اسکرین پر لہرائی تو میں نے بھیگی ہوئی آنکھوں کے ساتھ بلھے شاہ کے یہ مشہور الفاظ دہرائے ’’بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں!‘‘

موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ وہ موت جس کے بارے میں بھارت کے رومانوی شاعر گلزار نے لکھا ہے کہ:

’’سب پہ آتی ہے

سب کی باری ہے

موت تو اک اٹل حقیقت ہے

زندگی سب پہ کیوں نہیں آتی؟‘‘

مگر روس کے بالشویک انقلاب سے دس برس بعد کولمبیا کے چھوٹے سے گاؤں ارکاٹکا میں جنم لینے والا وہ بچہ جس کے خاندان نے یہ چاہا کہ وہ قانون دان بنے مگر اس کے مقدر میں قلم کا رشتہ لکھا ہوا تھا۔ اس لیے اس نے قانون کی تعلیم کو چھوڑ کر صحافت اختیار کرلی اور خبروں کی تلاش کرتے ہوئے وہ پہلی بار روم گیا پھر اس کی ساری زندگی اپنے وطن سے دور بسر ہوئی۔ اگر وہ چاہتا تو آسانی کے ساتھ پیرس یا نیویارک میں رہ سکتا تھا۔ وہ جس کا لگاؤ انقلابی ادب سے بھی تھا اور اس کے حلقے میں بہت سارے مارکسی دانشور اور سیاستدان تھے اور سب سے زیادہ وہ کیوبا کے انقلابی حکمران فیدل کاسترو کا قریبی دوست تھا۔

اس حوالے سے اس کے لیے یہ بہت آسان تھا کہ ماسکو میں بارعایت زندگی جیتا مگر اس کو میکسیکو کی ہوائیں اس قدر پسند تھیں کہ اس نے اور کسی ملک میں رہنے کے متعلق سوچا بھی نہیں۔ نصف صدی سے زائد عرصہ میکسیکو میں رہنے والے گیبریئل گارشیا مارکیز نے جوانی میں لکھنا شروع کیا۔ ہسپانوی زبان پڑھنے والوں کا تو وہ گزشتہ صدی کے پانچویں عشرے سے محبوب رائٹر بن چکا تھا مگر ہمیں اس کے بارے میں تب معلوم ہوا جب 1982 کے دوراں اسے ادب کے عالمی انعام ’’نوبل پرائز‘‘ سے نوازا گیا اور جب یورپ اور تیسری دنیا کے ادب دوستوں نے پوچھنا شروع کیا کہ ’ گیبریئل گارشیا مارکیز کون ہیں؟‘‘ تب ان کی کتاب ’’تنہائی کے ایک سو برس‘‘ منظرعام پہ آئی اور وہ کتاب نشے جیسی تھی اور اس ادبی نشے کی مانگ بڑھی تو اس کی دیگر کتابیں بھی شایع ہونے لگیں۔

اس طرح پوری دنیا کے ادب کو چاہنے والے لوگوں نے ان کی کتابیں ’’لو ان ٹائم آف کولرا‘‘ یعنی (وبا کے دنوں میں محبت) اور ’’پیٹراک کی خزاں‘‘ جیسی خوبصورت کہانیاں قارئین اور ناقدین کے سامنے آئیں تو انھوں نے گیبریئل گارشیا مارکیز کے لکھنے کے انداز کو ’’جادوئی نثر نگاری‘‘ قرار دیا اور جب صحافیوں نے ان سے پوچھا کہ ’’آپ ایسی نثر کس طرح لکھتے ہیں؟‘‘ تو مارکیز کسی عالمی سطح کے ادیب کا نام لے کر اس سے متاثر ہونے کی بات کرنے کے بجائے اپنے بچپن میں سنی ہوئی کہانیوں کا تذکرہ کرنے لگتا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ گیبریئل گارشیا مارکیز ادب کے اس دور کا آخری بڑا ادیب تھا جو دور تخلیقی نثر نگاری کے حوالے سے سب سے ویران دور سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ اس دور میں لکھنے والے زیادہ تر میڈیا کے حوالے ہوگئے اور فلموں اور ٹی وی کی شوبز دنیا کی روشیوں نے ادب کو اندھیرے میں غرق کردیا۔ مگر گیبریئل گارشیا مارکیز نے ہمیشہ قلم کے ساتھ اپنا رشتہ برقرار رکھا۔ اس نے اس دور میں محبت کی تلاش کی، جس دور میں محبت ناپید ہوچکی تھی۔ فیدل کاسترو کے ساتھ اس کی دوستی کے حوالے سے مغربی میڈیا نے اس کے سیاسی کردار پر بھی انگلی اٹھائی مگر مارکیز نے ہمیشہ یہ کہا کہ ’’کاسترو سے میرا رشتہ کتابوں کا رشتہ ہے‘‘۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ گیبریئل گارشیا مارکیز کی ابتدا صحافت سے ہوئی تھی۔

اس حوالے سے وہ سیاسی شعور کے مالک تھے اور اسے معلوم تھا کہ دنیا میں ناانصافی کی اصل وجوہات کیا ہیں؟ اگر وہ اپنا سیاسی قد بڑھانے کی کوشش کرتا تو دنیا کی کوئی قوت بھی اسے روک نہیں پاتی۔ اگر وہ چاہتا تو اعلیٰ سرکاری عہدوں پر براجمان رہ سکتا تھا، مگر اس کو معلوم تھا کہ’’ کرسی ایک قید ہوا کرتی ہے‘‘ اس لیے اس نے کوئی عہدہ قبول نہیں کیا اور اپنی ساری زندگی اس قلم کے حوالے کردی جس کی وجہ سے دنیا میں کروڑوں لوگ اسے محبت سے پڑھنے لگے۔ یہ ایک عالم آشکار سچائی ہے کہ اس کی کتاب ’’تنہائی کے ایک سو برس‘‘ کی تین کروڑ کاپیاں فروخت ہوئیں۔ وہ ایک تخلیقی ذہن والا بہت دانا انسان تھا۔ اس کو معلوم تھا کہ سرکاری عہدے کچھ نہیں ہوتے۔ اس کا عہدہ پڑھنے والے دلوں میں پیدا ہونے والا وہ مقام ہے جو ایک ادیب اپنے قلم سے حاصل کرتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ انسان کی سب سے بڑی حاصلات اس کی آزادی ہے، اس لیے وہ آزادی سے جیتا رہا اور لکھتا رہا۔

اس کو دنیا کے اکثر ادیبوں کی طرح پینے کا شوق تھا اور اس شوق کی قیمت اس نے معدے کے السر کی صورت ادا کی۔ وہ بہت عرصہ بیمار رہا۔ میکسیکو اور کولمبیا کے لوگ اس کی علالت کی وجہ سے بہت پریشان تھے۔ لوگ اخبارات کے دفاتر فون کرتے اور اپنے جاننے والے صحافیوں سے تقاضا کرتے انھیں گیبریئل گارشیا مارکیز کا انٹرویو پڑھنا ہے مگر بیماری کی وجہ سے مارکیز کسی کو انٹرویو نہیں دے رہے تھے اور جب کسی قریبی ایڈیٹر نے ضد کی تو وہ انکار نہ کرسکے اور جب وہ ایڈیٹر ان سے انٹرویو کرنے لگے تب گیبریئل گارشیا مارکیز نے اپنا گلاس بھرا تو ان کے ایڈیٹر دوست نے ان سے پوچھا کہ ’’آپ کے السر کا کیا حال ہے؟‘‘ تو مارکیز نے اپنے مخصوص انداز میں مسکراتے ہوئے کہا کہ ’’میں نے السر کے درد کے ساتھ جینا اور پینا سیکھ لیا ہے‘‘ ۔

گارشیا مارکیز کی تحریر میں صرف فرد کے جذبات اور احساسات کا عکس نظر نہیں آتا مگر اس کی تحریروں میں ہمیں اس دنیا کے درد کی بھرپور جھلک ملتی ہے جہاں ہسپانوی زبان بولی جاتی ہے۔ مارکیز کی آنکھوں میں اپنے لوگوں کے لیے ہی نہیں بلکہ اس پوری دنیا کی خاطر آزادی کے خواب تھے۔ خاص طور پر وہ دنیا جہاں بار بار عوام کی جمہوری آزادیوں کا گلا دبایا جاتا ہے اور ان پر آمریت مسلط کی جاتی ہے۔ وہ بیسویں اور اکیسویں صدی کے دوراں انسانیت کے شعور کی صدا تھے۔

اس لیے لوگوں سے اسے بہت زیادہ محبت ملی اور یہ ان کی مقبولیت تھی کہ امریکا، کیوبا، کولمبیا اور میکسیکو کے حکمران گیبریئل گارشیا مارکیز سے ہاتھ ملاتے ہوئے فخر محسوس کرتے۔ یہی سبب ہے کہ ان کی وفات پر امریکا کے صدر بارک اوباما سے لے کر کولمبیا کے صدر تک سب نے ان کی موت کو عظیم سانحہ قرار دیا ہے۔ کولمبیا کی پاپ اسٹار شکیرا کا کہنا ہے کہ ’’ گیبریئل گارشیا مارکیز ہمیشہ ان کے دل میں رہے گا‘‘ اور عالمی سطح کے ادیبوں نے تو ان کے لیے جو الفاظ استعمال کیے ہوں گے ان کو تو آپ بغیر پڑھے بھی سمجھ سکتے ہیں۔

اکثر لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ گیبریئل گارشیا مارکیز کی موت ایک عظیم تخلیقار کی موت ہے مگر میرا خیال ہے جو لوگ ایسا اور اس قدر لکھتے ہیں وہ اپنی زندگی میں ایسی امرتا حاصل کرلیتے ہیں کہ موت ان کو چھو بھی نہیں سکتی، کیونکہ مٹی کا جسم تو ہر حال میں مٹی کے حوالے ہونا ہے مگر گیبریئل گارشیا مارکیزکے افکار اور ان کے کردار اور ان کردار کے حوالے سے لکھے ہوئے ان کے الفاظ ہمیشہ پڑھنے والوں کے دلوں میں رہیں گے اور اپنے اس انداز کے حوالے سے وہ دنیا کی ان شخصیات میں شامل رہیں گے جن کا نام لکھ کر ہم انھیں عزت اور محبت دیتے ہوئے ان کے لیے پنجاب کے عظیم صوفی شاعر بابا بلھے شاہ کے یہ خوبصورت الفاظ لکھ سکتے ہیں کہ:

’’بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں

گور پیا کوئی ہور!!‘‘

وہ عظیم ادیب جس کی آخری رسومات ادا کرکے عالمی عزت و احترام کے ساتھ سپرد خاک کیا جائے گا اور اس کی آخری رسومات ٹی وی چینلوں پر لائیو دکھائی جائیں گی اور رپورٹز ہاتھ میں کیمرہ پکڑے بتائیں گے کہ ’’گارشیا مارکیز مٹی میں مدفون ہوچکے ہیں‘‘ مگر وہ نہیں جانتے کہ جو دلوں میں رہتے ہیں وہ مٹی میں دفن نہیں ہوتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔