کہانی کچھ اسٹیج ڈراموں کی…

عینی نیازی  اتوار 20 اپريل 2014

برصغیر کی تاریخ میں اسٹیج پر پہلا اردو ڈرامہ نواب واجد علی شاہ کے دور میں پیش کیا گیا، جسے آغا حسن امانت نے 1953 میں (اندر سبھا) کے نام سے تحریر کیا۔ اس سے قبل سنسکرت میں ہندو دھرم سے موسوم کہانیوں پر مبنی رامائن، مہابھارت، کالی داس جیسے کھیل اسٹیج کیے جاتے تھے، اردو اسٹیج ڈرامے پیش کرنے میں پارسی سب سے آگے تھے۔ پارسی تھیٹریکل کمپنی آف بمبئی، نیو الفریڈ تھیٹریکل کمپنی اور بالی والا تھیٹریکل کمپنی اس دور کے کامیاب تھیٹر مانے جاتے تھے۔

وکٹورین دور کے یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد انگلستان کا سفر بھی کرتے تھے تو وہاں کے اسٹیج ڈراموں پر گہری نظر رکھتے، پھر اردو زبان کو دھیان میں رکھ کر چند مخصوص کردار چن کر برصغیر لاتے، انھیں اردو میں ڈھال کر پیش کرتے، جو خاصے مقبول ہوتے۔ یورپ میں شیکسپیئر کو اسٹیج ڈراموں کے حوالے سے جو بام عروج حاصل ہوا، وہ آج تک کوئی حاصل نہ کرسکا۔ ان کے ڈرامے آج بھی شائقین اسی ذوق و شوق سے دیکھتے ہیں۔ شیکسپیئر کا اپنے کام میں گہرا لگائو ہی تھا جو ساری دنیا کو اسٹیج مانتے تھے کہ ہر انسان آتا ہے، اپنا کردار ادا کرتا اور چلا جاتا ہے۔

برصغیر میں آغا حشر کو اردو زبان کا شیکسپیئر کہا جاتا ہے، شیکسپیئر کے ڈرامے ’وائٹ بلڈ‘ سے متاثر ہوکر ’سفید خون‘ نامی کھیل تحریر کیا۔ انھوں نے دی بمبئی تھیٹریکل کمپنی میں اپنا لکھا ہوا پہلا کھیل ’’مرید شک‘‘ کے نام سے پیش کیا۔ آغا حشر ایک بڑے کہانی کار، شاعر اور ڈرامہ نگار تھے۔ 1929 میں اپنا شاہکار ڈرامہ ’رستم و سہراب‘ لکھا، جس نے مقبولیت کے ریکارڈ بنائے۔ مرزا قلیچ بیگ، مولانا ظفرعلی خان، سعادت حسن منٹو اور عبدالحلیم شرر نے بہترین ادبی ڈرامے تحریر کیے۔

امتیاز علی تاج کا نام اردو تھیٹر ڈراموں میں اہم مقام رکھتا ہے۔ انھوں نے کالج کے زمانے سے ہی شیکسپیئر سمیت بلند پایہ انگریزی ڈراموں کو اردو میں ترجمے کیے، بعد ازاں انھیں اسٹیج پر پیش کیا۔ 1932 میں ’انار کلی‘ کے نام سے ایک کھیل پیش کیا جو اردو اسٹیج ڈراموں میں سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے، اسی کھیل نے آگے چل کر مغل اعظم جیسی شاندار کامیاب فلم بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ ان لوگوں کا جنون و شوق ہی تھا کہ ایک ایسے زمانے میں جب ٹیکنالوجی کے ثمرات نہ تھے، تھیٹر کے کارکن اعلیٰ سے اعلیٰ کام پیش کرنے کی تگ و دو میں لگے رہتے تھے۔ ان ڈراموں کی کامیابیوں کے لیے انتھک محنت اور بہترین دماغ کام کرتے تھے۔ امتیاز علی تاج اپنی یادداشت میں ایسے نابغہ روزگار کا ذکر کرتے ہیں۔ چند ایک کا ذکر پڑھتے جائیے۔

سین سینری بنانے والے استاد حسین بخش جن کا ثانی برصغیر پھر کبھی پیش نہ کرسکا، وہ پڑھ لکھ نہیںسکتے تھے مگر مناسب رنگوں کو استعمال میں لاکر وسیع پیمانے پر ایسے نقش و نگار بنانا کہ تمام حصے زیب دیں، جدا اور مشکل فن کو بہترین  مہارت سے انجام دیتے تھے۔ لطف یہ کہ دونوں ہاتھوں سے کام کی رفتار ایک سی تھی۔ استاد جھنڈے خان تماشوں کی طرزیں بنایا کرتے تھے، تھیٹر کی دنیا میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا، انھوں نے فلم میں بھی بہت نام کمایا۔

کائوس جی کھٹاؤ بہت باکمال ایکٹرز میں شامل تھے، شیکسپیئر کے کردار ہیلمٹ پر انھیں بڑی گرفت تھی، اسٹیج پر ان کی جادوگری کو تماشائی محو ہو کر دیکھتے تھے۔ اخباروں اور دیگر ذرایع سے اشتہارات دیے جاتے، پاربتی اور گوہر بے مثال ایکٹریس تھیں، حسن تو معمولی پایا تھا مگر اداکاری کا ایسا حسن اسٹیج پر جمال بخشتا کہ ایک دنیا اس کا کلمہ پڑھتی تھی، بازار میں ان کی تصویروں کے کارڈ فروخت ہوتے، اسپیشل کلاس کے ٹکٹ پچیس روپے میں پہلے سے بک کیے جاتے تھے۔ لاہور کی گلوب تھیٹریکل کمپنی کے لیے الفریڈ تھیٹر ایک بڑے معرکے کا کھیل بیتاب کا مہا بھارت لے کر آئی، یہ کھیل دھندے کے خیال سے دکھائو میں سب تماشوں سے بڑھ کر تھا۔

قیام پاکستان کے بعد بھی تھیٹر کی دنیا میں دونوں ملکوں کے معیار پر کوئی خاص فرق نہیں آیا تھا، اسی انداز کی جاتک کہانیوں اور کلچر کو کھیل میں پیش کیا جاتا رہا، پھر آزادی کے بعد یہ بھی ہوا کہ چھوٹے چھوٹے تھیٹریکل گروپ کی تشکیل کا دور شروع ہوا، جن کی کامیابی میں بڑا ہاتھ مہر نگار اور خواجہ معین الدین کا تھا۔ خواجہ صاحب کے لکھے ڈائیلاگ سماجی زندگی سے قریب نظر آتے ہیں، ان کے مشہور و معروف ڈرامے ’لال قلعے سے لالو کھیت تک‘ اور ’مرزا غالب بندر روڈ پر‘ آج بھی پسند کیے جاتے ہیں۔ رفیع پیر گھرانے نے تھیٹر کی بقا میں اہم کردار ادا کیا اور اب بھی کر رہے ہیں، مگر ریڈیو، ٹی وی کی گھر گھر آمد نے یہ سلسلہ کم ضرور کیا۔

1980 میں عمر شریف نے جب اسٹیج کی دنیا میں قدم رکھا تو گویا وہ چھاگئے، معین اختر کے بعد پاکستان کو دوسرا حاضر جواب مزاح نگار دستیاب ہوا۔ بڈھا گھر پر ہے، بکرا قسطوں پر، ان کے کامیاب اسٹیج ڈرامے رہے، لاہور میں ناہید خانم، مستانہ، ببو برال اور امان اﷲ نئے انداز سے جلوہ گر ہوئے، لیکن پھر آہستہ آہستہ تھیٹر کم کمرشل بڑھتا گیا، اعلیٰ درجے کی کردار نگاری، کہانی ڈائیلاگ سب پر زندگی کی بنیادی ضرورتیں حاوی ہوتی گئیں۔

ایک فنکار جو اسٹیج پر کھڑا آپ کو ہنسانے کی کوشش کررہا ہے، اس کے حالات زندگی کیا ہیں، وہ اندر سے کتنا پریشان و بدحال ہے، تھیٹر کے کم معاوضے نے اسٹیج کا جغرافیہ تبدیل کردیا۔ شائستہ اطوار نے پھکڑپن، ڈانس اور خراب زبان نے جگہ لے لی، اسٹیج  ڈرامے فیملی تفریح  کے لائق نہ رہے، دو دہائی تک اس پر جمود طاری رہا، البتہ اسٹیج ڈراموں کے سنجیدہ افراد کبھی کوئی اچھا کھیل پیش کرنے کی کوشش ضرور کرتے تھے۔

مگر اب چند سال سے عوام کی دلچسپی تھیٹر سے بڑھ گئی ہے، اچھا کام ہورہا ہے، پڑھے لکھے قابل لوگ اس کام میں دلچسپی لے رہے ہیں کہ اچھی کہانی، اعلیٰ درجے کی کردار نگاری اور محنت سے تھیٹر کی رونقیں بحال کی جاسکتی ہیں، شائقین تھیٹر کو مطمئن کیا جاسکتا ہے، انھیں وہ پیغام بھی پہنچایا جاسکتا ہے، جو ڈرامہ کا مقصد ہے۔ اس سلسلے میں اجوکا تھیٹر ہو یا ناپا کے ضیاء محی الدین، سب کا مشن ہے باصلاحیت پروفیشنلز آگے آئیں۔ کوپی کیٹس پروڈکشن کے تحت داور محمود نے انور مقصود کے لکھے ڈرامے پونے چودہ اگست، سوا چودہ اگست اور ہاف پلیٹ جیسے کامیاب ڈرامے تھیٹر پر پیش کیے، ان ڈراموں میں پاکستان کے حوالے سے کئی باتیں نئی نسل کو سیکھنے کو ملیں۔

اسی دوران انڈین اسٹار نصیر الدین شاہ نے ’عصمت آپا کے نام‘ عنوان سے منفرد اور شاندار کھیل پیش کیے، جنھیں تھیٹر شائقین نے خوب سراہا۔ پنجاب میں بھی لوک رس پنجاب گروپ نوجوان لڑکے لڑکیوں کا ایک خواب ہے، جس میں ان نوجوانوں کی کوشش ہے کہ تھیٹر ڈرامے کے ذریعے پنجاب کے کلچر کو جدید دنیا  کے ساتھ ہم آہنگ کرکے پیش کیا جائے اور یہ سکھایا جاسکے کہ تمام انسانوں کی عزت و احترام برابر ہے، یہ گروپ مادری بولی کے ذریعے پورے پنجاب میں تھیٹر ڈراموںکے ذریعے آگاہی پھیلانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ہمیں امید ہے کہ آگے چل کر بھی تھیٹر کے اداکار، کہانی کار اور ہدایت کار اچھوتے آئیڈیاز پیش کریں گے، جس سے تھیٹر کی رونقیں بحال ہوں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔