مصری حکومت ناخدا بن بیٹھی

سرور راجپوت  پير 21 اپريل 2014
مصر کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ کسی ایک فرد کے قتل کے جرم میں تقریبا1211افراد کو سزا سنائی جارہی ہو.

مصر کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ کسی ایک فرد کے قتل کے جرم میں تقریبا1211افراد کو سزا سنائی جارہی ہو.

حال ہی میں مصر کی ایک عدالت کے فیصلے پر پوری دنیا حیران رہ گئی تھی ۔اس فیصلے کے پسِ پردہ سیاسی انتقام کی بوآرہی ہے جس کی وجہ سے مصر کے دوست ممالک سمیت سعودی عرب بھی اس سے ناراض ہے ۔24 مارچ 2014 کو جنوبی مصر میں المنیا کرائم کورٹ کے جج سعید یوسف نے اخوانیوں کے 529 افراد کو پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ جبکہ 28 اپریل کو مزید 683 افراد کے خلاف ابھی فیصلہ آنا باقی ہے۔اہم بات یہ ہے کہ ان ملزمین میں الاخوان کے مرشد محمد بدیع بھی شامل ہیں۔ان کے بارے میں فیصلہ کیا ہوگا؟ یہ تو مقررہ دن ہی پتہ چلے گا۔مگر ملزموں کے دفاعی وکیل محمد طوسون کا کہنا ہے کہ جس طرح سے عدالت میں سنوائی ہورہی ہے اور دلائل کی سماعت کے بغیر ہی فیصلے سنائے گئے ہیں، اس سے تو یہی اشارہ ملتا ہے کہ بقیہ ملزمین کا انجام بھی وہی ہونے والا ہے جو 528 اخوانیوں کا ہوا ہے۔ یعنی ان کے خلاف بھی پھانسی کی سزا ہوسکتی ہے۔

جن افراد کو پھانسی کی سزا ہوچکی ہے ،اب ان کے سامنے ایک ہی راستہ بچ جاتا ہے کہ مفتی عام ان کو معاف کردیں۔ فی الوقت عدالت کے اس فیصلے کو مفتی عام کے پاس توثیق کے لئے بھیجا گیا ہے۔ اگر وہ اس کی توثیق کردیتے ہیں تو ان ملزمین کو سزا ہوجائے گی اور اگر مفتی عام نے اسے غیر شرعی بتا دیا تو ممکن ہے سزا میں تخفیف کردی جائے۔ مصر کے آئین کے مطابق مفتی عام کو صرف رائے دینے کا حق حاصل ہے ،جس کو ماننے یا نہ ماننے کا اختیار عدالت کو ہے۔ البتہ ان ملزمین کے لئے عدالت عالیہ میں اپیل کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ مصر کی تاریخ میں اگرچہ پہلے بھی بہت سے مجرموں کو پھانسی کی سزا دی جاچکی ہے۔ مگر ایک ساتھ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو پھانسی کی سزا دینا مصر کی تاریخ میں پہلا واقعہ ہے ۔ اس مقدمے کا تصفیہ عدالت کم سے کم وقت میں کردینا چاہتی تھی۔یہی وجہ ہے کہ مقدمہ شروع ہونے کے ادھے گھنٹے کے اندر تمام کارروائیاں مکمل کردی گئیں جبکہ مقدمے کی فائل کئی ہزار صفحات پر مشتمل ہیں جس کو پڑھنے میں اچھا خاصا وقت لگنا چاہئے مگر عدالت میں اس فائل کو صرف 4 منٹ کے اندر پڑھ کر سنا دیا گیا،نہ تو گواہ پیش کیے گئے اور نہ ہی ملزموں کو دفاع کا موقع دیا گیا۔

دوسری جانب امریکہ کا کہنا ہے کہ پھانسی کی سزا عالمی قوانین کے خلاف ہے اور مصر اس عالمی قانون کا لحاظ رکھے۔جبکہ امنیسٹی انٹرنیشنل سزائے موت کی کھل کر مخالفت کرتے ہوئے پوری دنیا سے اپیل کررہا ہے کہ اس سزا کو ختم کرادیا جائے۔ اگرچہ اس وقت دنیا کے زیادہ تر ممالک سزائے موت کے قانون کو ترک کر چکے ہیں لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ ابھی بھی دنیا کی تقریباً 60 فیصد آبادی ایسے ممالک سے تعلق رکھتی ہے جہاں سزائے موت کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ ان ممالک میں زیادہ گنجان آباد ممالک جیسے ریاست ہائے متحدہ امریکہ، عوامی جمہوریہ چین، بھارت اور انڈونیشیا شامل ہیں۔مصر میں بھی یہ قانون 1937 سے لاگو ہے۔ لیکن پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ کسی ایک فرد کے قتل کے جرم میں تقریبا1211افراد کو سزا سنائی جارہی ہو۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ اتنی جلد بازی میں کیوں کیا گیا؟ اخر اتنی بڑی تعداد کی زندگی و موت کا فیصلہ کرنے کے لئے وکیل دفاع کو اپنی پوری بات کہنے کا موقع کیوں تک نہیں دیا گیا؟ اور ملزمین کو صفائی میں بولنے سے کیوں روکا گیا؟ اگر مصر کی صورت حال پر غور کریں تو بات خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ جمہوریت کے نام پر وہاں ایک امر فوجی سربراہ عبد الفتاح السیسی کی حکومت ہے اور وہ اب تک فوج کی سربراہ کی حیثیت سے ملک کی سیاست میں حصہ لے رہے تھے۔لیکن اب السیسی ملک کے نظام میں براہ راست حصہ لینا چاہتے ہیں اور انہوں نے ملک میں آئندہ ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ بھی کرلیا ہے۔ ان کے اس فیصلے کی حمایت سلفی مسلک کی نمائندہ سیاسی جماعت ’’النور‘‘ نے کردی ہے اور متوقع صدارتی امیدوار احمد ین الصباحی کی حمایت بھی مل گئی ہے۔السیسی کے سیاست میں حصہ لینے کے اشارے کچھ دنوں پہلے سے ہی مل چکے تھے اور اس میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ ہو اس کے لئے انہوں نے پہلے ہی اخوانیوں کو کچلنے کے لئے فوج کے منتخب افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی تھی اور اس کمیٹی کا مقصد یہ بتایا گیا کہ ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کو روکنے کے لئے یہ کمیٹی کام کرے گی۔اس کمیٹی کی آڑ میں اخوانیوں کو چن چن کر نشانا بنایا جارہا ہے۔

دراصل السیسی کو اخوانیوں سے خطرہ ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ ملک میں جب تک اخوانی طاقتور رہیں گے ،اس وقت تک ان کے لئے ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینا مشکل ہوگا۔اسی لئے وہ چاہتے ہیں کہ پہلے اخوانیوں کا پورا صفایا کردیا جائے ،اس کے بعد ملک کے اقتدار کو اپنے ہاتھ میں لیا جائے۔اپنی اسی خواہش کی تکمیل کے لئے وہ آئین کو نظر انداز کرکے عدالت اور انتظامیہ سے من چاہی فیصلے کروارہے ہیں۔جبکہ حالیہ فیصلے کی وجہ سے پوری دنیا میں تنقید ہورہی ہے۔غالباً السیسی یہ سمجھ رہے ہیں کہ طاقت کا استعمال کرکے وہ اخوانیوں کو دبا دیں گے مگر یہ کام اآسان نہیں ہوگا کیونکہ الاخوان بارہا ایسے مراحل سے گزر چکی ہے اور اخوانیوں کے حوصلے کی ہی بات ہے کہ عدالت میں اس کی اتنی بڑی تعداد کو پھانسی کی سزا سنائے جانے کے باجود ان کے حوصلے بلند ہیں اور انہوں نے السیسی کی صدارتی امیدواری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ملک میں عدم استحکام کی فضا پیدا ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔