ہے جس کا انتظار وہ شاہکار ۔۔۔۔

سعد اللہ جان برق  پير 21 اپريل 2014
barq@email.com

[email protected]

جنرل نالج کا ایک سیدھا سادا سوال ہم آپ سے کرتے ہیں۔ یہ بتایئے وہ کون سی چیز ہے جس کا انتظار ہزاروں سال سے ہو رہا ہے … چلیے تھوڑی سی مزید وضاحت کیے دیتے ہیں۔ یہ چیز مونث ہے اور پاکستان کے لیڈر لوگ اس کا استعمال دن میں چار مرتبہ کرتے ہیں۔ صبح دوپہر شام کو اور رات کو سوتے وقت… آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کون سی چیز ہے جو ابھی آئی نہیں ہے اور پھر بھی لیڈران کرام اور وزیران عظام اس کا چار وقتہ استعمال کرتے ہیں یعنی یہ کیسا آدم ہے جو خود نہیں ہے اور اس کی ’’بو‘‘ موجود ہے، تو اس سلسلے میں فلاسفہ یونان اور حکمائے ایران نے کہا ہے کہ ایسی بہت ساری چیزیں بھی اس دنیا میں پائی جاتی ہیں جنھیں پیدا ہونے سے پہلے بھی کھایا جا سکتا ہے کمایا جا سکتا ہے بلکہ مقروض تک بنایا جا سکتا ہے، پہلی مثال مرغی کی ہے جسے پیدائش سے پہلے بھی کھایا جاتا ہے بلکہ کسی کا قول زرین ہے کہ

سَنڈے ہو یا مَنڈے

ہر روز کھاؤ انڈے

دوسری مثال پاکستان کے ایک اور جانور کی ہے جو ہوتا تو بالکل انسان کی طرح ہے لیکن انسان ہوتا نہیں اسے عام طور پر کالانعام کے طور پر جانا پہچانا اور بتایا جاتا ہے۔ اس جانور کا خاصہ یہ ہے کہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوتا لیکن ہزاروں روپے کا مقروض ہو جاتا ہے بلکہ ہم نے تو یہ بھی سنا ہے کہ جو ابھی پیدا نہیں ہوا اس کی اولاد بھی مقروض کی جا سکتی ہے، بات ذرا پیچیدہ اور فلسفیانہ ہے لیکن پشتو کا ایک ٹپہ سن کر آپ کی سمجھ میں آ جائے گی، ٹپہ یہ ہے کہ

د پلار زانگومے زانگولہ

ناسا پہ غگ شوچہ نیکہ دے پیدا شو نہ

یعنی میں ابھی اپنے باپ کا جھولا جھلا رہا تھا کہ اچانک یہ مژدہ سنا کہ خیر سے تمہارا دادا بھی پیدا ہو گیا ہے، تشریح اس کی یوں ہے کہ آج کا ایک آدمی اگر چھیانوے ہزار کا مقروض ہے تو اس کا بیٹا چھیانوے لاکھ کا مقروض ہو گا اور پوتا چھیانوے کروڑ کی ’’آسامی‘‘ ہو گا کیونکہ تاحیات مراعات والے جب تک حیات ہیں مرض اور قرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی یا ادا کیا۔

آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ ہم نے اپنا سوال یا سہیلی بوجھ پہیلی یا بوجھو تو جانیں کا سلسلہ درمیان میں لٹکا کر یہ کیا شروع کر دیا ہے تو جس چیز کے بارے میں ہمارا سوال ہے وہ بھی ایسی ہی ہے ہزاروں سال سے اس کی آمد آمد ہے۔لوگوں کی آنکھیں راستے پر گڑی ہوئی ہیں لیکن بیچ بیچ میں اور نہ جانے کیا کیا آ جاتا ہے۔ ہم بتائے دیتے ہیں کہ وہ کیا چیز ہے جس کا انتظار ہزار ہا سال سے ہو رہا ہے لیکن آ ہی نہیں چکتی ۔۔۔ اس کم بخت نہ آنے والی چیز کا نام ’’تبدیلی‘‘ ہے، آدم اور ابلیس کے زمانے کا تو پتہ نہیں لیکن قابیل اور ہابیل کے دور سے یہ انتظار شروع ہو چکا ہے، قابیل نے ہابیل کو اس لیے قتل کیا تھا کہ وہ اپنے خیال میں ’’تبدیلی‘‘ لانا چاہتا تھا‘ تبدیلی تو نہیں آئی لیکن اس نے اپنے بھائی کی تبدیلی دوسرے جہاں کو کر دی، تب سے اب تک جو بھی آتا ہے وہ یہی مژدہ سناتا ہے کہ تبدیلی آ رہی ہے لوگ پلٹ کر راستے پر نگاہیں گاڑتے ہیں تبدیلی تو نہیں آتی لیکن ان منتظرین کی جیبیں کٹ جاتی ہیں اور کاٹنے والا وہی ہوتا ہے جو تبدیلی کی خبر لا چکا ہوتا ہے۔

بادشاہ آئے جرنیل آئے مصلح آئے رہنماء آئے رہزن آئے لیکن اگر نہیں آئی ہے تو یہ کم بخت ’’تبدیلی‘‘ نہیں آئی ہے جس کے آنے کے ’’مژدے‘‘ آج بھی بازار میں دھڑا دھڑ بک رہے ہیں، خاص طور پر یہ سیاست کے بازار میں تو صرف یہی آئٹم ہے جو بیسٹ سیلر تھا۔ بیسٹ سیلر ہے اور نہ جانے کب تک بیسٹ سیلر رہے گا ۔کم بخت میں اتنی زیادہ کشش ہے کہ صرف نام لینا ہی کافی ہے۔ کہیں بھی کوئی بھی ’’تبدیلی‘‘ کا نام لے کر اپنی دکانداری چمکا سکتا ہے چنانچہ جہاں کہیں کسی کو روزگار میسر نہیں ہے یا کسی اور کاروبار میں کچھ زیادہ نفع نہیں ہو رہا ہے وہ فوراً تبدیلی کو اپنی دکان میں ڈال لیتا ہے اور کم بخت میں بات نہ جانے ایسی کیا بات ہے کہ دکان میں ڈالتے ہی خریدار بھی امڈ پڑتے ہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ کہیں کوئی ’’موقع کی‘‘ دکان تلاش کرنا پڑے بلکہ دکان بھی ضروری نہیں ۔۔۔ ریڑھی لگایئے چھابڑی میں سجایئے کچھ بھی نہیں تو فٹ پاتھ پر چادر بچھا کر بیٹھ جایئے اور اک ذرا آواز لگایئے ۔۔۔ تبدیلی لے لو تبدیلی ۔۔۔ بس پھر دیکھئے جس طرح شکر کا کوئی دانہ آپ کہیں بھی ڈال دیے چیونٹیوں اور مکھیوں کو خبر ہو جاتی ہے اسی طرح یہ کم بخت تبدیلی بھی ہے کوئی یہ بھی نہیں پوچھے گا کہ کون سی تبدیلی کہاں کی تبدیلی اور کیسی تبدیلی ۔۔۔ بس قطار میں لگے گا

صد آبرو بہ نیم نگاہ می تواں خرید

خوباں درایں معاملہ تقصیر می کنند

ترجمہ : صرف ایک ’’نیم نگاہ‘‘ کے عوض سب کچھ لے لیتے ہیں یہ ’’خوباں‘‘ اس معاملے میں نہایت ارزاں فروشی سے کام لے رہے ہیں، ایک پشتو ٹپہ میں بھی ہے کہ ذرا اپنے بوسے کی قیمت تو بتاؤ کہ اگر جاں دے دوں تو باقی اور کتنا بقایا دار رہ جاؤں گا۔۔۔ یعنی

قیمت خود بس دو عالم گفتہ ای

نِرخ بالا کُن کہ ارزانی ہنوز

یعنی تم نے تو اپنی قیمت صرف ’’دو عالم‘‘ بتا دی یہ تو بڑی ’’ارزانی‘‘ ہے کچھ اور نرخ بڑھاؤ۔۔۔۔ داد دینا پڑے گی ’’تبدیلی‘‘ کے پرستاروں اور انتظار کرنے والوں کی ۔۔۔ مسلم لیگ کو دیکھو کتنے زمانے میں تبدیلی لا رہی ہے پیپلز پارٹی کا تو کہنا ہی کیا ’’تبدیلی‘‘ کے ساتھ روٹی کپڑا اور مکان کا پیکیج بھی شامل کیا ہوا ہے مذہبی پارٹیاں اسلام لا رہی ہیں اور نئی نویلی تحریک انصاف تو تبدیلی کے ساتھ پورا نیا پاکستان لا رہی ہے اور ان سب کا ذریعہ مواصلات ’’ٹرٹل سروس‘‘ ہے یعنی سب نے اپنا یہ سامان کچھوے کی پیٹھ پر لادا ہوا ہے اب یہ کچھوے کی رفتار اور ’’عمر‘‘ پر منحصر ہے کہ یہ مال کب تک پہنچے گا لیکن خریدار نہایت دل جمعی اور صبر و سکون سے انتظار کھنیچ رہا ہے

میں انتظار کروں گا ترا قیامت تک

خدا کرے کہ قیامت ہو اور تو آئے

ایک بڑی حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ منتظر تو سب ہیں لیکن کسی کو ’’تبدیلی‘‘ کی پہچان بھی نہیں ہے چنانچہ آج کل کم از کم اپنے صوبہ ’’خیر پہ خیر‘‘ میں تو سرکاری طور پر اعلان بھی کیا جا چکا ہے کہ تبدیلی آ چکی ہے بلکہ یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ تبدیلی نظر بھی آنے لگی ہے تبدیلی نظر آ رہی ہے لیکن پھر بھی پتہ نہیں چل رہا ہے کہ وہ تبدیلی جو آ چکی ہے کہاں ہے کس طرف ہے اور کدھر ہے ۔۔۔ اس لیے قیاس کیا جا رہا ہے کہ حکومت اور وزیر لوگ جھوٹ تو کبھی بولتے نہیں ہیں تبدیلی یقیناً آ چکی ہو گی لیکن ابھی وزیروں مشیروں اور وغیروں کے ہاں اپنی ’’تھکن‘‘ اتار رہی ہو تھوڑا سا دم لے کر عوام الناس کو درشن دے گی بشرطیکہ کہ وزیر مشیر اور وغیرہ لوگ جاتے وقت اسے اپنے ساتھ نہیں لے گئے، ویسے اگر تبدیلی سرکاری محکموں دفتروں اور اداروں میں ’’اہل کاروں‘‘ کی ہو تو وہ تو ہر حکومت اپنے ساتھ سیلاب کی صورت میں لایا ہی کرتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔