بھٹو صاحب نے جیل سے بلوا کر فارن آفس میں کام کرنے کی پیش کش کی، ایڈووکیٹ امان اللہ شیخ

اقبال خورشید  جمعرات 24 اپريل 2014
معروف سیاسی مفکر، ایڈووکیٹ امان اللہ شیخ کی کہانی۔  فوٹو : فائل

معروف سیاسی مفکر، ایڈووکیٹ امان اللہ شیخ کی کہانی۔ فوٹو : فائل

یہ 72ء کا ذکر ہے۔ آئین سازی کے خلاف قوم پرست سراپا احتجاج تھے۔ حکومت نے ’’شرپسندوں‘‘ پر ہاتھ ڈالا، تو وہ بھی گرفتار ہوئے۔

سکھر جیل مسکن بنی۔ تعلق لاڑکانہ سے تھا۔ اِس نسبت کا کسی نے بھٹو صاحب سے تذکرہ کیا۔ اُنھوں نے ملاقات کے لیے بلوایا۔ حاکم وقت کا پیغام ملا، تو مسکرائے۔ انقلابی فکر، پھر گرم خون، سمجھوتے کا امکان ہی نہیں تھا۔ جب والد کو خبر ہوئی، وہ ملنے چلے آئے۔ کہا: ’’تمھاری وجہ سے لوگ میری عزت کررہے ہیں۔ وہاں جا کر اسے نیلام مت کرنا۔‘‘ بتاتے ہیں، بھٹو صاحب نے اُنھیں فارن آفس میں کام کرنے کی پیش کش کی تھی، مگر اپنے نظریات سے دست بردار ہونے کو وہ تیار نہیں تھے۔ سو جس کوٹھری سے وزیر اعظم ہاؤس بلوایا گیا، وہیں واپس بھیج دیا گیا۔

یہ ماضی کے معروف سیاست داں، امان اللہ شیخ کی کہانی ہے۔ تین عشروں تک عملی سیاست کی۔ ون یونٹ کے خلاف کھڑے ہوئے۔ طلبا سیاست میں سرگرم رہے۔ جی ایم سید کی سرپرستی میں ’’سندھو دیش‘‘ کے لیے جدوجہد کی۔ ’’نیشنل عوامی پارٹی‘‘ سے بھی نتھی رہے۔ وقت، خیالات میں تبدیلی کا موجب بنا۔ دھیرے دھیرے پارلیمانی سیاست کے قائل ہوتے گئے۔ فکری تبدیلی پر معتوب ٹھہرائے گئے۔ غداری کا الزام لگا۔ نئے نظریات ’’نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی‘‘ کی سمت لے گئے۔ پھر ’’پاکستان نیشنل پارٹی‘‘ سے وابستہ ہوئے۔ اُس کے صدر رہے۔ 90ء کی دہائی میں عملی سیاست سے الگ ہوگئے، مگر ایک ’’پولیٹیکل ایکٹوسٹ‘‘ کی حیثیت آج بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

69ء میں پہلی جیل یاترا کی۔ 72ء میں سندھ میں لسانی فسادات ہوئے، تو بارہ ماہ سرکاری مہمان رہے۔ 73ء میں گرفتاری ہوئی، چار مختلف جیلوں میں وقت گزرا۔ کراچی جیل میں پروفیسر جمال نقوی اور شیر محمد مری سے ملاقات ہوئی۔ آخری بار ’’ایم آر ڈی‘‘ کی تحریک کے دوران گرفتار ہوئے۔

آغاز قوم پرست سیاست سے کیا، مگر آج اُسے ایسے آسیب کے طور پردیکھتے ہیں، جو ’’قومی سوال‘‘ حل نہ کرنے کے باعث ہمارا تعاقب کر رہا ہے۔ ’’قومی سوال‘‘ سے مراد اِس امر کا ادراک ہے کہ پاکستان میں چار قومیں بستی ہیں، جو یک ساں اہمیت کی حامل ہیں۔ ’’یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے سنجیدگی درکار ہے۔ آج قوم پرست فقط لسانی سیاست کر رہے ہیں۔ یہ خیال کہ سندھ کی پارٹی میں فقط سندھی ہوگا، بلوچوں کی پارٹی میں بلوچی، بالکل غلط ہے۔ کوئی اکیلا، آزاد صوبہ ہمارے مسائل حل نہیں۔ اگر قوم پرستی معاشرے میں تبدیلی نہیں لاتی، تو وہ فاشزم ہے۔ یہ خیال ذہن سے نکالنا ہوگا کہ سندھ میں فقط ایک قوم رہتی ہے۔ یہاں مختلف تہذیبی اور لسانی گروہ بستے ہیں، جنھیں ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا۔ وہ جدید سندھی قوم کا حصہ ہیں۔‘‘

ملکی مسائل کا حل، اُن کے نزدیک ایک نیا عمرانی معاہدہ ہے۔ ’’یونائیٹڈ اسٹیٹس آف پاکستان کا تصور ہی اِس ریاست کی بقا کا ضامن ہے۔ پاکستان اب انٹرنل کنفیڈریشن کی شکل میں چل سکتا ہے۔ امریکا اِس کی بڑی مثال ہے۔ سوئزرلینڈ میں ایسی اقلیتیں ہیں، جن کے درمیان کنفیڈریشن ہے۔ پاکستان میں جو بحران ہے، اس کا اصل سبب معاشی انتظامی بگاڑ ہے۔‘‘

کالم نگاری شناخت کا اہم حوالہ ہے۔ لاڑکانہ سے نکلنے والے ’’ویکلی پاکستان‘‘ سے آغاز کیا۔ بعد میں ’’عوامی آواز‘‘ اور ’’ہلال پاکستان‘‘ میں چھپتے رہے۔ ’’ڈان‘‘ کے لیے بھی لکھا۔ کالم کتابی صورت میں شایع ہوچکے ہیں۔ اُن کے اردو اور انگریزی تراجم کی اشاعت بھی جلد متوقع ہے۔ سیاسی اور سماجی مسائل پر جو تقاریر کیں، وہ ’’جئن جئن تپی ڈینھن‘‘ کے زیرعنوان شایع ہوئیں۔ ترجمے بھی جم کر کیے۔ ممتاز کمیونسٹ مفکر، ایم این رائے کی دو تصانیف History of Revolution اور Historical Role of Islam کو سندھی روپ دیا۔

ابراہیم جویو کی کتاب Save Sindh, Save the Continent کو سندھی کے قالب میں ڈھالا۔ جرمن فلسفی ولیم ون ہمبولٹ کی کتاب Limits of State Action، مشہور موسیقار، لڈوگ بیتھوون کے ’’اوپرا‘‘  Fidelioاور اجے کمار گھوش کی کتاب ’’غدر ہیروز‘‘ کا بھی ترجمہ کرچکے ہیں۔ فیض صاحب سے متعلق ایک کتاب ’’پاکستانی ثقافت‘‘ کو بھی سندھی روپ دیا۔ 14 ممتاز سیاسی شخصیات کے خاکوں پر مشتمل کتاب ’’رھجی ویا گیٹن‘‘ (بس نام ہی رہ گیا) کے نام سے آئی۔ ایک کتاب سندھ اور بلوچستان کا سیاسی منظرنامہ ہے۔ اِس وقت برصغیر کی تاریخ میں دانش وَروں کے کردار پر کام کر رہے ہیں۔ کتاب یہ انگریزی میں شایع ہوگی۔

حالاتِ زندگی کی تفصیلات کچھ یوں ہیں: سن پیدایش؛ 15 ستمبر 1949۔ جائے پیدایش؛ لاڑکانہ۔ متمول گھرانا۔ چھے بہن بھائیوں میں بڑے۔ میدان سیاست میں آنے تک کم گو۔ والد، گل محمد شیخ سونے کے بیوپاری۔ اصول پسند، سخت گیر۔ البتہ بیٹے کی سیاسی سرگرمیوں پر کبھی اعتراض نہیں کیا۔ گورنمنٹ ہائی اسکول، لاڑکانہ سے میٹرک، ڈگری کالج، لاڑکانہ سے انٹر کیا۔ 71ء میں گریجویشن کے بعد سندھ یونیورسٹی سے کیمسٹری میں ماسٹرز کا ارادہ باندھا تھا۔ اُن ہی دنوں وزیر قانون، عبدالحفیظ پیرزادہ یونیورسٹی آئے۔ امان اللہ شیخ کی سربراہی میں قوم پرست طلبا نے، جنھیں آئین قبول نہیں تھا، بھرپور احتجاج کیا۔ اُنھیں ’’رسٹی کیٹ‘‘ کر دیا گیا۔ کیمسٹری کے مضمون سے رشتہ توڑ کر 76ء میں لا کیا۔ 79ء میں پریکٹس شروع کی۔ جلد ہی نام پیدا کر لیا۔ ممتاز کمیونسٹ دانش وَر، سوبھو گیان چندانی سے اُن دنوں روز ہی ملاقات ہوتی۔ 2007 میں کراچی آگئے۔ ایک سبب تو صحت تھی، لاڑکانہ کی گرمی پریشان کرنے لگی تھی، دوسری وجہ تھی بچے، جنھیں یافت کے امکانات پہلے ہی شہر قائد لے آئے۔ اِس وقت وہ ’’سچل لا ایسوسی ایٹ‘‘ کا حصہ ہیں۔ پیشہ ورانہ سفر میں کریمنل کیسز توجہ کا مرکز رہے۔ آئینی درخواستوں کے میدان میں ماہر گردانے جاتے ہیں۔

اب توجہ سیاسی سفر پر مرکوز کرتے ہیں: آغاز ’’لاڑکانہ اینٹی ون یونٹ فرنٹ‘‘ سے کیا۔ فرنٹ میں دائیں یا بائیں بازو کی تفریق نہیں تھی، البتہ اُن کا رجحان لیفٹ کی جانب تھا۔ پہلا سبب مطالعہ، دوسری وجہ قوم پرست تحریک، جس پر بائیں بازو کا اثر غالب تھا۔ ’’سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن‘‘ کا قیام عمل میں آیا، تو اُس کا حصہ بن گئے۔ جی ایم سید کے افکار نے قوم پرست نظریات عطا کیے۔ اُن کی کتابوں پر پابندی تھی، مگر امان اللہ شیخ اُنھیں کھوج نکالتے۔ 66ء میں سید صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی، ٹھیک دو برس بعد عملی سیاست میں آگئے۔ ’’سندھ یونائیٹڈ فرنٹ‘‘ بننے کے بعد خاصے سرگرم رہے۔ 70ء کے عام انتخابات میں جی ایم سید کو شکست ہوئی، اگلے ہی برس ’’ڈھاکا فال‘‘ ہوگیا۔ امان اللہ شیخ کے مطابق اِس سانحے نے سید صاحب کی سیاست کو نیا رخ دیا۔ ’’اُن کا خیال تھا کہ اب پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکتا، سندھ کو آزاد ہونا چاہیے۔ اور میں اعتراف کرتا ہوں کہ ہم بھی Romanticism کا شکار ہوگئے تھے۔‘‘

رومانویت برقرار رہی۔ 72ء میں ’’جئے سندھ محاذ‘‘ بن گیا۔ وہ اسٹوڈنٹس ونگ کے نائب صدر رہے۔ آئین کی قوم پرست مخالفت کر رہے تھے، مگر پھر اِس پالیسی میں ’’یوٹرن‘‘ آیا۔ اُن کے بہ قول،’’ذوالفقار علی بھٹو کراچی میں سید صاحب کے گھر تشریف لائے، اور آئین سازی میں اُن سے مدد کی درخواست کی۔ فیوڈل کلچر کی ایک کم زوری ہے، اگر میرا مخالف میرے گھر آجائے، تو میں اُس کے تمام گناہ معاف کردوں گا۔ اِس ملاقات کے بعد سید صاحب کہنے لگے کہ آئین بننا چاہیے۔ مگر آئین بننے کے بعد ہمیں احساس ہوا کہ یہ تو ون یونٹ سے بھی بدتر ہے۔‘‘ یوں ایک نئی جدوجہد شروع ہوئی۔ پارٹی کے کلیدی کارکن کی حیثیت سے وہ اُس میں پیش پیش رہے۔ طلبا کو منظم کیا۔

وقت کے ساتھ نظریات میں تبدیلی آنے لگی۔ ادراک ہوا، پارلیمانی سیاست کے بغیر سماج میں موثر تبدیلی کا امکان نہیں۔ چند دوستوں کے ساتھ 76ء میں جی ایم سید سے ملاقات کی۔ سید صاحب وفاقی دھارے کی سیاست کے خیال سے متفق نہیں تھے۔ بس، وہیں سے راہ جدا ہوئی۔ غوث بخش بزنجو اُن دنوں جیل میں تھے۔ ’’نیپ‘‘ پر پابندی تھی، متبادل کے طور پر شیرباز مزاری کی سربراہی میں ’’نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی‘‘ قائم کی گئی۔ 77ء میں وہ اس کا حصہ بن گئے۔ اُن کے بہ قول، ضیا دور میں جب ولی خان جیل سے رہا ہوئے، پارٹی کو اُن کے خیالات میں واضح تبدیلی نظر آئی، جھکاؤ اُن کا فوج کی جانب تھا۔ نتیجہ متوقع نکلا، پارٹی تقسیم ہوگئی۔ اُنھوں نے بزنجو صاحب کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔ 79ء میں ’’پی این پی‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔ اِس پلیٹ فورم سے ’’ایم آر ڈی‘‘ کی تحریک میں حصہ لیا۔ 89ء میں بزنجو صاحب کے انتقال کے بعد اُس کے صدر ہوگئے۔ جمہوریت پسند ہیں، ایک برس بعد انتخابات کروائے۔ بیزن بزنجو نے پارٹی کے صدر کا عہدہ سنبھالا۔ کچھ عرصے بعد جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی۔ 94ء میں وہ سیاست سے الگ ہوئے۔ سبب نظریات ٹھہرے۔ وہ قومی سیاست پر یقین رکھتے ہیں، اور اِس کے امکانات گھٹتے جارہے تھے۔

امان اللہ شیخ کے مطابق آج قوم پرست شکست و ریخت کا شکار ہیں، وہ فقط صوبے تک محدود ہیں، وژن کلیئر نہیں۔ ’’ٹوپی اجرک کا تماشا قوم پرست سیاست نہیں، یہ تو فیوڈل سوسائٹی کا عکاس ہے۔ ’نیپ‘ اکلوتی جماعت تھی، جس نے قومی اور صوبائی، دونوں طرز کی سیاست کی۔ اُس کا ٹوٹنا بڑا نقصان تھا۔ اگر ’نیپ‘ ہوتی، تو بھٹو کا اس طرح زوال نہیں ہوتا۔ پارلیمانی سیاست سے دور رہ کر قوم پرستوں نے سندھ کے عوام کی نمایندگی کُلی طور پر پیپلز پارٹی کو سونپ دی ہے۔‘‘

قرارداد پاکستان کے وہ ناقد ہیں۔ اِس کی، اُن کے بہ قول، غلط تشریح کی گئی۔ ’’کیا یہ ممکن ہے کہ مذہبی بنیادوں پر ایک حصے میں ایک ریاست، دوسرے حصے میں دوسری ریاست بنالی جائے؟ بعد میں کانگریس کے چند راہ نماؤں نے اِسے انگریزوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے بھی استعمال کیا۔‘‘

میدان وکالت میں سرگرم ہیں، اِسی نسبت سے وکلا تحریک پر بات نکلی۔ کہنے لگے،’’عدلیہ نے ہمیشہ آمروں کو خوش آمدید کہا، 9 مارچ وہ پہلا موقع تھا، جب عدلیہ نے انکار کیا۔ افتخار چوہدری کے انکار نے عدلیہ کے پورے تاریخی پس منظر کو بدل دیا۔‘‘ کیا سابق چیف جسٹس سے وابستہ امیدیں پوری ہوئیں؟ بہ قول اُن کے،’’ہم ساٹھ برس سے انتشار کا شکار ہیں۔ اِس لیے جب کبھی افتخار چوہدری جیسا کوئی شخص سامنے آتا ہے، ہم سمجھنے لگتے ہیں کہ اُس کے پاس ہر مرض کی دوا ہوگی۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ ارتقائی عمل میں اُس نے کیا کردار ادا کیا۔ افتخار چوہدری صاحب نے ایڈونچرازم ضرور کیا، مگر انھوں نے جمود توڑا۔ ان کے فیصلے سے پاکستان میں عدلیہ کی شناخت بحال ہوئی۔‘‘

جن سیاسی شخصیات کے ساتھ جدوجہد کی، ان سے متعلق رائے پوچھی، تو کہنے لگے،’’جی ایم سید میں بلا کی برداشت تھی۔ کمیونسٹ ان کے خلاف تھے، لیکن جب جام ساقی کے پیچھے ایجینسیاں لگیں، تو وہ سید صاحب کے گاؤں ہی میں آکر چھپے۔‘‘ بزنجو صاحب کو ایک ایسے حقیقت پسند سیاست داں کے طور پر دیکھتے ہیں، جو ماضی بھول کر آگے بڑھنے پر یقین رکھتا تھا۔

مسئلہ بلوچستان کی بابت پوچھا، تو کہنے لگے، کچھ روز پہلے بلوچستان جانا ہوا تھا۔ اُن لوگوں سے بھی ملاقات ہوئی، جو اب پہاڑوں پر ہیں۔ ’’خاصی بحث ہوئی۔ میں نے پوچھا؛ کیا آپ برصغیر کی تاریخ میں کسی خونیں انقلاب کی مثال پیش کرسکتے ہیں؟ برصغیر کا یہ مزاج ہی نہیں۔ ہم اِس کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ یہاں تبدیلی صرف ارتقا کے ذریعے آئے گی۔ میرے خیال میں اُنھیں اپنا کیس مضبوط انداز میں پیش کرنا ہوگا۔‘‘

مطالعے کے شایق ہیں۔ بائرن، ولیم ورڈز ورتھ، فیض، ساحر اور پروین شاکر کے مداح۔ سندھی شعرا میں شاہ لطیف، شیخ ایاز اور روحیل فقیر کا نام لیتے ہیں۔ فکشن میں دوستوفسکی اور موپساں کا تذکرہ آتا ہے۔ رات جلدی سوتے ہیں، صبح تڑکے بستر چھوڑ دیتے ہیں۔ عادت یہ پرانی ہے۔ 71ء میں شادی ہوئی۔ پانچ بیٹے، دو بیٹیاں ہیں۔ گھر میں سیاست زیر بحث رہتی ہے۔ کہنا ہے،’’اگر آپ اپنی اولاد ہی کو سیاسی شعور نہیں دیتے، تو کسی اور کیا دیں گے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔