میں اروند کیجریوال ہوں

اقبال خورشید  بدھ 23 اپريل 2014

تبدیلی کا ارمان، جھاڑو انتخابی نشان، بدعنوانی کے خلاف جنگ کا اعلان، تینوں ملے، تو عوام کے سامنے نیا امکان دمکنے لگا۔ کرپشن، تیسری دنیا کا سب سے بڑا المیہ۔ اُس پر مستزاد، موروثی سیاست، قوم پرستی، رجعت پسندی۔ ایسے میں جب ایک سابق بیوروکریٹ، جو کل تک انا ہزارے کے ساتھ بدعنوانی کے خلاف برسرپیکار تھا، سیاسی میدان میں ظاہر ہوا، تو فوراً ہی توجہ کا مرکز بن گیا۔ گندمی رنگت۔ آنکھوں پر عینک۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ۔ اور گاندھی کپ، جس پر درج تھا: ’’میں عام آدمی ہوں!‘‘

نومبر2012ء میں بننے والی ’’عام آدمی پارٹی‘‘ (عاپ) کی بابت اگر کوئی پیش گوئی کرتا کہ یہ دہلی کے ودھان سبھا (Legislative Assembly) چنائو میں 28 سیٹیں لے اڑے گی، تو بھلا کون یقین کرتا۔ بظاہر کانگریس کا مقابلہ بی جے پی سے تھا مگر جس نے تخت سنبھالا، وہ تھا؛ اروند کیجریوال! اِس نووارد نے نیو دہلی کی سیٹ پر کانگریس کی شیلا ڈکشٹ کو جو گزشتہ برس ہا برس سے چیف منسٹر تھیں، شکست دے کر کھلبلی مچا دی۔ اُس چنائو سے قبل ’’عاپ‘‘ سے متعلق ایک ڈاکومینٹری دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ دہلی کی بھری پُری سڑکوں سے گزرتی کیجریوال کی ریلی۔ چھوٹا سا مجمع۔ ہاتھوں میں جھاڑو۔ سروں پر گاندھی کیپ۔ اردگرد کھڑے لوگ اِس ریلی کو امید بھری نظروں سے تک رہے تھے جہاں غریب اور متوسط طبقے میں کیجریوال کی مقبولت تیزی سے بڑھی، وہیں کرپشن سے نالاں پڑھا لکھا طبقے بھی اس کی طرف مائل ہونے لگا۔ یوں چند روز میں ’’عام آدمی‘‘ نے دہلی کی گدی سنبھال لی۔

تخت کچھ ہی عرصے کیجریوال کو برداشت کر سکا اور یہ متوقع تھا۔ غیرروایتی انداز سیاست، بدعنوانی کے خلاف اقدامات، بیوروکریسی میں بے چینی پیدا کرنیوالے فیصلے؛ ہندوستان نے وہ دن بھی دیکھا، جب دہلی کا چیف منسٹر احتجاجاً دھرنے پر بیٹھ گیا۔ اینٹی کرپشن بل منظور نہ ہونے پر بالآخر اقتدار چھوڑ دیا۔ موقف تو بہ ہرحال اُن کا دُرست تھا مگر چند تجزیہ کاروں کے مطابق اِس سے پارٹی کی مقبولیت کچھ کم ہوئی۔ عوام نے کیجریوال کو منتخب کر کے اپنی ذمے داری پوری کی، اب اُنھیں توقع تھی کہ وہ سسٹم میں رہتے ہوئے تبدیلی لائینگے۔ مخالفین نے بھی اُن کے استعفے کو ذمے داریوں سے فرار ٹھہرایا۔یہ تو ماضی کا تذکرہ ہے، اِس وقت ہندوستان میں عام انتخابات جاری ہیں۔ نو مرحلوں پر مشتمل یہ سرگرمی مئی میں تمام ہوگی۔

عام حالات ہوتے، تو مقابلہ فقط کانگریس اور بی جے پی کے درمیان ٹھہرتا، مگر اِس بار ’’آپ‘‘ کی صورت تیسری قوت بھی ہے جو مذکورہ پارٹیوں جتنی پُرقوت تو نہیں مگر توجہ کا مرکز ضرور بنی ہوئی ہے۔ کیجریوال نے اِس بار بھی ایک جرات مندانہ فیصلہ کیا۔ وہ بنارس میں نریندرمودی کے مدمقابل ہیں۔ مودی کو تو آپ جانتے ہیں۔ اُنھیں متعصب سیاستداں تصور کیا جاتا ہے، گجرات کے فسادات کا ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ گو موصوف کی شبیہ منفی ہے مگر اِس وقت بی جی پی پر چھائے ہوئے ہیں۔ پارٹی کے لیے نہیں، اپنے لیے ووٹ مانگ رہے ہیں۔ تشہیری مہم زوروں پر۔ اخبارات اور ٹی وی پر ’’اِس بار، مودی سرکار‘‘ کا راگ الاپا جا رہا ہے۔

بزنس ٹائیکون ساتھ ہیں۔ اقتصادی میدان میں اُن کے کارناموں کا چرچا ہے۔ گو کانگریس کے امکانات خاصے کم ہیں مگر وہ بھی تشہیری مہم پر جی کھول کر خرچ کر رہی ہے۔ تجزیوں مطابق یہ چنائو حالیہ امریکی انتخابات کے بعد مہنگی ترین سیاسی سرگرمی ہو گی جہاں تشہیر پر دیگر پارٹیاں اربوں لُٹا رہی ہیں، وہاں ’’آپ‘‘ کا زیادہ انحصار رکشوں اور سوشل میڈیا پر ہے۔ کہا جا رہا ہے، بیرون ملک مقیم حامیوں نے پارٹی کو خاصا فنڈ دیا ہے۔ ضرور دیا ہو گا مگر دیگر کو جو وسائل میسر ہیں اُن کے مقابلے میں اِس رقم کی حیثیت آٹے میں نمک کے برابر ہی ہو گی۔

اِس تحریر کا محرک کیجریوال کا ایک مختصر، مگر دل چسپ ویڈیو پیغام بنا۔ ’’آپ‘‘ کے سربراہ اِن الفاظ میں اپنے پیغام کا آغاز کرتے ہیں: ’’میں اروند کیجریوال ہوں، مگر اِس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ میں آپ میں سے ایک ہوں، اِس بات سے فرق پڑتا ہے۔‘‘ ویڈیو میں سادہ، مگر موثر انداز میں اُنھوں نے اپنا موقف بیان کیا۔ حامیوں سے درخواست کی کہ وہ کم از کم دس دوستوں کو یہ ویڈیو دِکھائیں۔ بھلا کیوں؟ کیوں کہ اوروں کے برعکس اُن کے پاس تشہیر کے لیے پیسے نہیں۔ ویڈیو میں وہ مزید کہتے ہیں: ’’فرق اس بات سے پڑتا ہے کہ کیا آپ لڑنے کے لیے تیار ہیں!‘‘ کیا ہندوستانی کیجریوال کے ساتھ یہ جنگ لڑنے کو تیار ہیں؟ اِس کا جواب تو ہندوستانی ہی دے سکتے ہیں۔ گذشتہ دنوں جرمنی سے تعلق رکھنے والے پولیٹیکل سائنٹسٹ، ڈاکٹر لوراں گائے سے ملاقات ہوئی، ہندوستانی مسلمان جن کی تحقیق کا خاص موضوع رہے۔

خاصا وقت اُن کا دہلی میں گزرا۔ ملے، تو ہندوستانی سیاست پر بھی بات ہوئی۔ کیجریوال کی مقبولیت کو اُنھوں نے متوسط طبقے میں کرپشن کے خلاف پائی جانے والی بیزاری کا نتیجہ قرار دیا۔ سمجھتے ہیں، نہ صرف غریب، بلکہ پڑھا لکھا روشن خیال طبقہ بھی اِس بار ’’آپ‘‘ کو ووٹ دے گا۔ بدعنوانی کی تاریکی میں اِس جماعت کو امید کی ایسی کرن ٹھہرایا، جو اپنے اندر نئی طرز کی سیاست کا امکان رکھتی ہے۔ امید تو ہمیں بھی ہے، مگر حقائق کی دنیا پر مودی چھائے ہیں۔  سنجیدہ مبصرین کے مطابق مودی کا حکومت میں آنا نہ صرف ہندوستان، بلکہ اُس کے پڑوسیوں کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو گا۔ ہمارے خیال میں یہ خطرہ حقیقت کا روپ دھارنے کو ہے۔

ہاں، اگر کیجریوال کے پیغام کا مثبت جواب دیا گیا، تو شاید کوئی کرشما ہو جائے۔ اَن ہونے واقعات تو آج بھی ہوتے ہیں۔ ایک امر قابل توجہ ہے۔ اِس بار پاکستانی بھی ہندوستانی انتخابات میں دل چسپی لے رہے ہیں، بلکہ یہ کہا جائے کہ کیجریوال کے حامی ہیں، تو شاید غلط نہ ہو۔ شاید اِس کا سبب مودی کی مسلم دشمنی ہو، مگر ہمارے نزدیک اصل وجہ کیجریوال کا نعرہ ہے۔ ہم بھی بدعنوانی سے تنگ ہیں۔ سُنتے ہیں، چند حلقوں میں اِس نوع کی پارٹی کے امکان پر بات چل نکلی ہے۔ ویسے یار لوگ ’’آپ‘‘ اور ’’پی ٹی آئی‘‘ میں مماثلت کا بھی تذکرہ کرتے ہیں۔ اِس حد تک تو مماثلت ہے کہ ’’پی ٹی آئی‘‘ اور ’’آپ‘‘ دو تجربہ کار جماعتوں کی موجودگی میں تیسری قوت کے طور پر ابھریں۔ اور ایسے وقت میں ابھریں، جب سینٹر ٹو لیفٹ پارٹی برسراقتدار تھی۔

یہاں پیپلز پارٹی، وہاں کانگریس۔ مگر کیجریوال یوں عمران خان سے مختلف ہیں کہ وہ ٹھہرے عام آدمی، اور خان صاحب شروع ہی سے خاص رہے۔ اُنھوں نے کرپشن کے خلاف آواز اٹھائی، اِنھوں نے فقط میاں صاحب کے خلاف۔ ایک بلے سے مخالفین کی پھینٹی لگانے کی بات کرتا رہا، دوسرا جھاڑو سے گند صاف کرنے کی۔ہماری دعا کہ کیجریوال کا حال عمران خان والا نہ ہو۔ جب کبھی اقتدار ملے، سیاسی سسٹم میں رہتے ہوئے جدوجہد کریں۔ سیاسی جدوجہد ہی کے لیے تو اُنھوں نے انا ہزارے سے علیحدگی اختیار کی تھی۔ بے شک، اِس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ کیجریوال کی ذات اور مذہب کیا ہے۔ فرق اِس سے پڑتا ہے کہ وہ عام آدمی کی جنگ لڑ رہے ہیں، کرپشن کے خلاف ہیں۔ اگر ہندوستان نے یہ فرق سمجھ لیا، تو ممکن ہے کل وہاں ’’آپ‘‘ ہی کی حکومت ہو۔ ورنہ تو ’’اِس بار، مودی سرکار!‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔