الیکشن میں وعدہ پھر خاموشی…نئے صوبے کے مطالبے میں شدت

ممتاز خان نیازی  جمعرات 24 اپريل 2014
کیا سب سیکرٹریٹ کے قیام سے مسائل کم ہوسکیں گے، ایکسپریس ملتان میں فورم کے شرکاء کی شکایات۔  فوٹو : شاہد سعید

کیا سب سیکرٹریٹ کے قیام سے مسائل کم ہوسکیں گے، ایکسپریس ملتان میں فورم کے شرکاء کی شکایات۔ فوٹو : شاہد سعید

ڈیرہ غازیخان‘ بہاولپور اور ملتان ڈویژن میں آج بھی لوگ صاف پانی میسر نہ ہونے کی وجہ سے ہیپاٹائٹس اور گردوں کے سنگین امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

ملتان میں قائم نشتر ہسپتال 2 ڈویژنوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے بالائی علاقوں کا بھی بوجھ سنبھالے ہوئے ہے ملتان وہ ضلع ہے جہاں ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال نہیں ہے۔ ڈیرہ غازیخان میں طبی سہولیات انتہائی ناکافی ہیں۔ تعلیم کی یہ حالت ہے کہ ان ڈویژنوں میں دو کروڑ سے زائد آبادی کیلئے صرف دو بڑی جامعات ہیں جبکہ ڈیرہ غازیخان ڈویژن میں ایک بھی یونیورسٹی نہیں۔ بیروزگاری کے عفریت نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ملک بھر کیلئے اجناس اور خوراک پیدا کرنے والے اس خطے کے باسی خود دو وقت کی روٹی کو پریشان ہیں۔ صنعتوں کا وجود نہیں‘ گھر سے نکلنے والے مزدوروں کی بڑی تعداد شام کو خالی جیب اور خالی ہاتھ واپس لوٹ جاتی ہے۔

سڑکیں کھنڈر بن چکی ہیں اور مواصلات کے شعبے میں برا حال ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے اور انسانی حقوق کی پامالی عروج پر ہے۔ ان حالات میں اس خطے سے صوبے کی آواز بھی بھرپور انداز سے اٹھ رہی ہے گزشتہ انتخابات میں ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے اس خطے کو نئے صوبے کی شکل دینے کا وعدہ کیا لیکن پھر خاموشی چھا گئی اب مسلم لیگ (ن) کی حکومت ملتان میں سول سب سیکرٹریٹ بنانے کی تیاریاں کر رہی ہے۔ جنوبی پنجاب کے مسائل کو جاننے اور اس میں حکومتی کردار کو پرکھنے کیلئے ایکسپریس نے فورم کا انعقاد کیا ۔ فورم کے شرکاء نے اجتماعی طور پر یہ موقف دیا کہ جنوبی پنجاب کے مسائل حل کرنے کیلئے نئے صوبے کا قیام ضروری ہے ایکسپریس فورم کی گفتگو پیش خدمت ہے۔

محمد بلال بٹ(صدر مسلم لیگ (ن) ضلع ملتان)

ملتان میں سول سب سیکرٹریٹ کا قیام دراصل نئے صوبے کی طرف پیش قدمی ہے مسلم لیگ (ن) نے جنوبی پنجاب کے لوگوں سے صوبے کا وعدہ کیا ہے اور مسلم لیگ (ن) ہی اس خطے کو صوبہ بنائے گی۔ سب سیکرٹریٹ پر تنقید کرنے والے بتائیں کہ انہوں نے خود اپنے ادوار میں اس خطے کیلئے کیا کیا۔ آج تک یہاں سے بڑے عہدوں پر کام کرتے رہے لیکن سب کو سانپ سونگھا رہا یہاں سے لاہور‘ اسلام آباد جانے والوں نے اپنے کام کرائے لیکن اس خطے کے حقوق کی بات نہیں کی۔ آج مسلم لیگ (ن) یہاں کے لوگوں کے مسائل حل کر رہی ہے تو ان کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ اس خطے سے مخدوم جاوید ہاشمی اور مخدوم شاہ محمود قریشی اقتدار میں رہے۔ اقتدار میں رہتے ہوئے تو انہوں نے کبھی صوبے کی بات نہیں‘ اپوزیشن میں آتے ہی انہیں صوبہ یاد آ گیا۔

سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے بھی صوبے کے معاملے پر صرف سیاست کی ہے اور انہوں نے لوگوں کو بے وقوف بنایا اب 64 رکنی کمیٹی صوبے کے حوالے سے کام کر رہی ہے اور اس کی سفارشات پر کام آگے بڑھے گا۔ صوبہ اس خطے کی ضرورت ہے اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا اور مسلم لیگ ن) ہی یہ صوبہ بنائے گی لیکن اس پر اجارہ داری کا تصور نہیں ابھرنا چاہئے اور اپنا لیبل لگانے کی بھاگ دوڑ بھی مناسب نہیں یہاں سرائیکی نان سرائیکی کا کوئی ایشو نہیں بلکہ پسماندگی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے لیکن ہمارے منتخب نمائندے بھی اپنے خطے سے مخلص نہیں آج یہاں کے ا رکان اسمبلی اکٹھے ہو کر صوبے کا مطالبہ لے کر میاں صاحبان کے پاس جائینگے تو بھلا وہ کیونکر انکار کر سکتے ہیں اب بہاولپور والے الگ صوبہ چاہتے ہیں یہ سب کسی نتیجے پر خود تو پہنچیں اس خطے کو وسائل نہ دینے کا الزام غلط ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے اس خطے کو 34 فیصد فنڈز دیئے ہیں اور آئندہ بھی دینگے۔

خالد حنیف لودھی (صدر پیپلز پارٹی ضلع ملتان)

جنوبی پنجاب مسائل میں گھرا خطہ ہے یہاں کے حالات صرف نئے صوبے کے قیام سے ہی سدھارے جا سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے ان حالات کا جائزہ لیا اور پھر صورتحال کی سنگینی دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ اس خطے کو نئے صوبے کی شکل دیدی جائے۔ سینٹ میں اکثریت ہونے کے باعث نئے صوبے کے قیام کا بل سینٹ میں پیش کیا گیا لیکن قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی پنجاب میں اکثریت نہ ہونے کے باعث پیپلز پارٹی اس بل کو منظور نہ کرا سکی۔ مسلم لیگ (ن) نے انتخابات کے موقع پر وعدہ کیا تھا کہ وہ اس خطے کو صوبہ بنائے گی۔

مسلم لیگ (ن) نے پنجاب اسمبلی میں قرارداد بھی منظور کرائی کہ بہاولپور اور ملتان دو صوبے بنائے جائینگے اب مسلم لیگ (ن) کے پاس حکومت اور اکثریت ہے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں صوبے کا قیام چاہتی ہیں اس لئے مسلم لیگ (ن) وعدہ پورا کرتے ہوئے صوبے کی تشکیل کیلئے کام کرے۔ اس خطے کی محرومیاں دور کرنے کیلئے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے بے تحاشہ ترقیاتی کام کروائے۔ سڑکیں تعمیر کی گئیں اور پل بنے جبکہ ملتان سے فیصل آباد تک موٹروے منصوبے پر کام شروع کیا گیا لیکن حکومت بدلنے کے بعد ان منصوبوں پر کام کی رفتار سست ہو گئی۔ حکومت ان منصوبوں پر تیزی سے کام مکمل کروائے تاکہ لوگوں میں پائی جانے والی بے چینی دور کی جاسکے اور اس خطے کے مسائل حل کرنے میں مدد دے اگر مسلم لیگ (ن) نے صوبہ بنانے کا وعدہ پورا نہ کیا تو پیپلز پارٹی اقتدار میں آ کر اپنے اس وعدے کو عملی شکل دے گی۔ دراصل مسلم لیگ (ن) اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے 60 فیصد آبادی کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتی ہے اب یہ کہتے ہیں کہ لوگوں کے مسائل حل کرینگے 35 برسوں سے پنجاب پر حکومت کرنے والوں نے اب تک اس علاقے کے مسائل حل کیوں نہیں کئے۔ انہوں نے سلطنت اور بادشاہت قائم کر رکھی ہے عوام کو اپنے حقوق کیلئے خود سڑکوں پر نکلنا ہو گا۔

اعجاز احمد جنجوعہ(صدر پاکستان تحریک انصاف ضلع ملتان)

جنوبی پنجاب میں بسنے والوں کو اپنے ہی لوگوں سے گلہ ہے گورنر سے وزیراعظم تک اس خطے سے حکمران آتے ہیں لیکن انہوں نے ووٹ لے کر اپنے خطے کو بھلا دیا اور آج بھی یہاں کے عوام مسیحا کے انتظار میں ہیں آج بے تحاشہ ناانصافیوں کی وجہ سے نئے صوبے کا معاملہ ابھر کر سامنے آیا ہے اور بتدریج اس میں سنگینی آتی جارہی ہے یہاں کیے فنڈز اپر پنجاب منتقل کر دیئے جاتے ہیں اس خطے کے لوگوں میں احساس محرومی بڑھ رہا ہے۔

غربت‘ مہنگائی اور بیروزگاری خوفناک شکل اختیار کر چکی ہے تعلیم اور صحت یہاں کے عام آدمی کے بس سے باہر ہو گئی ہے لیکن حکمران خاموش ہیں اگر اس خطے میں حالات یہی رہے تو وقت آئے گا کہ یہاں کا نوجوان بھی مایوس ہو کر بندوق اٹھا لے گا آخر ہمم کیوں لوگوں کے حقوق نہیں سمجھتے اور انہیں حق دینے سے کیوں کتراتے ہیں۔ ہم خود ملک کو بند گلی میں دھکیلنے میں لگے ہیں اور بتدریج اپنے حالات خراب کر رہے ہیں۔ حکمران اس خطے میں بسنے والوں کو پاکستان کے عوام سمجھیں اور ان پر ظلم کرنے کی بجائے یہاں کے وسائل اور اخراجات پر تمام کنٹرول یہاں کے لوگوں کو منتقل کریں۔

شیر زمان قریشی (صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن ملتان)

نئے صوبے کی آواز اس خطے کی متفقہ آواز ہے اور صرف سول سب سیکرٹریٹ کے قیام سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ مسلم لیگ (ن) جب بھی اقتدار میں آتی ہے اپنے ساتھ سول آمریت کا تحفہ لاتی ہے۔ لوگوں کے حقوق غصب کئے جاتے ہیں اور تسلط کو حکمرانی کا رستہ سمجھا جاتا ہے میری کوئی سیاسی جماعت نہیں۔ میری جماعت کالا کوٹ ہے یہی وجہ ہے کہ ہم لگی لپٹی رکھے بغیر سچ بات کہنے سے گریز نہیں کرتے۔ مسلم لیگ (ن) کے دور میں ظلم ہوتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ ملک میں جمہوریت نہیں شہنشاہیت ہے۔

وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان کے پاس ہیں لیکن اندھیر نگری ہے ہمیں عدلیہ میں تناسب کے اعتبار سے حصہ نہیں دیا جا رہا۔ ہمارے خطے کے لوگ ملازمتوں سے محروم ہیں ہم نے آمر کا مقابلہ کیا اور ملک میں جمہوریت بحال کرائی اب رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ ہمیں کالے کوٹ والوں کی ضرورت نہیں۔ بار کونسلوں کو ملنے والی گرانٹ 15 فیصد کر دی گئی ہے اگر لوگوں کو حقوق نہیں دینگے تو مسائل حل ہونے کی بجائے پیچیدہ ہونگے اور یہی ہو رہا ہے۔

اللہ نواز خان درانی(سابق صدر مسلم لیگ (ن) ضلع ملتان)

یہ سیاسی نہیں آنے والی نسلوں کا مسئلہ ہے قیام پاکستان کے وقت پاکستان کی آبادی اڑھائی کروڑ اور مشرقی پاکستان کی آبادی ساڑھے تین کروڑ تھی آج صرف پنجاب صوبہ کی آبادی 10 کروڑ سے بڑھ چکی ہے۔ سردار عبدالرب نشتر نے جب ملتان کا واحد نشتر ہسپتال بنایا تو ملتان کی آبادی صرف 2 لاکھ تھی آج صرف ملتان شہر کی آبادی 40 لاکھ سے بڑھ چکی ہے۔ زیریں سندھ بلوچستان اور پختونخواہ کے مریض بھی نشتر ہسپتال آتے ہیں یہاں پیر رکھنے کو جگہ نہیں ہوتی۔ اس خطے کو نشتر جیسے کم از کم 5 ہسپتالوں کی ضرورت ہے لیکن کسی حکومت نے اس پر توجہ نہیں دی۔ اس خطے کو آبادی کے لحاظ سے کم از کم 40 فیصد ملازمتوں کا کوٹہ ملنا چاہئے لیکن چپڑاسی بھی اوپر سے بھرتی ہو کر آتے ہیں۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے خطے کے عوام کو زخم دیئے ہیں خطے کے مسائل سب سیکرٹریٹ بنانے سے حل نہیں ہونگے۔

اصل اختیارات ایس ایچ او کے پاس ہوتے ہیں ایڈیشنل ایس ایچ او نمائشی ہوتا ہے سب سیکرٹریٹ کا نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا۔ پیپلز پارٹی نے بھی اس ایشو پر صرف سیاست کی عملی اقدامات نہیں اٹھائے۔ پی پی دور میں ہیلتھ اور ایجوکیشن پر کوئی کام نہیں ہوا صرف پلیاں بنائی گئیں۔ میں بھی تنقید کرنا چاہوں تو گھنٹوں بول سکتا ہوں لیکن میرا مخلصانہ مشورہ اور تجویز یہ ہے کہ تمام سیاسی‘ مذہبی‘ تاجر‘ وکلاء‘ سرائیکی و دیگر تنظیموں کو اپنی اپنی سیاست کو پس پشت ڈالتے ہوئے اس خطے کے مسائل کے حل کیلئے متحد ہونا چاہئے اور ایک دوسرے پر تنقید کے بجائے ہمیں مل کر چلنا ہو گا۔ حکومت اس خطے کے تعلیم اور صحت کے مسائل حل کرے‘ نشتر کی مینجمنٹ سیاسی ہاتھوں میں بطور رشوت دینے کی بجائے میرٹ پر اہل افراد کو دی جائے۔ نئے ایئر پورٹ کا کام فوری مکمل کیا جائے نئے چار کالجز کے لئے عمارات فراہم کی جائیں۔ الگ ہائیکورٹ‘ زرعی اور انجینئرنگ یونیورسٹیوں کیلئے فنڈز فراہم کئے جائیں۔

خواجہ محمد شفیق (چیئرمین آل پاکستان سمال ٹریڈرز ایسوسی ایشن)

اگر لوگوں کو ان کے بنیادی حق سے محروم رکھا جائے گا تو مایوسی بڑھے گی اور مایوسی بڑھے گی تو مسائل بڑھیں گے۔ دراصل اس خطے میں بسنے والے اپنی آواز کو موثر طاقت میں بدل ہی نہیں سکے جس کی وجہ سے حکمرانوں نے ان کے مسائل حل کرنے میں کبھی خاص دلچسپی نہیں لی۔

عوامی آواز کو طاقتور بنانا ہو گا لوگوں کو خود اپنے حقوق کیلئے اٹھنا ہو گا تب جا کر حکمرانوں کو یہاں کے مسئلے معلوم ہونگے اب تاجروں کو دیکھ لیں۔ اس ملک کے چھوٹے تاجر نے ہمیشہ مسلم لیگ (ن) کو سپورٹ کیا ہے لیکن جیسے ہی مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آتی ہے چند مخصوص صنعتکاروں کو اپنے گرد اکٹھا کر لیتی ہے اور تاجروں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا لیکن حکمران جان لیں کہ تاجروں کے پاس پہلے چوائس نہیں ہوتی تھی لیکن اب چوائس ہے اور اگر یہی حالات رہے تو تاجر اس نئی چوائس کی طرف راغب ہو جائینگے اس لئے اس خطے کے مسائل کو سنجیدگی سے دیکھا جائے جبکہ یہاں کے سیاسی نمائندوں کو بھی اپنا حق نمائندگی ادا کرنا چاہئے۔

راؤ ظفر اقبال (رہنما جماعت اسلامی)

جنوبی پنجاب مسائلستان بنا ہوا ہے لوگوں کو پینے کا پانی تک میسر نہیں ہمارے علاقے میں انسان اور جانور اکٹھے ٹوبوں سے پانی پی رہے ہیں اور حکمران ترقی کے دعوے کر رہے ہیں کیا ایک شہر ان کیلئے پورا پاکستان ہے۔ آخر ہم ملک میں نفرت کے بیج کیوں بو رہے ہیں لوگوں کو حقوق دینے سے کیوں کترا رہے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے کیوں کانٹے اگا رہے ہیں رنگ روڈ لاہور پر پورے جنوبی پنجاب سے زیادہ فنڈز لگا دیئے گئے لیکن ہمارے خطے میں لوگوں کو پانی تک فراہم نہیں کیا جا سکا۔

ہمارے خطے کی بہتری کیلئے پیپلز پارٹی نے کچھ کیا اور نہ مسلم لیگ (ن) کچھ کر رہی ہے یہاں ہر طرف مسائل کا انبار ہے لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں ناانصافی کا دور دورہ ہے اور حکمران سب اچھا کا راگ الاپ رہے ہیں۔ دونوں پارٹیاں عوام کو دھوکہ دے رہی ہیِں اگر یہ مخلص ہو کر صوبہ بنا دیں اور یہاں کے مسائل حل کریں تو اس کا سیاسی فائدہ بھی سب کو ہو گا اور لوگ بھی ان کے پیچھے کھڑے ہونگے۔

رانا فراز نون (چیئرمین سرائیکستان ڈیمو کریٹک پارٹی)

اس خطے کے مسائل کا حل فوری صوبے کا قیام ہے صوبہ بن جانے سے وفاق مضبوط ہو گا اور پاکستان کے مسائل میں کمی واقع ہو گی۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ملتان میں سول سیکرٹریٹ قائم کرنے کا اعلان دراصل اس خطے سے اٹھنے والی صوبے کی آواز دبانے کی کوشش ہے اور سیاسی فیصلہ ہے حکمران اب اپنے کئے گئے وعدوں سے بھی فرار ہو رہے ہیں۔ انہوں نے پنجاب میں دو صوبوں کی قرارداد منظور کرائی لیکن آج اس سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی سے توقع تھی کہ وہ صوبے کے مسئلے پر ٹھوس بنیادوں پر کام کرے گی لیکن انہوں نے بھی مایوس کیا اور مسلم لیگ (ن) سے مفاہمت کر لی۔ ہمیں قومی فنڈز میں سے معمولی رقم دی جاتی ہے جس کی وجہ سے یہاں کے مسائل بتدریج گھمبیر ہو رہے ہیں لیکن ہم مسائل کے حل کیلئے موثر آواز بلند کرینگے اور صوبے کے مطالبے سے کسی طرح بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔