یاسر حمید نے امید کا دامن نہ چھوڑا، ٹیم میں واپسی کیلیے پرامید

اسپورٹس ڈیسک  جمعرات 24 اپريل 2014
ڈومیسٹک کرکٹ میں کارکردگی کے سہارے کم بیک کروں گا، مڈل آرڈر بیٹسمین

ڈومیسٹک کرکٹ میں کارکردگی کے سہارے کم بیک کروں گا، مڈل آرڈر بیٹسمین

لاہور: ٹیسٹ کرکٹریاسر حمید ڈومیسٹک کرکٹ کے شاندار کارکردگی کے سہارے قومی ٹیم میں کم بیک کیلیے پرامید ہی، کہتے ہیں کہ گرین شرٹس اسکواڈ میں واپسی کیلیے سخت محنت کررہا ہوں، امید ہے کہ اس میں کامیاب ہوجاؤں گا۔

دبئی میں سپراسٹار ٹی 20 ٹورنامنٹ میں شریک پاکستانی بیٹسمین نے ’’ایکسپریس ٹریبیون‘‘ کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ میرا اصل ہدف قومی ٹیم میں واپسی ہے جس کیلیے اپنے آپ کو مکمل فٹ رکھنے کے ساتھ ساتھ ڈومیسٹک کرکٹ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ بھی کررہا ہوں۔

انھوں نے کہا کہ گذشتہ پریذیڈنٹ ٹرافی میں کارکردگی تسلی بخش رہی، ون ڈے ٹورنامنٹ میںبھی زیڈ بی ٹی ایل کی نمائندگی کرتے ہوئے اچھا پرفارم کیا، میں ڈپارٹمنٹل اور ریجنل ٹی 20 اور ون ڈے ٹورنامنٹ دوسرا سب سے زیادہ اسکور بنانے والا بیٹسمین بھی تھا جس نے میرے حوصلوں کو مزید بلند کردیا۔ یاسر حمید نے کہا کہ ماضی میں غیر ذمہ دارانہ اسٹروک کے ذریعے وکٹ گنوانے کی خامی پر بھی کافی حد تک قابو پالیااور اب قومی کرکٹ ٹیم میں مڈل آرڈر کے طور پر کھیلنے کیلیے مکمل تیار ہوں۔

واضح رہے کہ یاسر حمید نے2003 میں اپنے انٹرنیشنل کیریئر کا دھواں دار انداز میں آغاز کرتے ہوئے بنگلہ دیش کیخلاف ڈیبیو ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سنچری جڑی تھی، اس طرح وہ کرکٹ کی تاریخ میں ویسٹ انڈین لائوریسن کے بعد دوسرے بیٹسمین ہیں۔ انھوں نے چار سال تک لگاتار پاکستان کی نمائندگی کی تاہم 2007 میں وہ آئوٹ آف فارم ہونے کی وجہ سے ڈراپ کردیے گئے، اس کے تین سال بعد یاسر کو انگلینڈ کے دورے کیلیے دوبارہ منتخب کیا گیا لیکن انگلش سرزمین پر تین پاکستانی کھلاڑیوں کے اسپاٹ فکسنگ اسیکنڈل میں ملوث ہونے کے بعد ٹیم پلیئرز کے حوالے سے متنازع انٹرویو کے بعد وہ مسلسل قومی اسکواڈ سے دور ہیں۔ ٹیسٹ کرکٹر کا کہنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حوصلے پختہ اور کارکردگی میں نکھار آرہا ہے، اب میں پاکستان ٹیم میں جگہ بنانے کیلیے تیارہوں۔

یادرہے کہ رائٹ ہینڈر بیٹسمین نے پاکستان کی طرف سے 25 ٹیسٹ میچز میں 32.41 کی اوسط سے 1491 اور ایک روزہ کیریئر میں 36.87 کی ایوریج سے 2028 رنز بنا رکھے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔